کالم نگاری کے 32سالہ عرصہ میں پوری کوشش کی کہ سول سروس کے جن مناصب پر کام کرنے کا موقع ملا اُن کا حوالہ نہ دینا پڑے کہ اسے خود ستائی پر محمول کیا جا سکتا ہے۔ یوں بھی سول سروس ہو یا کوئی اور پیشہ‘ بنیادی مقصد دو ہیں: ترقی کی اجتماعی کوشش میں اپنا حصہ ڈالنا اور رزقِ حلال کا حصول! اس میں کلرک‘ نائب قاصد‘ افسر سب برابر ہیں۔ تاہم آج کی بیورو کریسی کا جو رویّہ ہے اور مائنڈ سیٹ ہے ‘ اسے دیکھتے ہوئے ذاتی تجربوں کی بھری بھرائی زنبیل میں سے ایک تجربہ شیئر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس قبیل کی کچھ تفصیلات زیر تعمیر خود نوشت میں لانے کا پروگرام ہے جس کی جلد تکمیل کے لیے دعاؤں کی ضرورت ہے!
یہ سترہ اٹھارہ سال پہلے کا واقعہ ہے۔ بڑی بیٹی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں زیر تعلیم تھی۔ ''اصول الدین‘‘ میں ایم اے کر رہی تھی۔ اُن دنوں یونیورسٹی میں تعطیلات تھیں۔ اُس کا سکالر شپ کا چیک یونیورسٹی کے دفترِ مالیات میں پڑا تھا۔ یونیورسٹی کے حصۂ طالبات کا محل وقوع عجیب و غریب تھا۔ اسلام آباد سے کوسوں دور ‘ پشاور روڈ کے اُس پار‘ مدینۃ الحجاج سے کہیں آگے‘ واقع تھا۔ درمیان میں محلے اور گنجان آبادیاں پڑتی تھیں۔ طالبات وہاں جانے میں کوفت محسوس کرتی تھیں۔ خاص طور پر تعطیلات کے دوران! بیٹی نے حکم دیا کہ ابّو ! میرا چیک منگوا دیجیے۔ اُسے بتایا کہ چیک اسی کو ملتا ہے جس کے نام ہو۔ اس معاملے میں بابو بہت سخت ہوتے ہیں۔ مگر ہر بیٹی یہی سمجھتی ہے کہ اس کا باپ اس کے لیے سب کچھ کر سکتا ہے۔ پھر اُس نے وہ لطیفہ نما بات بھی کہہ دی جو ہمارے گھر میں مشہور تھی۔ کہ آپ سب کچھ کر سکتے ہیں یہاں تک کہ ''فیکٹریوں میں بھی آپ کا ہاتھ ہے ‘‘۔ اس لطیفے کا ایک مخصوص پس منظر تھا۔ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ انگریز حکومت کی یہ سوچی سمجھی پالیسی تھی کہ جن علاقوں سے فوجی بھرتی زیادہ ہوتی ہے‘ وہاں دو کام بالکل نہیں ہوں گے۔ایک آبپاشی کے لیے نہریں نہیں نکالی جائیں گی۔ ورنہ جس طرح سنٹرل پنجاب میں نہروں کا جال بچھایا گیا تھا‘ اسی طرح ضلع اٹک کے لیے بھی دریائے سندھ سے نہریں نکالی جا سکتی تھیں۔ دوسرے‘ ان اضلاع میں کوئی کارخانہ‘ کوئی صنعت ‘ نہیں لگائیں گے۔ آبپاشی اور صنعت سے محروم رکھنے کا واحد مقصد یہ تھا کہ جنگ کی آگ کے لیے انسانی ایندھن ملتا رہے۔ اگر آبپاشی کا بند و بست ہو جاتا یا کارخانے لگ جاتے تو فوجی بھرتی جوانوں کی اولین ترجیح نہ ہوتی! حویلیاں‘ واہ اور سنجوال میں دفاعی فیکٹریاں قائم ہوئیں تو یہ صنعت کی طرف اس علاقے میں اولین قدم تھا۔ لوگوں نے نوکریوں کے لیے ان فیکٹریوں کا رُخ کیا۔ جن دنوں میں پاکستان آرڈیننس فیکٹریز ( پی او ایف ) کے مالیات کا سربراہ ( ممبر فنانس) تھا‘ علاقے سے لوگ ملازمت کی خاطر کچھ زیادہ ہی آتے تھے۔ایک بار گاؤں سے ایک برخوردار آیا اور فرمائش کی کہ فوراً سے پیشتر اس کی ملازمت کا بند و بست کیا جائے۔ اُسے سمجھانے کی کوشش کی کہ اتنا جلدی ممکن نہیں! اس پر اُس نے وہ فقرہ کہا جو بچوں کے لیے آج بھی تفننِ طبع کا ذریعہ ہے۔ اُس نے کہا کہ آپ سب کچھ کر سکتے ہیں '' آپ کا فیکٹریوں میں بھی ہاتھ ہے‘‘۔ یہاں ایک اور بات کا ذکر ہو جائے جو شہر ی لوگ بالکل نہیں سمجھ سکتے! اگر آپ گاؤں سے ہیں اور کسی اچھے عہدے پر فائز ہیں تو گاؤں کے لوگوں کا آپ پر حق ہے۔ اس کے لیے ''داعیہ‘‘ کا لفظ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آپ نے اس کا مان رکھنا ہے۔ آپ کو تعلیم آپ کے ماں باپ نے دلائی مگر دعویدار پورا گاؤں ہوتا ہے کہ '' ہم نے پڑھا لکھا کر اس قابل کیا‘‘۔ددھیال کے گاؤں کے ہر مرد اور ہر عورت کے آپ بھتیجے ہیں۔ ننھیالی گاؤں کے ہر مرد اور ہر عورت کے آپ بھانجے ہیں۔ وہ آپ کے منصب کی بلندی سے ہر گز مرعوب نہیں ہوتے بلکہ کام کرانا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ اٹک کا ضلع غریب ہے۔ مرد فوج میں بھرتی ہوتے ہیں مگر پھر ریٹائرمنٹ کی عمر سے پہلے فوج سے فارغ بھی ہونا چاہتے ہیں تاکہ کچھ رقم مل جائے اور گھر کے کام آئے۔ یعنی پہلے بھرتی کرائیے۔ پھر فوج سے Releaseدلوائیے۔ اس کے بعد پھر کہیں اور نوکری کا بندو بست کیجیے۔ ایک بار گاؤں کا ایک برخوردار فوج سے فراغت کے بعد نوکری کے لیے آیا۔ مجھے معلوم تھا کہ یہ لوگ اچھے خاصے زمیندار ہیں؛ چنانچہ سمجھایا کہ زمین پر توجہ دو۔ ڈیم تعمیر کرو۔ مچھلیوں کا تالاب بنواؤ یا پولٹری کا کام کرو۔ وہ چلا گیا مگر اس کے بعد میں جب گاؤں گیا تو ہر شخص طعنہ زن تھا کہ '' بچہ‘‘ نوکری کے لیے گیا تھا‘ آپ نے لیکچر پلا دیا۔
بیٹی نے کہا: آپ چیک منگوا سکتے ہیں کیونکہ '' فیکٹریوں میں بھی آپ کا ہاتھ ہے‘‘۔ اُن دنوں میں وفاقی وزارتِ خزانہ میں ایڈیشنل سیکرٹری برائے دفاع تھا۔ اتھارٹی لیٹر دے کر ذاتی معاون کو یونیورسٹی بھیجا۔ یونیورسٹی کے حصۂ طالبات میں مردوں کا داخلہ ممنوع تھا۔ گیٹ کے سنتری نے خصوصی مہربانی فرمائی اور معاون صاحب کو اندر جانے دیا۔ اتھارٹی لیٹر ایک قانونی دستاویز ہے جس کی بنا پر چیک دیا جا سکتا ہے مگر یونیورسٹی کے شعبہ ٔمالیات کے کارپرداز بادشاہ تھے۔ انہوں نے انکار کر دیا۔ معاون صاحب واپس یونیورسٹی گیٹ پر پہنچے تو کچھ مایوس تھے اور کچھ غصے میں۔ دردِ دل سنتری کو سنایا۔ باتوں باتوں میں میرا نام لیا کہ ان کی بیٹی کا چیک ہے۔ نام سن کر سنتری کے کان کھڑے ہو گئے۔ وہ بندۂ خدا سابق فوجی تھا۔ اس نے پوچھا کہ کیا یہ اظہارالحق وہی ہے جو پہلے چیف کنٹرولر ملٹری اکاؤنٹس تھا ؟ معاون صاحب نے کہا کہ ہاں وہی ہے۔ سنتری اُٹھا۔ معاون صاحب کے ہاتھ سے اتھارٹی لیٹر لیا اور اندر چلا گیا۔ اندر جا کر نہ جانے اس نے کیا جادو کیا کہ واپس آیا تو چیک اُس کے ہاتھ میں تھا۔ معاون صاحب نے پوچھا کہ تم اظہار صاحب کو کیسے جانتے ہو۔ اس نے کہا :میں انہیں کبھی نہیں ملا مگر جب ریٹائر ہوا تو بہت مسائل تھے۔ کسی نے مشورہ دیا کہ براہِ راست ان کے نام چٹھی لکھو۔ میں نے چٹھی لکھ دی۔ انہوں نے کام کرا کے‘ ذاتی طور پر خط کا جواب میرے گاؤں کے ایڈریس پر بھیجا۔
اس قسم کی فیڈ بیک براہِ راست ملتی تھی تو اس کی بنیاد پر نظام درست کرنے کی کوشش بھی کی جاتی تھی تا کہ خط لکھے بغیر کام ہو جائیں۔ یہ واقعہ بیان کرنے کا مقصد فقط یہ واضح کرنا ہے کہ یہی بیورو کریسی تب کیا تھی اور آج کیا ہے۔ پچاس سال پہلے جب ہم مقابلے کا امتحان پاس کر کے سروس میں آئے تو ہمارے سینئرز نے ہمیں نصیحت کی تھی کہ ( 1) ہر خط کا جواب جانا چاہیے۔ ( 2) ہر ٹیلی فون کال کا جواب دینا چاہیے۔ ( 3 ) کوشش کرو کہ ہر سائل کو خود ملو تا کہ فیڈ بیک لے سکو اور ( 4) ہر روز کی ڈاک خود دیکھو‘ خاص طور پر یاد دہانیاں یعنی ریمائنڈرز کہ یہ دفتر یا محکمے کی کارکردگی جانچنے کا ایک اچھا بیرو میٹر ہے۔ بیورو کریسی کی اُس نسل نے جو ہم سے پہلے تھی یا ہمارے ساتھ کی تھی‘ ان اصولوں پر عمل کرنے کی پوری کوشش کی۔ اس کے بر عکس آج کی بیورو کریسی کے تین خصائص ہیں۔ اصل میں یہ خصائص نہیں‘ رذائل ہیں۔ (1) کسی خط کا جواب نہ دو (2)کسی کی فون کال کا جواب نہ دو (3) ہر ممکن کوشش کرو کہ کسی سائل سے ملنا نہ پڑے۔ اپنے گرد سٹاف کا اور پروٹوکول کا ایسا مضبوط حصار تعمیر کرو کہ کوئی سائل تم تک پہنچ نہ سکے۔ یہ احساس ِکمتری کے شاخسانے ہیں! اور تشخیص وہی ہے جو فردوسی نے محمود غزنوی کی ہجو میں کی تھی!!