مغربی ایشیا کی ایک بادشاہت کے سربراہ ہم غریبوں کے ہاں تشریف لارہے ہیں! وفاقی کابینہ نے پانچ اضلاع کو 'عملاً‘ ان کی خاطر شکار گاہ قرار دے دیا ہے۔ یہ خوش قسمت اضلاع راجن پور‘ ڈیرہ غازی خان‘ بہاولپور‘ بہاولنگر اور رحیم یار خان ہیں۔
بادشاہوں کی اس خدمت پر آخر کیا اعتراض ہو سکتا ہے! ہماری تو ساری تاریخ بادشاہ پرستی سے اَٹی پڑی ہے! ہمارے دلوں میں شاہ پرستی اس قدر کوٹ کوٹ کر بھری ہے کہ بابر سے لے کر احمد شاہ ابدالی اور نادر شاہ درانی تک ہم نے سب کو جھک جھک کر سلام کیا۔ بابر سے پہلے بھی یہی کچھ ہوا۔ ملک آزاد ہوا تو بادشاہت سے محبت بھی ورثے میں ساتھ ہی آگئی۔ ایوب خان سے لے کر ضیا الحق تک ہر حکمران کو مخلصین نے یہی مشورہ دیا کہ امیر المومنین بن جائیے! نواز شریف صاحب کا آئیڈیل بھی سعودی بادشاہت تھی۔ فرماتے تھے پاکستان میں ٹیکس کا نفاذ ہے۔ اس پر میاں صاحب بہت کُڑھتے تھے۔ ایک بار سعودیہ کی مثال دی کہ وہاں ٹیکس نہیں ہوتا۔ عمران خان صاحب بھی کچھ کچھ ایسا ہی سوچتے تھے۔ کچھ اس قسم کا ارشاد ان کا مشہور ہے کہ وہاں ایم بی ایس کے کسی حکم کو بھی ٹالا نہیں جاتا! خان صاحب ایم بی ایس پر رشک کرتے تھے۔
بد قسمتی سے ایسی بادشاہت سے پاکستان محروم رہا جیسی عرب ملکوں میں ہے اور جیسی ایران میں تھی۔ مگر وہ جو کہتے ہیں کہ
گندم اگر بہم نہ رسد بھُس غنیمت است
تو ہم نے پاکستان میں سیاسی پارٹیوں کو بادشاہتوں کا درجہ دے دیا۔ کوئی مانے یا نہ مانے‘ ہر سیاسی پارٹی ایک بادشاہت ہے۔ ریاست کے اندر ایک ریاست ہے۔ سیاسی پارٹیوں کی یہ بادشاہتیں موروثی ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے خلجیوں کی اور تغلقوں کی اور لودھیوں کی اور مغلوں کی بادشاہتیں تھیں! زرداری خاندان ‘ شریف خاندان‘ مفتی محمود صاحب کی اولاد‘ باچاخان کی اولاد‘ گجرات کے چوہدری! یہ سب بادشاہتیں ہی تو ہیں! عمران خان صاحب بھی پچیس سال سے خود ہی پارٹی کی امارت پر فائز ہیں! اور خدا انہیں صحت اور طویل عمر عطا فرمائے‘ فائز رہیں گے!
یہ بادشاہت کی بات تو ضمناً چھِڑ گئی! اصل موضوع تو شکار گاہ کے حوالے سے تھا۔ ویسے صرف پانچ اضلاع کو شکار کے لیے مخصوص کرنا مضحکہ خیز حرکت لگ رہی ہے۔ارے بھئی! پورا پاکستان ہی شکار گاہ ہے! ہم عوام‘ انسان نہیں‘ مارخور‘ نیل گائیں‘ ہرن‘ خرگوش اور تیتر بٹیر ہیں! ہمارے چاروں طرف شکاری ہی شکاری ہیں! کچھ شکاری بیورو کریسی کی شکل میں ‘ کچھ اداروں کے لبادوں میں‘ کچھ انصاف مہیا کرنے کے بہانے‘ کچھ حکومت کرنے کے نام پر ‘ کچھ ''منتخب‘‘ایوانوں میں بیٹھ کر ! مگر مشترک ان سب میں یہ ہے کہ یہ شکاری ہیں اور ہم عوام شکار ہیں ! '' منتخب ‘‘ کا لفظ میں نے واوین میں لکھا ہے! سمجھ تو آپ گئے ہوں گے کہ واوین میں کیوں لکھا ہے! ایک طوطا جو پالتو تھا‘ اپنے مالک کے ایک دوست کو گالیاں دیتا تھا۔ دوست نے طوطے کے مالک سے شکایت کی۔ مالک نے طوطے کو سخت وارننگ دی کہ اس کے بعد اس کے دوست کو گالی دی تو گردن مروڑ دی جائے گی! وارننگ کے بعد مالک کا دوست آیا تو طوطا زور سے ہنسا۔ اور ہنسنے کے بعد مالک کے دوست سے کہا کہ تم سمجھ تو گئے ہو گے !! تو آپ بھی سمجھ تو گئے ہوں گے کہ ''منتخب‘‘ کو واوین میں کیوں لکھا ہے!
پاکستان کے حوالے سے ہم نے جن شکاریوں کا ذکر کیا ہے‘ اصل میں یہ چھوٹے شکاری ہیں! یہ چھوٹے شکاری ایک بڑے شکاری کے ماتحت ہیں! ان چھوٹے شکاریوں کی نامزدگی‘ تعیناتی ‘ ترقی‘ تبادلے وغیرہ سب اس بڑے شکاری کے ہاتھ میں ہے۔ روئے زمین کا یہ سب سے بڑا شکاری اور تمام چھوٹے شکاریوں کا مالک و مربّی‘ بحرِ اوقیانوس کے پار رہتا ہے۔ وہ جس خطۂ زمین کو چاہے‘ شکار گاہ قرار دے دیتا ہے۔ پھر اس کے نامزد چھوٹے چھوٹے شکاری اس شکار گاہ پر پل پڑتے ہیں! اس بڑے شکاری کا تازہ ترین کارنامہ دیکھیے! اس نے غزہ کی پٹی کو شکار گاہ قرار دیا ہے اور چھوٹے شکاری کتوں کی طرح غزہ پر جا پڑے ہیں۔ یہ نہتے مردوں اور عورتوں کو چیر پھاڑ رہے ہیں۔ یہاں تک کہ معصوم بچوں کو بھنبھوڑ رہے ہیں۔ بڑا شکاری اٹلانٹک کے اُس پار سے ان چھوٹے شکاریوں کو شہ دے رہا ہے۔ یہ چھوٹے شکاری صرف غزہ کے مشرق اور جنوب میں نہیں ہیں بلکہ غزہ کے چاروں طرف ‘ سب چھوٹے شکاری ہی ہیں! اس لیے کہ جو بظاہر شکاری نہیں‘ اور بظاہر غزہ کے ہمدرد دکھائی دے رہے ہیں‘ اندر سے وہ بھی بڑے شکاری کے ماتحت ہی ہیں!
ایک اور شکار گاہ کا نام کشمیر ہے! 75 سال سے یہ شکاریوں کی بندوقوں کی زد میں ہے۔ یہاں بھی بچوں اور عورتوں سمیت‘ نہتے لوگوں کو جانور سمجھ کر ان پر گولیاں چلائی جاتی ہیں! اگر بڑا شکاری چاہے تو اس شکار گاہ کو تاراج کرنے والے چھوٹے شکاریوں کو روک کر اس شکار گاہ کو آزادی دلوا سکتا ہے مگر وہ ایسا کبھی نہیں کرے گا۔ اس لیے بھی تا کہ اس کے اور اس کے ساتھیوں کے بنے ہوئے ہتھیار بکتے رہیں! اگر دنیا سے شکار کا خاتمہ ہو جائے تو بڑے شکاری کو لہو بہانے اور لہو پینے کی لذت کیسے ملے! اصل حقیقت یہ ہے کہ اس وقت دنیا دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے۔ شکار گاہیں اور شکاری ! افریقہ اور ایشیا کے بیشتر حصے شکار گاہوں پر مشتمل ہیں! انسان بھوک اور پیاس سے مر رہے ہیں۔ کتنی ہی ریاستیں قحط میں مبتلا ہیں۔ دوسری طرف امریکہ اور یورپ شکاریوں کے وطن ہیں۔ جو پانی افریقہ اور ایشیا کے لوگ پی رہے ہیں اور جو خوراک افریقہ اور ایشیا کے لوگ کھا رہے ہیں‘ وہ پانی اور وہ خوراک امریکہ اور یورپ کی گائیں‘ بکریاں‘ کتے اور سؤر بھی نہ پییں اور نہ کھائیں! اور اگر پی لیں اور کھا لیں تو مر ہی جائیں! لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ بڑے شکاری نے جن چھوٹے شکاریوں کو افریقہ اور ایشیا میں مقرر کیا ہوا ہے وہ بھی یہی پانی پی رہے ہیں اور یہی خوراک کھا رہے ہیں! نہ بابا نہ ! ایسا ہو تو پھر چھوٹے شکاریوں کو بڑے شکاری کی نوکری کرنے کا کیا فائدہ!! یہ جو چھوٹے شکاری ہیں ان کا پانی‘ ان کی خوراک‘ ان کی قیام گاہیں‘ ان کے بازار‘ ان کے بچوں کی درسگاہیں‘ ان کے شفاخانے سب الگ ہیں اور بہترین ہیں ! ان چھوٹے شکاریوں نے اپنی قیام گاہیں امریکہ اور یورپ میں بھی بنا رکھی ہیں! یہ زیادہ وقت وہیں گزارتے ہیں۔ جو چھوٹے شکاری ‘ بظاہر‘ اپنی اپنی سرکار اور اپنی اپنی ریاستوں کے ملازم ہیں ‘ وہ ریٹائر منٹ کے بعد امریکہ اور یورپ جا بستے ہیں! یوں بھی رباط سے لے کر جکارتہ تک‘ چھوٹے شکاریوں نے ان شکار گاہوں میں اپنے لیے چھوٹے چھوٹے امریکہ اور یورپ بنائے ہوئے ہیں! آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ بڑا شکا ری یہ شکار گاہیں‘ چھوٹے شکاریوں کو ٹھیکے پر دیتا ہے۔ اس کا فرمان ہے کہ شکار کرو! خود بھی کھاؤ اور مجھے بھی کھلاؤ!
صرف پانچ اضلاع ! وہ بھی باہر سے آنے والے شکاریوں کے لیے !! تعجب ہے! مقامی شکاریوں کے لیے تو پورا ملک پہلے ہی شکارگاہ ہے!!