جاگیر دار دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو جاگیر کے مالک ہوتے ہیں۔ دوسرے وہ جن کے پاس جاگیر قسم کی کوئی چیز نہیں ہوتی مگر ماشاء اللہ ذہنیت جاگیرداروں جیسی ہوتی ہے۔ فرنگی زبان میں اسے '' فیوڈل مائنڈ سیٹ‘‘ کہتے ہیں! پست خاندانی پس منظر سے کوئی یکدم بڑے منصب پر پہنچ جائے تو اسی ذہنیت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ پست خاندانی پس منظر سے مراد مفلسی نہیں‘ بلکہ تربیت کی کمی اور شرافت و نجابت کا فقدان ہے۔ بسا اوقات امیر زادوں کا خاندانی پس منظر پست ہوتا ہے کیونکہ ادب‘ آداب‘ تمیز‘ خوش اخلاقی اور انکسار سے عاری ہوتے ہیں۔ رویّے سے فرعونیت ٹپکتی ہے۔ بہت سی مثالیں ایسے افراد کی ہیں جو متوسط بلکہ زیریں طبقے سے ہیں مگر خاندانی پس منظر اتنا بڑا ہے کہ کمزوروں کے ساتھ انکسار سے پیش آتے ہیں اور طاقتوروں سے مرعوب نہیں ہوتے! اسی طرح‘ بالکل اسی طرح‘ کچھ افراد شاہی خاندانوں سے ہوتے ہیں۔ مگر کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا کسی شاہی خاندان سے دور دور کا تعلق نہیں ہوتا لیکن احساسِ کمتری اتنا شدید ہوتا ہے کہ رویہ اور طرزِ زندگی شاہی خاندانوں جیسا اختیار کر لیتے ہیں! ویسے جو بادشاہ تھے وہ بھی کہاں بادشاہ تھے! قطب الدین ایبک بازار میں بِکا ہوا غلام تھا۔ احمد شاہ ابدالی‘ جو افغانستان کا پہلا بادشاہ بنا‘ اصلاً نادر شاہ کا سیکرٹری اور بعد میں کمانڈر تھا۔ رضا شاہ پہلوی جو 1925ء میں ایران کا بادشاہ بن بیٹھا‘ قاچاریوں کے زمانے میں محض ایک کرنل تھا! ویسے جو بھد‘ ان نام نہاد شاہی خاندانوں کی فردوسی نے اُڑائی‘ مزے کی ہے۔ محمود غزنوی اصلاً غلام زادہ تھا۔ وہ تو اس کے باپ سبکتگین کی لاٹری نکل آئی کہ اس کے مالک الپتگین نے اپنی بیٹی کی شادی سبکتگین سے کر دی۔ محمود نے جو بدعہدی فردوسی کے ساتھ کی تھی‘ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں۔ فردوسی بھی پھٹ پڑا۔ ایسی ہجو کہی کہ آج تک محمود غزنوی کے ساتھ چمٹی ہوئی ہے۔
اگر شاہ را شاہ بودی پدر ؍ بسر بر نہادی مرا تاجِ زر
و گر مادرِ شاہ بانو بُدی؍ مرا سیم و زر تا بزانو بُدی
ز بد اصل چشمِ بہی داشتن ؍ بود خاک در دیدہ انباشتن
کہ اس کا باپ بادشاہ ہوتا تو میرے سر پر سونے کا تاج رکھتا۔ اس کی ماں اگر ملکہ ہوتی تو میں گھٹنوں تک سونے چاندی میں ڈوبا ہوا ہوتا۔ بد اصل سے اچھائی کی امید رکھنا ایسے ہی ہے جیسے اپنی آنکھوں میں مٹی ڈال لینا۔ ایک اور شعر میں فردوسی محمود کو ''پرستار زادہ‘‘ کہتا ہے یعنی غلام کا بیٹا!
پاکستان میں ایسے شاہی خاندانوں کی کمی نہیں جو شاہی خاندانوں سے نہیں ہیں مگر شاہی خاندان ہیں! مطلب تو آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے! یہاں مجھے وہ طوطا یاد آرہا ہے جو باتیں کرتا تھا۔ اس کے مالک کا ایک خاص دوست جب بھی آتا تو طوطا اس کا خوب مذاق اڑاتا اور تضحیک کرتا۔ دوست نے شکایت کی۔ مالک نے طوطے کو دھمکی دی کہ اس کے بعد اگر میرے دوست کا مذاق اڑایا تو پچھتاؤ گے۔ شام کو مالک کا دوست آیا تو طوطا اسے دیکھ کر صرف ہنسا اور کہنے لگا: ہنسنے کا مطلب تو تم سمجھ ہی گئے ہو گے! چنانچہ جب کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں ایسے شاہی خاندانوں کی کمی نہیں جو شاہی خاندانوں سے نہیں ہیں مگر شاہی خاندان ہیں! تو مطلب تو آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے! یہ شاہی خاندان مختلف شہروں سے تعلق رکھتے ہیں۔ لاڑ کانہ‘ نواب شاہ‘ ڈی آئی خان‘ ملتان‘ لاہور‘ رائے ونڈ‘ گجرات‘ پشاور اور کچھ اور شہر بھی ! ہم‘ آپ اور ہماری نسلیں ان شاہی خانوادوں کی رعیت ہیں! مستقبل قریب میں ہمارے سٹیٹس کے بدلنے کا امکان صفر ہے۔ ہم رعیت ہی رہیں گے! ایک شاہی خاندان کا لندن آنا جانا اس طرح ہے جیسے ہمارا آپ کا محلے کی دکان تک آنا جانا! کسی زمانے میں محاورہ تھا کہ چل چل کے راستہ بنا دیا۔ کسی سبزہ زار یا بنجر زمین پر جب ایک خاص سمت میں ہر کوئی چلتا ہے تو ایک راستہ‘ ایک ٹریک‘ بن جاتا ہے۔ اس شاہی خاندان کا لندن جانا اور آنا اور پھر جانا اور مسلسل آنا جانا اس قدر زیادہ ہے کہ فضا میں جیسے ٹریک ہی بن گیا ہے جو پاکستان سے سیدھا لندن جاتا ہے۔ عیدیں‘ شبراتیں‘ گرمیاں سردیاں‘ برساتیں‘ سب موسم‘ ساری رُتیں‘ سارے تہوار لندن ہی میں گزرتے ہیں۔ کاروبار بھی وہیں ہیں! ڈومیسائل بھی وہیں کے ہیں۔ لخت ہائے جگر بھی‘ بھائی بھی‘ سمدھی بھی‘ سب وہیں ہیں یا صبح شام جاتے ہیں۔ ہاں! حکومت کرنے کیلئے واپس آنا پڑتا ہے۔کیا ہی مثالی بندو بست ہو اگر حکومت بھی وہیں سے ہو۔یہ ناممکن بھی نہیں! اس ملک پر دبئی سے بھی تو حکومت ہوتی رہی ہے۔ پارٹی تو یوں بھی عرصہ دراز سے لندن ہی سے چلائی جا رہی ہے۔ پارٹی کے سینئر رہنماؤں پر‘ جن کی عمریں خارزارِ سیاست میں گزری ہیں‘ رحم بھی آتا ہے‘ ہنسی بھی اور غصہ بھی ! جڑیں ان بزرگ سیاستدانوں کی پاکستان میں ہیں اور ہدایات دیار ِ فرنگ سے ملتی ہیں! اقبال نے نصیحت کی تھی۔ اٹھا نہ شیشہ گرانِ فرنگ کے احساں ! مگر اقبال کو معلوم نہ تھا کہ فرنگی جائیں گے تو ایسا کھیل کھیلیں گے کہ ہمارے رہنماؤں کو ہی مستقل طور پر لندن میں رکھ لیں گے! پارٹی کی حالت یہ ہے کہ
میں اتھے تے ڈھولا تھَل وے ؍ مینڈی اللہ خدائی آلی گل وے
اس بار شاہی خاندان نے یہ کمال بھی دکھایا ہے کہ اپنے تین چار وفادار‘ جاں نثاروں کو نگران کابینہ میں وزارتیں دلوا دی ہیں! یوں کہیے کہ نگران کابینہ نگرانی کرتی ہے ! کس کی ؟ شاہی خاندان کے مفادات کی! ایک بات ضرور ہے! ان وفاداروں کے لیے سینیٹ کی نشستیں پکی ہیں! آپ کو یاد ہو گا ایک ریٹائرڈ پولیس افسر کو اسی خاندان نے وابستگی کا صلہ سینیٹ کی نشست کی شکل میں دیا تھا۔ حال ہی میں ان کی رحلت ہو ئی ہے۔ خدا اُن کی مغفرت کرے! اسی لیے عقلمند کہتے ہیں کہ ملک سے نہیں‘ بے وقوفو! خاندانوں کے ساتھ وفاداری نبھاؤ!
ایک اور بھی شاہی خاندان ہے۔تعیناتی کوئٹہ میں ہے۔ اعلیٰ ترین سرکاری بنگلہ اسلام آباد میں الاٹ ہواہے۔ اور الاٹ بھی تاریخی پوچھل (دُم ) کے ساتھ ہوا ہے۔ حکومت پاکستان کی پوری تاریخ میں ایسی الاٹمنٹ نہیں ہوئی۔جب بھی کوئی سرکاری مکان کسی کو الاٹ ہوتا ہے تو یہ الاٹمنٹ ''تاحکم ثانی‘‘ ہوتی ہے۔ مگر شاہی خاندان تو پھر شاہی خاندان ہیں۔ یہ الاٹمنٹ آئندہ ستائیس سال کیلئے ہوئی ہے۔ اعلیٰ ترین سرکاری مکان گریڈ اکیس یا بائیس کے سرکاری ملازموں کیلئے مختص ہوتے ہیں۔اس الاٹی کی عمر تینتیس ( 33 ) برس ہے۔ اس عمر میں اکیس یا بائیس گریڈ تک پہنچنا ناممکن ہے جبکہ کئی سینئر سرکاری ملازم‘ اسلام آباد میں تعینات ہو تے ہوئے‘ کئی کئی برسوں سے مکان کیلئے قطار میں کھڑے ہیں۔ اسی دارالحکومت میں یہ بھی ہوا کہ ایک نائب قاصد اپنے افسر کے آگے گڑ گڑایا کہ وہ ریٹائر ہو رہا ہے۔ سرکاری کوارٹر چلا جائے گا تو کہاں سر چھپائے گا۔ اس لیے اس کے بیٹے کو نوکری دی جائے تاکہ کوارٹر بیٹے کے نام منتقل ہو جائے۔افسر نے گھومتی ہوئی کرسی پر جھولا لیا‘ نکٹائی کی ناٹ درست کی اور سگرٹ کا کش لے کر سائل کو بتایا کہ بیٹے کو نوکری تب ملتی ہے جب باپ ملازمت کے دوران مر جائے۔ نائب قاصد اُسی سرکاری عمارت کی چھت پر گیا اور نیچے چھلانگ لگا کر‘ مر کر‘ رحمدل افسر کی شرط پوری کر دی!
وہ شہسوار بہت نرم دل تھا میرے لیے
چبھو کے نیزہ‘ زمیں سے اٹھا لیا مجھ کو
ویسے ستائیس برس کے لیے مکان الاٹ کرانا بڑے دل گردے کا اور مضبوط اعصاب کا کام ہے۔ یہاں تو زندگی کی ضمانت ایک پل کی نہیں۔
بلھے شاہ! اسی مرنا ناہیں‘ گور پیا کوئی ہور!
تو گور میں تو عوام جائیں گے! شاہی خاندانوں والے‘ یوں لگتا ہے‘ ہمیشہ زندہ رہیں گے!!