غزہ کے رہنے والو!

غزہ کے رہنے والو! گھبراؤ نہیں! ہم تمہارے ساتھ ہیں!
ہم ہر اسرائیلی حملے کے جواب میں ایک جلوس نکال رہے ہیں! ہم ہر امریکی مدد کے جواب میں ایک دعا مانگ رہے ہیں!
غزہ کے مظلوم باشندو! خاطر جمع رکھو! ہماری دعائیں‘ جو تمہارے حق میں ہیں۔ ہماری بددعائیں‘ جو اسرائیلی صہیونیوں کے خلاف ہیں۔ ہمارے جلوس‘ ہمارے نعرے‘ ہمارے کوسنے‘ ہماری تقریریں‘ وٹس ایپ گروپوں میں اور فیس بک پر ہمارا جوش و خروش‘ یہ سب آخر تمہارے لیے ہی تو ہیں! پھر تمہیں گھبرانے کی کیا ضرورت ہے!! تم یقین کرو‘ ہماری دعائیں اسرائیلی ٹینکوں کو زنگ آلود کر دیں گی! ہمارے نعرے ان کی سنگینوں کو پھولوں میں بدل دیں گے! ہمارا ایک ایک کوسنا ان پر بم بن کر گرے گا! ہمارے جلوس اسرائیل کو بھسم کر دیں گے! اس سے پہلے بھی ہماری دعاؤں نے تاریخ کے دھارے کئی بار بدلے ہیں! جب ہمارے بزرگ انگریز فوج میں بھرتی ہو کر حجاز پر حملے کے لیے گئے تھے تو یہ ہماری دعائیں ہی تھیں جنہوں نے جرمن توپوں میں کیڑے ڈال دیے تھے! بہت جلد تم دیکھو گے کہ جنگ کا پانسہ پلٹ جائے گا۔
تمہیں تو خوش ہونا چاہیے کہ اسرائیلی حکمران اور ان کے سر پرست امریکی صدور کتنی عُسرت میں زندگی گزار رہے ہیں! ایک ایک پیسے کا انہیں حساب دینا پڑتا ہے۔ کبھی پارلیمنٹ ان سے حساب لیتی ہے‘ کبھی آڈٹ کے ادارے! یہ تو ابھی چند برس پہلے کی بات ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کو اس کی اپنی پولیس نے تین گھنٹے زیرِ تفتیش رکھا اور سوال پوچھے! اس پر الزام تھا کہ اس نے کسی بزنس مین سے کچھ رقم رشوت لی تھی! اور ان صہیونیوں کے مربی امریکہ میں صدر کی یہ عزت ہے کہ صدر کلنٹن کو کٹہرے میں کھڑا کر کے ساری دنیا میں ذلیل کیا گیا تھا۔
اس کے مقابلے میں تمہارے اور ہمارے مسلمان حکمرانوں سے ان کے ملک کا کوئی ادارہ پوچھ گچھ نہیں کر سکتا! کیا مجال ہے کہ کوئی ان کے سامنے بات بھی کر سکے! کیا شان و شوکت ہے ہمارے حکمرانوں کی! ہوائی جہازوں پر سفر کرتے ہیں تو سونے کی بنی ہوئی سیڑھیاں ساتھ جاتی ہیں۔ جکارتہ سے بالی گئے تو صرف ان کا سامان منتقل کرنے کے لیے ہوائی جہازوں کو درجنوں پھیرے لگانا پڑے۔ فرانس گئے تو میلوں لمبا ساحل بُک کرا لیا۔ یہ تو فرانسیسی عوام تھے جن کے احتجاج سے یہ خصوصی بکنگ ختم کی گئی۔ کیا بات ہے بادشاہتوں کی! رباط سے لے کر دوحہ اور ابو ظہبی تک محلات قطار اندر قطار ہیں۔ کاریں تک سونے کی بنی ہوئی ہیں! آرڈر پر بنے ہوئے ہوائی جہازوں میں خواب گاہیں اور مہمان خانے ہیں! غیرملکی مہمانوں کو سونے سے‘ جواہرات سے اور گراں بہا گھڑیوں سے لاد کر بھیجا جاتا ہے! یہ اسرائیل اور امریکہ کا مقابلہ کریں گے؟ یہ تو ان کے سامنے رکوع میں ہوتے ہیں اور ان کی آمد پر پلکیں بچھاتے ہیں! انہوں نے اربوں کھربوں ڈالر عیاشیوں پر صرف کر دیے مگر ایک بندوق بنانے کی صلاحیت نہ حاصل کی۔ ان کی ہر شے مانگے کی ہے۔ ان کے جہاز‘ ان کی کاریں‘ ان کے منیجر‘ ان کی نرسیں‘ سب مانگے کی ہیں۔ ان کے تکبر کا یہ عالم ہے کہ اتوار کے دن لندن کا سپر سٹور بند ہو تو یہ اسے چند منٹوں میں خرید لیتے ہیں! مگر اپنے دفاع کے لیے یہ دوسروں کے محتاج ہیں! یہ ہارورڈ اور دوسری جامعات کو کروڑوں ڈالر کے عطیات دیتے ہیں مگر اپنے ہاں یہ بین الاقوامی شہرت کی ایک یونیورسٹی تو دور کی بات ہے‘ ایک کالج تک نہیں بنا سکے! ان کے بڑوں نے ترکوں کی پیٹھ میں خنجر بھونک کر دو دو مربع بالشت کی بادشاہتیں بھیک میں لیں اور آج یہ فلسطینیوں کے قاتلوں کے ساتھ بیٹھ کر بزم ہائے طرب میں دادِ عیش دے رہے ہیں! اوقیانوس کے مشرقی ساحل سے لے کر شط العرب تک ان کے پاس لاکھوں مربع میل کی زمینیں ہیں اور یہ اس ملک کے سامنے بے بس ہیں جس کا کُل رقبہ ان کی ایک تحصیل کے برابر ہے۔ یہ دنیا میں عبرت کا سامان ہیں! لوگ انہیں دیکھ کر‘ ان کا حال سن کر اور ان کے طرزِ زندگی کی تفصیلات پڑھ کر کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں! اسرائیل کے لیے مغرب سارا اکٹھا ہو گیا ہے مگر یہ ہیں کہ مل کر بیٹھ تک نہیں سکتے!
