ایک پناہ گاہ جو ہمیشہ رہے گی !

ہر ادبی محفل میں شاعروں سے پوچھا نہیں جاتا بلکہ انہیں بتایا جاتا ہے اور بہت ٹھُسّے سے بتایا جاتا ہے کہ کمپیوٹر کا زمانہ ہے۔ شاعری کون کرتا ہے اور کون پڑھتا ہے! ! شاعر اس نادر شاہی بیان کا کیا جواب دیں! بیان داغنے والے اور اسے ہر بزم میں دہرانے والے ایک بات بھول جاتے ہیں۔ اور وہ یہ کہ کوئی کتنا ہی کمپیوٹر پرست ہو جائے ‘کوئی کتنا ہی ٹیکنالوجی میں ڈوب جائے ‘ جس دن بیٹے کی بے مثال کامیابی پر خوش ہو گا اور خوشی سے آنسو نکل آئیں گے اور جس دن اس کی ماں ہمیشہ کے لیے چلی گئی اور کلیجے میں دُکھ کی اَنی چبھی تو شاعری ہی میں پناہ لے گا۔ اپنی نہ ہوئی تو دوسروں کی شاعری پڑھے گا اور سنے گا۔ جب تک انسان کے سینے میں دل ہے اور جب تک یہ دل دھڑکتا ہے‘ شاعری ‘ موسیقی اور مصوری زندہ رہیں گی! اور خلقِ خدا کو مسرت اور اندوہ دونوں حالتوں میں اپنی آغوش میں لیتی رہیں گی!
شاعری ہو رہی ہے اور کمال کی شاعری ہو رہی ہے! کوئی بھی ادبی محفل ہو‘ نوجوان شعرا کرم کرتے ہیں اور اپنی کتابیں عنایت کرتے ہیں! ان میں سے کچھ چکھی جاتی ہیں‘ کچھ نگلی جاتی ہیں اور کچھ مزے سے چاٹی جاتی ہیں اور دیر تک چاٹی جاتی ہیں! ایسی ہی ایک بزم میں ‘ چند دن پہلے ایک نوجوان نے اپنا شعری مجموعہ دیا۔ میں اس نوجوان کو سرسری طور پر ہی جانتا ہوں۔ ادبی محفلوں میں ہی ملا ہے۔ باقاعدہ ملاقات ہے نہ رابطہ! مگر اس کی شاعری پڑھی تو پڑھتا ہی گیا۔ حماد نیازی‘ نہیں معلوم ‘ کس دنیاوی پیشے سے تعلق رکھتا ہے۔ نام سے میانوالی کا لگتا ہے۔اس کے اشعار نے متاثر کیا۔ چند اشعار پیشِ خدمت ہیں! خاص طور پر ان صاحبان کے لیے جو شاعری کو از کارِ رفتہ گردانتے ہیں!
دعائیں کھڑکی سے جھانکتی تھیں
میں اپنے گھر سے نکل رہا تھا
ضعیف انگلی کو تھام کر میں
بڑی سہولت سے چل رہا تھا
عجیب حسرت سے دیکھتا ہوں
میں جن مکانوں میں کل رہا تھا
٭......٭......٭
جس کو تاپ کے گرم لحافوں میں بچے سو جاتے تھے
دل کے چولہے میں ہر دم وہ آگ برابر جلتی تھی
گرم دوپہروں میں جلتے صحنوں میں جھاڑو دیتے تھے
جن بوڑھے ہاتھوں سے پک کر روٹی پھول میں ڈھلتی تھی
٭......٭......٭
ہم اپنے خواب روایت کریں گے فردا میں
اور ایک گزرے زمانے میں کام آئیں گے
٭......٭......٭
پھول ہی پھول تھے مکانوں میں
اب نہیں ہیں‘ بتائیے گا نہیں
یہ جو دیوار ہے درختوں کی
اس کے سائے سے جائیے گا نہیں
٭......٭......٭
بڑے بڑے شہروں میں آکر وحشت کی خوراک ہوئے
چھوٹے چھو ٹے قصبوں میں ہم اُجلے اُجلے لگتے تھے
٭......٭......٭
میں مچھلی سوکھے دریا کی
مجھے ساحل پر دفنا دینا
میں ویرانی کا باغیچہ
مجھے شادابی بھجوا دینا
میں ذرہ تیری مٹی کا
مجھے مٹی میں ملوا دینا
مری ماں کی بوڑھی آنکھوں میں
بچپن کا باغ اُگا دینا
میں تختی اپنے بچوں کی
مجھے بستے میں رکھوا دینا
کوئی بوسہ گیلی مٹی کا
مرے گالوں پر چپکا دینا
مرے صحن کو اینٹیں روند گئیں
مرا صحن مجھے لوٹا دینا
بھروا دینا مرے کاسے کو
مرے کاسے کو بھروا دینا
حماد نیازی نے شاعری کے رنگ میں خود نوشت بھی لکھی ہے۔ یہ اور بات کہ اس جوانی میں خود نوشت کا سوچنا اور لکھنا قبل از وقت ہے۔ کون جانے کل کیا ہو؛ تاہم گزرا ہوا ہر دن تاریخ کا حصہ ہے اور تاریخ لکھی جانی چاہیے۔ وہ تاریخ بھی جسے ہسٹری کہتے ہیں اور وہ تاریخ بھی جسے ڈیٹ کہتے ہیں! حماد کی اس خود نوشت کے کچھ حصے مجھے میرے گاؤں میں لے گئے۔ جیسے اماں دیجو نے وقت کی مدھانی سے نمکین لسّی بنائی اور محلے کے سارے بچے پیاس کے برتن لے آئے / اماں حیاتاں اپنی چار بیٹیوں کے خواب طاق میں رکھ کر مسکرائی اور اس کی آنکھوں میں مسرت سمٹ آئی / اماں بھری نے اپنے دوپٹے کی گانٹھ کھولی اور اپنی بچی کھچی عمر شوہر کی قبر پر رکھ آئی / اماں مِیراں نماز کی چادر کو اپنے بیمار تن کی چادر سے لپیٹ کر جناح ہسپتال سے نکلی اور موسیٰ خیل کے '' نانگ سلطان والے قبرستان‘‘ کے اندھیرے میں کھو گئی/ اماں سید بی بی نے اپنے چاندی بھرے بالوں سے صدر دروازے کی چابی نکالی اور بڑھاپے کا آخری گیت اس کے ہونٹوں سے گر پڑا / میری ماں نے آیت الکرسی پڑھ کر مجھ پر پھونکی اور میں جلدی میں دعا کا تعویذ گھر کی دیوار پر بھول آیا۔
شاعری ہمیشہ انسان کی پناہ گاہ رہی ہے اور ہمیشہ رہے گی! شاعری ہمیں ہمارے چھوڑے ہوئے کچے گھروں ‘ دھواں دیتے تنوروں‘ اُپلوں بھری دیواروں‘کھیتوں کھلیانوں اور مویشیوں کے گلے میں لٹکے گھنگھروؤں کی آوازوں سے جوڑ کر رکھتی ہے۔ ہماری زندگی کے لمحہ لمحہ ادھڑتے کُرتے کی بخیہ گری کرتی ہے! شاعری دُکھ میں ہمارا کتھارسس ہے اور خوشی میں ہماری ہم رقص! یہ وہ ساتھی ہے جو ہم سے ہماری کامیابی میں حسد نہیں کرتی اور ناکامی میں ہمارا ساتھ نہیں چھوڑتی ! سب سے بڑھ کر یہ کہ کوئی کوشش سے شاعر نہیں بن سکتا! بھائی ! یہ فن اکتسابی نہیں ‘ وہبی ہے۔ یہ قدرت کی عطا ہے اور یہ عطا سب کے نصیب میں نہیں! بقول محبوب خزاں:
بات یہ ہے کہ آدمی شاعر
یا تو ہوتا ہے یا نہیں ہوتا
سو‘ شاعروں کی قدر کیجیے! انہیں خلعتوں‘ گھوڑوں‘ ہاتھیوں ‘ جاگیروں کی ضرورت نہیں! بس انہیں سن لیجیے! کم از کم سُن ہی لیجیے۔ شاعر آپ کے آٹے میں نمک کی مثال ہیں! کم مگر بے حد ضروری ! مجید امجد نے جو شعر گلاب کے پھولوں کے لیے کہا ہے‘ لگتا ہے اصل میں شاعروں کے لیے کہا ہے
سلگتے رہتے ہیں‘ چُپ چاپ ہنستے رہتے ہیں
مثالِ چہرۂ پیغمبراں گلاب کے پھول!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں