اقبال نے افغانوں کے منّت ترلے کئے تھے ؎؎
رومی بدلے‘ شامی بدلے‘ بدلا ہندوستان
تو بھی اے فرزندِ کہستاں! اپنی خودی پہچان
اپنی خودی پہچان
او غافل افغان !
سو‘ افغانوں نے اپنی خودی پہچان لی ہے! اور مُصر ہیں کہ پاکستان کے دروازے پر ہی پڑے رہیں گے خواہ پاکستان انہیں مزید رکھنے کے لیے تیار نہ ہی ہو! ! ان کے ترجمان نے کہا ہے کہ پاکستان کا فیصلہ( کہ غیر قانونی طور پر رہنے والے غیر ملکیوں کو نکال دیا جائے گا) ناقابلِ قبول ہے! اس بیان کی لذت سے صحیح لطف آپ تبھی اٹھا سکتے ہیں جب آپ کسی بے گھر کو اپنے گھر میں پناہ دیں۔ پھر کافی عرصہ کے بعد آپ اسے کہیں کہ بھائی ! بہت رکھا تمہیں! اب میری کچھ مجبوریاں ہیں اس لیے ازراہِ کرم یہاں سے چلے جاؤ اور وہ آپ کو بتائے کہ یہ فیصلہ قابلِ قبول نہیں ہے !!
اس میں کیا شک ہے کہ افغان ایک خود دار قوم ہے! عزتِ نفس کا خیال رکھنے والی! کسی غیر ملکی طاقت کو اپنے ملک میں برداشت کیا نہ کبھی کریں گے! مگر یار لوگ اس خود داری اور عزتِ نفس کا غلط مطلب لے لیتے ہیں! وہ سمجھتے ہیں کہ خود داری کا اور عزتِ نفس کا مطلب یہ بھی ہے کہ کسی کے گھر میں بن بلائے نہ چلے جاؤ! مہمان بھی بنے ہو تو میزبان پر بوجھ نہ بنو۔ قیام کو جس قدر مختصر کرتے ہو‘ کرو اور میز بان کا شکریہ ادا کر کے رخصت ہو جاؤ! لیکن اصل میں ایسا نہیں ہے! کسی کے ہاں پڑے رہنا‘ اُسی کا کھانا‘ اُسی کو برا بھلا کہنا اور منت ترلے کے باوجود وہیں رہنے پر اصرار کرنا خود داری کے خلاف بالکل نہیں ہے! سچ پوچھیے تو اس سے عزت ِنفس پر کوئی حرف نہیں آتا! جو نہیں جانتے‘ وہ خود داری اور عزتِ نفس کی یہ نئی تعریف اچھی طرح سمجھ لیں!
کچھ لوگ اس خوش فہمی میں تھے کہ امریکہ کے جانے کے بعد افغانوں کی اپنی حکومت آئی ہے تو وہ اپنے اُن تمام ہموطنوں کو واپس بُلا لیں گے جو دیارِ غیر میں مہاجر بن کر رہ رہے ہیں۔ وہ انہیں کہیں گے '' ہم نے آزادی حاصل کر لی ہے! آپ لوگ واپس اپنے وطن میں آؤ! جو کچھ میسر ہے مل کر کھا ئیں گے۔ محنت کریں گے اور ملک کو ترقی کے راستے پر لائیں گے!‘‘۔ یہ خوش فہمی‘ خوش فہمی ہی رہی! بلکہ نہلے پر دہلا یہ ہوا کہ جو پہلے افغانستان سے باہر رہ رہے تھے‘ وہ واپس کیا جاتے‘ لاکھوں اور بھی ملک سے نکل کر غریب الوطن ہو گئے!! بقول احمد فراز
رات کیا سوئے کہ باقی عمر کی نیند اُڑ گئی
خواب کیا دیکھا کہ دھڑکا لگ گیا تعبیر کا
اس تصویر کا دوسرا رُخ بھی ہے اور معاف کیجیے گا وہ رُخ خوشنما نہیں ہے! افغانوں پر جو کچھ گزری ہے اس میں چند پاکستانی چوہدریوں اور نظریاتی ٹھیکیداروں کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ ان چوہدریوں اور ٹھیکیداروں کے سر خیل جنرل ضیا الحق تھے! ان خودغرض اور جاہ پرست لوگوں نے افغان نوجوانوں کو جنگ کا ایندھن بنایا۔ مگر اپنے بچوں کو '' جہاد‘‘ کے فرض سے کوسوں دور رکھا!ان کے اپنے بچے پنڈی میں‘ پشاور میں اور امریکہ میں پھلتے پھولتے رہے۔خاندانوں کے خاندان راتوں رات سرکاری ملازموں سے بدل کر صنعتکار ہو گئے! اپنے بچوں کے ہاتھوں میں ان سفاک افراد نے قلم اور لیپ ٹاپ دیے اور غریب پاکستانی اور افغان بچوں کے ہاتھوں میں بندوقیں اور کلاشنکوفیں دیں! انہیں جنگ کی اگلی صفوں میں دھکیلا اور خود اپنے پُر تعیش ڈرائنگ روموں میں‘ دبیز ریشمی صوفوں پر براجمان ہو کر‘ جنگ کی بھٹی کو سلگاتے اور بھڑکاتے رہے! ان سے کسی نے نہ پوچھا کہ اگر یہ جہاد ہے تو تم اس کی قیادت کیوں نہیں کرتے؟ اپنے بچوں کو اس عظیم الشان ثواب سے کیوں محروم کر رہے ہو؟ ان میں سے کسی کو خیال نہ آیا کہ افغانوں کو جنگ کی بھٹی میں جھونکنے کے بجائے افغانستان میں تعلیم‘ صنعت اور تجارت کو فروغ دیں! ایسا کرتے تو پھر چوہدراہٹ اور ٹھیکیداری ہاتھ سے نکل جاتی! یہ کوتاہ نظر‘ افغانستان کو پانچواں صوبہ سمجھتے رہے۔ ذہن میں یہ تھا کہ بابر سے لے کر اورنگ زیب کے عہد تک کابل دہلی کا ماتحت ہی تو تھا۔ مگر یہ بھول گئے کہ لودھیوں اور سُوریوں کی شکل میں افغان اُس ہندوستان کے بادشاہ بھی رہے موجودہ پاکستان جس کا حصہ تھا! جیسا کہ اقبال نے کہا تھا ؎
ہے خاکِ فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہلِ عرب کا
میٹھا میٹھا ہپ اور کڑوا کڑوا تھو؟
پیرانِ تسمہ پا نے ایک اصطلاح وضع کی۔ تزویراتی گہرائی! یعنی Strategic depthکون سی تزویراتی گہرائی؟ آج نام نہاد تزویراتی گہرائی گلے میں پھنس گئی ہے۔اب حالت یہ ہے کہ میں تو کمبل کو چھوڑتا ہوں‘ کمبل مجھے نہیں چھوڑتا! ویسے حیرت ہے کہ آج شور مچا ہوا ہے کہ افغان کھا گئے! ڈالر افغانستان جا رہے ہیں! ٹرانزٹ ٹریڈ سے پاکستان کو نقصان ہو رہا ہے۔ تو کیا اس کے ذمہ دار افغان ہیں؟ یا وہ محکمے جو بھاری تنخواہیں لے رہے ہیں؟ اگر ڈالر افغانستان جا رہے تھے تو کیا زیر زمین سرنگوں کے راستے لے جائے جا رہے تھے؟ روکنا کس کی ذمہ داری تھی؟ جو اسے روکنے میں ناکام ہوئے کیا انہیں پکڑا گیا؟ عبرتناک سزا تو دور کی بات ہے‘ کیا انہیں معمولی سزا بھی دی گئی؟ کوئی محاسبہ؟ ذمہ داری کا کوئی تعین؟ کوئی عدالتی کارروائی؟ کوئی محکمہ جاتی تفتیش ؟ کیا افغانوں نے آپ سے معاہدہ کیا تھا کہ وہ پاکستان کے مفادات کی حفاظت کریں گے؟ ہر ملک اپنے مفادات کی حفاظت خود کرتا ہے! جو فائدہ اٹھا سکے‘ اٹھاتا ہے! اپنے فرائض آپ نے خود نہیں نبھائے‘ اور اب سودا کے بالیں پر شورِ قیامت بھی خود برپا کر رہے ہیں! گاؤں کے زمیندار نے بچے کو گُڑ کھانے سے منع کیا تھا۔ وہ گُڑ کھاتا پکڑا گیا تو کہنے لگا مجھے نوکر نے دیا ہے اسے ڈنڈے سے مارا جائے!
آج کہا جا رہا ہے کہ مصنوعی کپڑا‘ بجلی کا سامان‘ ٹائر‘ مشینری‘ پلاسٹک کی مصنوعات‘ افغانستان میں خوب خوب درآمد ہو رہی تھیں جبکہ افغانستان میں ان کی مانگ ہی نہیں تھی۔ دوسری طرف پاکستان میں ان کی درآمد ضرورت سے کم ہو رہی تھی۔ اس کمی کو اس طرح پورا کیا جارہا تھا کہ یہی اشیا افغانستان سے غیر قانونی طور پر آتی رہیں اور اس کے عوض ڈالر افغانستان جاتے رہے! یہاں ایک بے وقوف انسان بھی ایک ہی سوال پوچھے گا کہ کیا پاکستان جنگل تھا؟ یہاں قانون کوئی نہیں تھا؟ سمگلنگ روکنے والے کیا کر رہے تھے؟ حکومتوں نے اس گھناؤنے جرم کو روکنے کیلئے کیا اقدامات کیے؟ ایسا جرم‘ ایسی غداری چین میں ہوتی‘ یا سنگا پور میں‘ یا خود افغانستان میں تو ذمہ داروں کو موت سے کم سزا نہ دی جاتی!! یہاں تو نادرا جیسے حساس ادارے میں ماضی میں افغان ملازم ''دریافت‘‘ کیے گئے! کیا افغان حکومت نے درخواست دی تھی یا پستول دکھایا تھا کہ ہمارے شہریوں کو اپنے حساس اداروں میں ملازم رکھو؟؟ آج ہمارے نگران وزیر خارجہ فرماتے ہیں کہ کوئی ملک غیر قانونی تارکینِ وطن کو رہنے کی اجازت نہیں دیتا اور یہ فیصلہ عالمی طرزِ عمل کے عین مطابق ہے۔ تو جہاں پناہ! پاکستان کو یہ خبر کیا اب ملی ہے کہ کہ کوئی ملک غیر قانونی تارکین وطن کو رہنے کی اجازت نہیں دیتا ؟ دہائیاں بیت گئیں‘ غیر قانونی تارکین وطن کو کیوں نہ پوچھا گیا؟؟ ایران بھی ایک ملک ہے! وہاں کے حکمران بھی‘ ہمارے حکمرانوں کی طرح دو ہی کان‘ دو ہی آنکھیں اور ایک ہی سر رکھتے ہیں! وہاں بھی افغان پناہ گزین گئے! اور لاکھوں کی تعداد میں گئے! مگر ایران نے انہیں کیمپوں سے باہر نہ نکلنے دیا۔ آپ نے انہیں پورے ملک میں پھیلا دیا اور کاروبار اور جائدادیں پلیٹ میں رکھ کر پیش کیں؟ کیوں؟ اس خود کش پا لیسی کو بنانے والے کون تھے ؟ کیا ان کا احتساب ہوا؟