رہے غیرعرب مسلمان ملک تو اول تو عرب ممالک انہیں دیکھ کر ناک بھوں چڑھاتے ہیں۔ یقین نہ آئے تو امریکہ میں رہنے والے غیرعرب مسلمانوں سے پوچھیے کہ عرب مسلمان انہیں کیا سمجھتے ہیں اور کتنی اہمیت دیتے ہیں۔ ایک بھری محفل میں کسی پاکستانی یا شاید ہندوستانی مسلمان نے کہہ دیا کہ ''ہم نے اندلس فتح کیا تھا‘‘ تو وہاں بیٹھے عرب بھائی اس طرح اچھلے جیسے زیر جامہ میں بھِڑ گھُس گئی ہو! اور فرمایا کہ آپ کہاں سے آگئے وہ تو ہم عربوں کا کارنامہ تھا۔ گویا بربر بھی ان حضرات کو نہیں دکھائی دیتے! ترکی کا جمع خرچ طبی امداد تک ہے۔ پاکستان اور افغانستان آپس میں سکور سیٹل کر رہے ہیں! بنگلہ دیش اپنے ہی شہریوں کو پھانسیاں دینے میں مصروف ہے۔ رہے مشرقِ بعید کے مسلمان تو ابھی تک سب کو یاد ہے کہ مہاتیر نے اردوان اور عمران خان کے ساتھ مل کر لولی لنگڑی بہری آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس ( یا کواپریشن) کی جگہ ایک فعال اور موثر تنظیم بنانے کا سوچا تھا تو سروں سے لپٹے ہوئے رومال اور جسموں پر جھولتی ہوئی قبائیں بحیرۂ قلزم کے مشرقی کنارے عالمِ اضطراب میں پھڑ پھڑانے لگی تھیں جیسے ذرا ہی دیر میں تار تار ہو جائیں گی۔ مہاتیر‘ اردوان اور عمران کے ہاتھ ہی باندھ دیے گئے! کیا تیرہ بختی ہے کہ مسلمانوں کی کھڑپینچی جن چوہدریوں کے کاندھوں پر آن بیٹھی ہے‘ وہ غیرعرب مسلمانوں کو دوسرے درجے کا مسلمان گردانتے ہیں اور غیرعرب کفار کو اپنا حامی و سرپرست! غنی کاشمیری کا شعر پامال ہو چکا مگر سروں پر ہتھوڑے کی ضربیں لگا رہا ہے۔ کنعان کے بوڑھے پیغمبر کی قسمت! کہ نور اس کی آنکھوں کا ہے اور بینائی زلیخا کو بخش رہا ہے! افسوس ! افسوس!
غزہ کے روتے بلکتے مظلومو! تمہاری مدد کو کوئی نہیں آئے گا!
کوئی نہ ڈالے گا کشکولِ چشم میں زرِ خواب
دراز دستِ تمنا لپیٹ کر سو جا!
تمہاری حالت تو اندلس کے ان مسلمانوں سے بھی زیادہ قابلِ رحم ہے جنہیں ہسپانیہ کے نصرانیوں نے اپنے گھروں سے نکال دیا تھا۔ ان کے لیے کم از کم سمندر پار مراکش میں تو جائے پناہ تھی! آج تک شمالی مراکش کی دیواروں پر چھوڑے ہوئے گھروں کی چابیاں لٹک رہی ہیں! مگر تم کہاں جاؤگے!! تمہارے لیے تو کوئی ملک اپنے دروازے کھول رہا ہے نہ اپنے بازو وا کر رہا ہے!! تمہیں تو کسی مراکش کی ہمسائیگی میسر نہیں! تم سے تو تمہارے ہم زبان ہمسائے یوں بھی خائف ہیں! کبھی احساسِ گناہ تو کبھی احساسِ کمتری انہیں اجازت نہیں دیتا کہ تمہاری مدد کریں! غزہ کے باشندو! تم تنہا ہو! تم تنہا ہی رہو گے!
اسرائیل کے راستے میں آخری رکاوٹ شام اور ایران ہیں۔ اسی لیے ایک طویل عرصہ سے ایران مغرب کا ہدف رہا ہے۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ نشانہ صرف فلسطینی ہیں اور اس کے بعد شام اور ایران تو وہ خوش فہمی کا شکار ہے۔
مارٹن نیمولر (Martin Niemöller) کا یہ شہرہ آفاق قول اسے یاد کھنا چاہیے ''پہلے وہ کمیونسٹوں کو مارنے آئے‘ میں چپ رہا کیونکہ میں کمیونسٹ نہیں تھا۔ پھر وہ سوشلسٹوں کو مارنے آئے‘ میں چپ رہا کیونکہ میں سوشلسٹ نہیں تھا۔ پھر وہ ٹریڈ یونینسٹوں کو مارنے آئے‘ میں چپ رہا کیونکہ میں ٹریڈ یونینسٹ نہیں تھا۔ پھر وہ میرے لیے آ گئے‘ کوئی نہ بولا کیونکہ کوئی بچا ہی نہیں تھا‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں