وہ جو دوبارہ نہیں ملتے

یہ ایک چھوٹا سا پارک ہے۔ چھوٹا سا مگر خوبصورت !
علاقہ لاہور کا ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کا ہے! فیز چار ہے اور سیکٹر ڈبل ای ہے۔ یہاں کا مشہور لینڈ مارک واپڈا کا( یعنی لیسکو کا) دفتر ہے۔ اس وقت لاہور میں کتابوں کی جو معروف ترین دکان ہے اس کی ایک شاخ بھی اس علاقے میں ہے۔ بس! یہ چھوٹا سا‘ من موہنا سا‘ پارک اسی علاقے میں ہے۔
یہ کوئی تین سال پہلے کی بات ہے۔ اسی علاقے میں میرے ایک بہت قریبی عزیز رہتے تھے۔ لاہور آتا تو انہی کے ہاں قیام کرتا۔ اُس دن بھی وہیں تھا۔ یہ جاتی سردیوں کے دن تھے۔ لاہور میں پنڈی اسلام آباد کی نسبت سرما کی رخصتی جلد ہوتی ہے اور گرمیاں ذرا زیادہ بے تکلفی کے ساتھ دروازہ کھول کر اندر آجاتی ہیں۔ عصر کے بعد کا وقت تھا۔ میں نے جاگرز پہنے اور پیدل چلتا ہوا‘ چند گلیاں پار کرتا‘ پارک میں پہنچ گیا۔ چاروں طرف سیر کرنے کے لیے بہت اچھا ٹریک بنا ہوا تھا۔
واک شروع کردی۔ کچھ سوچتا‘ کچھ گنگناتا‘ چکر مکمل کرتا رہا۔ اب گرمی زیادہ محسوس ہونے لگی تھی۔ میں نے بغیر آستینوں کا سویٹر اتار کر کاندھے پر ڈال لیا۔ دفعتاً یاد آیا کہ گاؤں میں مرد کاندھے پر چادر ضرور رکھتے تھے۔ چونکہ ہمارا ضلع‘ مغربی سمت‘ پنجاب کا آخری ضلع ہے اس لیے خیبر پختونخوا کی ثقافت کے کچھ اجزا ہمارے ہاں بھی در آئے ہیں۔ ہمارے ہاں وہ حقہ نہیں پیا جاتا جس کا رواج سنٹرل پنجاب میں ہے۔ ہمارے ہاں '' چلم‘‘ پی جاتی ہے جو بالکل سیدھی اور عمودی ہوتی ہے۔ اسی طرح کاندھے پر مردوں کا چادر رکھنا بھی ہمارا اور کے پی کا مشترکہ ورثہ ہے۔ میں نے سویٹر اتار کر کاندھے پر رکھا اور چادر کو یاد کرنے لگا۔ دفعتاً نوٹ کیا کہ میرے آگے آٹھ دس سال کا ایک بچہ واک کر رہا ہے۔ جس چیز نے مجھے اس کی طرف متوجہ کیا اس کے چلنے کا انداز تھا۔ وہ کسی فوجی افسر کی طرح بازو ہلا ہلا کر چل رہا تھا۔ اس کے قدم بالکل مارچ کی طرح تو نہیں پڑ رہے تھے‘ مگر ان میں ایک خاص وقار اور سنجیدگی کی جھلک نظر آرہی تھی۔ پیچھے سے اس کا ڈیل ڈول مجھے اپنے آسٹریلیا والے پوتے حمزہ جیسا لگا۔ ہو سکتا ہے وہ حمزہ سے چند ماہ یا ایک آدھ سال بڑا ہو۔ میں اس کے پیچھے پیچھے چلتا رہا۔ اس کے چلنے کے انداز اور میرے پوتے کے ساتھ اس کی مماثلت نے میری توجہ پوری طرح اُس پر مرکوز کر دی تھی۔ اچانک‘ غیر اردای طور پر میں نے چند گام لمبے بھرے اور اس کے برابر چلنے لگا۔ اس عمر کا کوئی اور بچہ ہوتا تو یقیناً میری طرف دیکھتا مگر اس نے میری طرف کوئی توجہ نہ دی اور ایک پختہ مرد کی طرح ادھر ادھر دیکھے بغیر چلتا رہا۔ کچھ دیر کے بعد میں نے اسے سلام کیا۔ تب اس نے مجھ پر نظر ڈالی اور سلام کا جواب دیا۔
چند منٹ بعد ہم دوستوں کی طرح باتیں کر رہے تھے۔ اس کا نام جواد تھا۔ پشاور سے اپنے ننھیال آیا ہوا تھا جن کا گھر پارک کے ساتھ ہی تھا۔ اصلاً وہ اسلام آباد سے تھا۔ میں نے اسے بتایا کہ اسے دیکھ کر مجھے اپنا پوتا یاد آرہا ہے جو‘ کم و بیش‘ اسی جتنا ہے۔اس نے بہت دلچسپی سے پوچھا کہ میں پوتے کو اپنے ساتھ پارک میں کیوں نہیں لایا۔ اسے بتایا کہ وہ ملک سے باہر رہتا ہے۔ ہم نے بہت سی باتیں کیں۔ اچانک میں نے دیکھا کہ میری بیگم‘ ہماری میزبان خاتون اور اس کے بچوں کے ساتھ پارک میں داخل ہوئیں۔ یہ پارٹی سیر کرنے کے بجائے بنچ پر بیٹھ گئی۔ میں اور جواد جب ان کے قریب پہنچے تو میں نے اس کا تعارف اپنی بیگم اور میزبان خاتون سے یہ کہہ کر کرایا کہ یہ میرے دوست جواد ہیں اور پشاور سے آئے ہوئے ہیں۔ سب بہت گرم جوشی کے ساتھ اسے ملے۔ میں نے جواد کے ساتھ ایک چکر اور پورا کیا۔پھر اسے سلام کر کے بیگم اور میزبانوں کے پاس آگیا۔تھوڑی دیر ہم وہاں بیٹھے رہے۔ پھر واپس قیام گاہ پر آگئے۔
وجہ نہیں معلوم مگر جب رات کو بستر پر لیٹا تو جواد یاد آگیا۔ اس کا باوقار‘ مارچ جیسا سٹائل آنکھوں کے سامنے پھرنے لگا۔ پھر اس کا چہرا نظروں کے سامنے آگیا۔ ساتھ ہی حمزہ کا چہرا یاد آگیا۔ کچھ دیر تک دونوں چہرے الگ الگ نظروں کے سامنے رہے۔ پھر انہوں نے آپس میں گڈ مڈ ہونا شروع کر دیا۔ حمزہ کا خیال آتا تو چہرا جواد کا سامنے آجاتا اور جواد یاد آتا تو چہرا حمزہ کا دکھائی دیتا۔ پھر دونوں کا ایک مشترکہ چہرا اُبھرا۔ اسی خیالی فریبِ نظر ( Hallucination ) میں تَیرتے تَیرتے نہ جانے کس وقت نیند آگئی۔ دوسرے دن بہت مصروفیت تھی۔ اس کے باوجود جواد کئی بار یاد آیا۔ وڈیو کال کے ذیعے حمزہ سے بھی بات کی۔ شام ہوئی تو پارک میں گیا۔ حسبِ معمول پون گھنٹہ سیر کی۔ غیر ارادی طور پر جواد کا انتظار رہا۔ دو دن کے بعد ہم اسلام آباد واپس آگئے۔ میں نے بچوں کو جواد کے بارے میں بتایا کہ وہ میرا دوست ہے۔ بیٹیاں خوب ہنسیں کہ ایک دوست ستر کے پیٹے میں اور دوسرا دس گیارہ برس کا! نظامی گنجوی نے اپنے بیٹے کو مخاطب کر کے کہا تھا
مرا ہفتاد سال است و ترا ہفت
ترا اقبال می آید‘ مرا رفت
کہ میں ستر کا ہوں اور تم سات کے! میری خوش بختی رخصت ہو رہی ہے اور تمہاری شروع ہو رہی ہے۔
سفید ریش دوست اس کے بارے میں سوچتا ہے ؟ یہ بھی عجیب معاملہ ہے کہ کسی کے بارے میں آپ سوچتے ہیں اور اسے کبھی بھی معلوم نہیں ہوتا ! یارِ عزیز شعیب بن عزیز کو ایک بار غزل سنا رہا تھا۔ جب یہ شعر پڑھا ؎
مرے بلخ‘ میرے ہرات شاد رہیں سدا
مرے کُوزہ گر‘ مرے زین ساز سدا رہیں
تو شعیب نے کہا کہ بلخ اور ہرات کس قدر نزدیک ہیں ! اس کے باوجود وہاں کے لوگوں کو خبر ہی نہیں کہ ہم ان کے حوالے سے شاعری کر رہے ہیں ! لوگ ملتے ہیں!ملک میں بھی ! بیرون ملک بھی ! ٹرینوں میں! ہوائی جہازوں میں‘ انتظار گاہوں میں! سیر گاہوں میں! ہسپتالوں میں! بازاروں میں! ریستورانوں میں! پھر وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جدا ہو جاتے ہیں! دوبارہ ملنے کا کوئی امکان ہی نہیں رہتا! مگر یاد کے دھاگے ان کے ساتھ بندھے رہتے ہیں!! پرائمری سکول سے لے کر یونیورسٹی تک‘ اور بیرون ملک درسگاہوں تک‘ کتنے ہی ہم جماعت ہیں جن سے دوبارہ کبھی ملاقات ہی نہیں ہوئی! ڈھاکہ یونیورسٹی میں جو بنگالی دوست ساتھ تھے‘ کیسے ملیں گے! فیس بک کے ذریعے کچھ کا سراغ ملا۔ رابطہ ہوا! مگر اکثر ہمیشہ کے لیے گم ہو چکے! ہوسٹل میں آدم صفی اللہ میرے کمرے سے دو کمرے چھوڑ کر رہتا تھا۔ اسے ڈھونڈ لیا! مگر کب ؟ اس کی موت کے دو سال بعد! وہ چٹا گانگ یونیورسٹی میں فزکس کا ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ تھا۔ کینسر کی بھینٹ چڑھ گیا! سجاد کریم بہت اچھا دوست تھا۔ ہوسٹل میں میرا پڑوسی تھا۔ بنگلہ دیش اٹامک انرجی کمیشن کا سربراہ رہا۔ عبوری حکومت میں وزیر بھی تھا۔ سراغ لگا تو زیر زمین جا چکا تھا! ہاں ! قاضی خلیل الرحمان سے رابطہ قائم ہو گیا۔ وہ اس سال حج بھی کر آیا ہے۔ ہم کلاس فیلو تھے۔ کتنی ہی بار ڈھاکہ یونیورسٹی کی شہرہ آفاق مادھو کینٹین میں ہم نے اکٹھی چائے پی۔ اس کا آبائی گاؤں '' گھوڑا سال‘‘ ڈھاکہ شہر سے زیادہ دور نہ تھا۔ وہاں کے رس گلے پورے بنگال میں مشہور تھے۔ خلیل نے اپنی دادی سے میرا تعارف یوں کرا یا تھا '' یہ ایوب خان کے دیس سے آیا ہے‘‘ !

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں