دو کمروں کا چھوٹا سا سرکاری کوارٹر تھا جس کے سامنے جہازی سائز کی کار رُکی!
کار میں سے دو افراد اُترے۔ ایک ادھیڑ عمر شخص اور دوسرا اٹھارہ بیس سال کا نوجوان! ادھیڑ عمر شخص نے دروازے پر دستک دی! کوارٹر سے ایک صاحب نکلے اور کہا: جی! فرمائیے! ادھیڑ عمر شخص نے بتایا کہ وہ ایک چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہے۔ اس کوارٹر میں اس نے بچپن اور لڑکپن گزارا ہے۔ یہ سرکار کی طرف سے اس کے والد کو الاٹ ہوا تھا۔ ان کا کنبہ یہاں کئی سال رہا۔ آج وہ اپنے بیٹے کو یہ کوارٹر دکھانے آیا ہے۔ پھر اس نے کوارٹر میں رہنے والے ان صاحب سے کہا کہ اگر ان کے گھر والوں کو زحمت نہ ہو تو وہ بیٹے کو کوارٹر اندر سے دکھانا چاہتا ہے۔ اس نے اجازت دے دی۔ ادھیڑ عمر شخص بیٹے کو اندر لے گیا۔ اسے دکھایا کہ یہ دو کمرے تھے جن میں پانچ افراد رہتے تھے۔ چھوٹا سا باورچی خانہ اور ایک غسل خانہ تھا۔ گیزر قسم کی کوئی شے نہ تھی۔ نہانے اور وضو کرنے کے لیے پانی چولہے پر گرم کیا جاتا تھا اور بالٹی میں ڈال کر غسل خانے میں لے جایا جاتا تھا۔ بیٹا دم بخود ہو کر دیکھتا اور سنتا رہا۔ پھر ادھیڑ عمر شخص نے کوارٹر میں رہنے والے صاحب کا شکریہ ادا کیا۔ دونوں باپ بیٹا کار میں بیٹھے اور ڈرائیور سے چلنے کو کہا!
یہ سو فیصد سچا واقعہ میرے ایک دوست کا ہے۔ لڑکے کو کوارٹر دکھانے کی وجہ یہ بنی کہ ایک شام وہ دفتر سے واپس آیا تو بیوی نے بتایا کہ بیٹا جِز بِز ہو رہا تھا۔ کہہ رہا تھا کہ پڑھنے کے لیے ڈھنگ کی جگہ کوئی نہیں! چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کو یہ مکان اس کی کمپنی کی طرف سے ملا ہوا تھا۔ یہ ایک چار بیڈ روم گھر تھا۔ دو لاؤنج تھے۔ ایک بڑا سا ڈرائنگ روم تھا۔ ایک کھانے کا کمرہ تھا۔ ایک بڑی سی راہداری تھی۔ تقریباً ایک کنال کا لان تھا۔ اس نے بیٹے کو کچھ بھی نہ کہا۔ گاڑی میں بٹھایا اور سیدھا اس کوارٹر میں لے گیا جہاں رہ کر اس نے اپنے تعلیمی مدارج طے کیے تھے۔ کوارٹر دکھانے کے بعد وہ بیٹے کو ایک ریستوران میں لے گیا۔ اس کے لیے کچھ کھانے کو منگوایا۔ پھر اسے بتایا کہ اس دو کمروں والے کوارٹر میں وہ اپنے ماں باپ اور بھائی بہنوں کے ساتھ رہتا تھا۔ بس یہی دو کمرے تھے۔ کوئی ڈرائنگ روم تھا نہ لاؤنج‘ نہ کھانے کے لیے الگ کمرہ! اس کوارٹر میں رہ کر وہ ہر کلاس میں ٹاپ کرتا رہا۔ بی کام کیا۔ اسی کوارٹر میں رہ کر اس نے سی اے کیا۔ اس نے ایک دن بھی اپنے ماں باپ سے شکایت نہ کی کہ پڑھنے کے لیے ڈھنگ کی جگہ نہیں ہے اور اب جب وہ ایک محل میں رہتا ہے جس میں کل ملا کر آٹھ نو کمرے بنتے ہیں‘ اس کا بیٹا کہتا ہے کہ پڑھائی کرنے کے لیے گھر میں ڈھنگ کی جگہ کوئی نہیں۔ اس دن کے بعد لڑکے نے کبھی شکایت نہ کی۔
واقعہ سنانے کا مقصد یہ عرض کرنا ہے کہ اس ملک میں مقدر بدلنا ناممکن نہیں! تمام قباحتوں‘ سماجی ناہمواریوں‘ طبقاتی تفریق اور دیگر کئی مسائل کے باوجود ٹیلنٹ کا راستہ کوئی نہیں روک سکتا۔ آپ اپنے ارد گرد دیکھیے‘ آپ کو کئی مثالیں ایسی نظر آئیں گی جن میں لوگوں نے عمودی ترقی (Vertical mobility) کی ہے۔ عمودی ترقی اور افقی حرکت (Horizontal mobility) کو سمجھنے کے لیے فرض کیجیے دو لڑکے ہیں۔ دونوں کے باپ ایک دفتر میں کلرک ہیں۔ ایک لڑکا محنت کر کے ڈاکٹر اور پھر سرجن بن گیا۔ یہ عمودی ترقی تھی۔ دوسرا باپ کی طرح کلرک بنا۔ یہ افقی حرکت پذیری تھی۔ میں ایک منظر نہیں بھول سکتا۔ کاکول میں پاسنگ آؤٹ پریڈ کا موقع تھا۔ میں نے دیکھا کہ ایک کیڈٹ کو ایک شخص گلے مل رہا تھا۔ یہ شخص تہمد پوش تھا۔ سر پر پگڑی تھی۔ میں اس کے پاس گیا اور پوچھا کہ یہ کیڈٹ اس کا کیا لگتا ہے۔ اس نے کہا کہ اس کا بیٹا ہے۔ وہ ایک کسان تھا اور اب ایک سیکنڈ لیفٹیننٹ کا باپ!! تب میں نے اس حوالے سے ''جزیرہ‘‘ کے عنوان سے کالم بھی لکھا تھا۔ اس ملک میں دو ادارے ایسے ہیں جہاں میرٹ کی بنیاد پر عام آدمی کے بچوں کو کیریئر بنانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ایک کاکول۔ دوسرا وفاقی اور صوبائی پبلک سروس کمیشن جو مقابلے کے امتحان کا بندو بست کرتے ہیں۔ عسکری اور سول بیورو کریسی کو برا بھلا کہنا اور گالیاں دینا ہم لوگوں کا مشغلہ ہے۔ اس کالم پر جو کمنٹ آئیں گے ان کا تصور میں اس وقت بھی بخوبی کر رہا ہوں۔ فوجی اور سول بیورو کریسی دونوں نقائص سے پاک بھی نہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کی اکثریت بالکل عام گھرانوں سے ہے۔ ہاں جو کامیاب نہ ہو سکے‘ وہ یہ ضرور کہے گا کہ سفارش چلتی ہے۔ سروے کر کے یا کرا کے دیکھ لیجیے۔ عام خاندانوں کے بچے بچیاں زندگی کی دوڑ میں آگے نکل رہے ہیں اور صرف اور صرف میرٹ کی بنیاد پر۔ ان کی سفارش ان کی محنت ہے۔ دو تین برس پہلے سب نے میڈیا میں پڑھا اور سنا کہ پانچ بہنیں سول سروس میں آئیں۔ ان کا والد واپڈا میں سترہ یا اٹھارہ گریڈ کا افسر تھا۔ آخر ان کی کون سی سفارش تھی؟ میں بے شمار کامیاب افراد کو جانتا ہوں جن کے فیملی بیک گراؤنڈ میں امارت یا سفارش یا سیاسی کنکشن کا دور دور تک نام و نشان نہ تھا۔ میرا ایک دوست بینک کے بہت بڑے عہدے سے ریٹائر ہوا ہے۔ اس کا والد ناخواندہ تھا۔ ایک اور دوست ایک ملٹی نیشنل کمپنی کی بڑی پوسٹ پر رہا۔ اس کا والد بھی ناخواندہ تھا۔ سی ایس ایس کے ایک پولیس افسر کا والد نائب قاصد تھا۔ آپ ڈاکٹروں‘ انجینئر وں‘ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹوں‘ کامیاب وکیلوں‘ بینکاروں‘ مشہور صحافیوں‘ میڈیا مالکوں‘ سائنسدانوں اور پروفیسروں کا سروے کر لیجیے۔ بھاری اکثریت سونے کا تو کیا‘ تانبے کا چمچ بھی منہ میں لے کر پیدا نہیں ہوئی۔ بہت زیادہ تعداد اوسط آمدنی والے گھرانوں سے اٹھی ہے۔ کامیابی کی وجہ صرف محنت اور ذہانت ہے۔ یہ دونوں چیزیں قدرت نے اپنے ہاتھ میں رکھی ہیں۔ محنت کرنا ایک صفت ہے جو صرف اور صرف قدرت کا عطیہ ہے۔ اسی طرح ذہانت حاصل کرنے کے لیے گجرات یا رائیونڈ یا لاڑکانہ یا نواب شاہ کی سفارش نہیں چاہیے!
بیروزگاری موجود ہے مگر ان کے لیے نہیں جو محنت کر کے ٹاپ کی پوزیشنیں حاصل کرتے ہیں۔ ان کے لیے نہیں جو اپنے کیریئر کا انتخاب مارکیٹ کی حالت دیکھ کر کرتے ہیں! جو افراد اندھا دھند‘ سوچے سمجھے بغیر‘ عقلمندوں سے مشورہ کیے بغیر‘ صرف ڈگری لینے کو کامیابی سمجھتے ہیں‘ وہ اپنی بیروزگاری کے ذمہ دار خود ہیں۔ ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا ایم اے کرنا لیاقت ہے نہ دانائی! کیریئر صرف گریجوایشن کر کے بھی پلان کیا جاسکتا ہے! جو نوجوان سالہا سال سرکاری نوکری کی تلاش میں جوتے چٹخاتے رہتے ہیں‘ وہ اگر نجی شعبے میں کوئی کام شروع کر دیتے تو اتنے عرصہ میں کہاں سے کہاں جا پہنچتے! آپ اُن ٹیلرز کو دیکھیے جو آج بیس بیس‘ تیس تیس درزیوں کو ملازمت پر رکھے ہوئے ہیں! اُن صوفہ سازوں کو دیکھیے جو اپنی محنت اور درست منصوبہ بندی کے سبب فرنیچر کے عالی شان شوروموں کے مالک ہیں!
کوئی مانے یا نہ مانے‘ اس ملک کی مٹی میں سونا ہے اور خالص سونا ہے۔ محنت‘ ذہانت‘ درست پلاننگ اور دیانت ! ان خصائص کے مالکوں کو آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا! ہمت درکار ہے۔ اور اونچی سوچ! تعبیر انہی کو ملتی ہے جو خواب دیکھتے ہیں! نصب العین بلند ہو تو کامیابی ضرور حاصل ہوتی ہے۔ ارادہ ہی یہ ہو کہ بس گزارہ چلتا رہے تو پھر گزارے سے آگے کچھ نہیں ملے گا۔خواجہ حیدر علی آتش بہت پہلے کہہ گئے :
سفر ہے شرط، مسافر نواز بہتیرے
ہزار ہا شجرِ سایہ دار راہ میں ہے