علامہ اقبال پر جو ہمارے احسانات ہیں ‘ ان میں ہم نے ایک اور کا اضافہ کر دیا! آج یومِ اقبال کی عام تعطیل ہے۔تعطیل کی برکت سے اکثریت لطف اندوز ہو گی! لوگ دیر تک سو سکیں گے! اُٹھ کر پیزا‘ یا برگر‘ یا بالٹی گوشت یا چکن کڑاہی یا چرغہ کھائیں گے۔ زیادہ خوشحال اور ماڈرن کنبے چینی ریستورانوں یا دیگر مہنگے ریستورانوں کا رُخ کریں گے۔ ایک زمانے میں چھٹی کے دن گوشت خوری کے بعد پاکستانی انڈین فلم دیکھتے تھے۔ اب چونکہ سنیما ہاؤس عمارتوں سے جیبوں میں منتقل ہو چکے ہیں اس لیے فلم بینی چھٹی کی محتاج نہیں رہی!
اقبال پر ہمارے اور بھی احسانات ہیں۔ اس کے نام سے ادارے قائم ہیں! ان اداروں پر قومی خزانے سے بجٹ اترتا ہے۔ خاندان پرورش پاتے ہیں۔ کچھ افراد نے تو ان مناصب پر فائز ہو کر اپنی کتابیں چھاپیں اور خوب تشہیر کی۔ کچھ صوفی مشہور ہونے میں کامیاب ٹھہرے! ایک زمانہ تھا کہ یوم اقبال پر جو محفل منعقد ہوتی تھی اس سے ڈاکٹر جاوید اقبال‘ شورش کاشمیری‘ حمید نظامی اور مولانا عبد الستار خان نیازی جیسے زعما خطاب کرتے تھے۔ یہ بڑے لوگ رخصت ہو گئے۔ ان کی جگہ پستہ قد لوگ پیش منظر پر آگئے۔ گویا گلاب اور نرگس و سوسن کے پودے غائب ہو گئے۔ ان کی جگہ دھتورے‘ اَک اور جھاڑ جھنکار کے ڈھیر لگ گئے۔ بھلا ہو قوالوں اور گویّوں کا کہ کلام اقبال کے کچھ حصوں کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ ضمیر جعفری نے تو طنز کیا تھا:
بپا ہم سال میں اک مجلسِ اقبال کرتے ہیں
پھر اس کے بعد جو کرتے ہیں وہ قوّال کرتے ہیں
مگر خدا بھلا کرے قوالوں کا کہ کچھ تو کر رہے ہیں۔
اے رُو سیاہ! تجھ سے تو یہ بھی نہ ہو سکا
کچھ عرصہ قبل اس لکھنے والے نے فریاد کی کہ سیالکوٹ میں جو اقبال منزل ہے‘ یعنی وہ گھر جہاں اقبال پیدا ہوئے ‘ اس پر توجہ دی جائے۔ حکومت سے تو توقع ہی عبث تھی اس لیے سیالکوٹ کے امرا کی خدمت میں عرض کیا۔ پروردگار نے اس شہر کے لوگوں کو آسودگی عنایت کی ہے۔ صنعتوں اور برآمدات کے طفیل روپے کی کمی نہیں! اقبال منزل کے ارد گرد جو دو یا تین گلیاں ہیں‘ انہیں خرید کر اقبال کی نذر کر دیں۔ یہ گلیاں صاف ستھری ہوں۔ ان گلیوں میں واقع مکانوں میں دکانیں ہوں جہاں اقبال کی کتابیں موجود ہوں‘ ان کی تصویریں ہوں۔ ان کے حوالے سے تحائف (souvenirs) میسر ہوں۔ ‘ اقبال پر فلمیں دیکھی جا سکتی ہوں۔ اچھی نسل کے ریستوران ہوں جہاں سیاح کھا پی سکیں۔ اس وقت اقبال منزل سیالکوٹ کی جو حالت ہے وہ ہم سب کے لیے باعثِ شرم ہے۔ شدید گرمی میں یو پی ایس تک نہ تھا۔ تعلیمی اداروں کے طلبہ و طالبات وہاں کیسے جائیں؟ ان گلیوں میں موٹرسائیکلوں کی تعداد ٹڈی دَـل سے کم نہیں۔ چلنا محال ہے۔ مہذب ‘ ترقی یافتہ ملکوں میں محسنوں کے گھر یادگار کے طور پر اس طرح رکھے جاتے ہیں کہ لوگ وہاں جا کر طمانیت اور سکون محسوس کرتے ہیں! سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے میرے ایک دوست‘ جو دانشور اور ادیب ہیں‘ ان کی خدمت میں عرض کیا ہے کہ کسی طرح وہاں کے صنعتکاروں اور دیگر مالکانِ زر و سیم سے میری ایک نشست کا انتظام کرا دیں کہ ان کی منت سماجت کر کے یہ کام کرنے پر انہیں آمادہ کر سکوں! خدا ان کی آسودگی میں اضافہ کرے ‘ آخر انہوں نے ہوائی اڈہ بھی تو بنا لیا اور ایئر لائن بھی چلا دی!
اقبال منزل کے نواح کو ایک دلپذیر مقام کی صورت دے کر اہلِ سیالکوٹ اقبال کا حق تو ادا کریں گے ہی‘ اپنے شہر کو بھی لازوال شہرت دیں گے! رہی حکومت اور حکومتیں ! تو ان کا ایسے کاموں سے کیا تعلق! ان سے اس ضمن میں امید رکھنا ایسے ہی ہے جیسے نیم یا دھریک کے درخت سے سیب اور انگور کی توقع رکھی جائے! دھریک کے تو پھر بھی فوائد ہیں۔ اس پر کاسنی رنگ کے دلکش ‘ بھینی بھینی خوشبو والے پھول لگتے ہیں۔ چھاؤں گھنی ہوتی ہے۔ بیمار اس کی چھاؤں میں راحت پاتے ہیں۔ ہماری حکومتیں تو پھل‘ پھول‘ چھاؤں ‘ کچھ بھی نہیں دیتیں! اگر آپ نے حکومت کی موجودگی میں اپنے بچوں کی تعلیم کا انتظام خود کرنا ہو‘ علاج بھی نجی شعبے سے کرانا ہو‘ سولر سسٹم لگوا کر بجلی کا بند و بست بھی خود کرنا ہو‘ گلی میں گھروں سے چندہ اکٹھا کر کے چوکیدار بھی خود رکھنا ہو ‘ ٹریفک کی لاقانونیت سے بھی خود بچنا ہو‘ تو ایسی حکومتوں سے یہ توقع کیسے رکھی جا سکتی ہے کہ وہ اقبال اور قائد اعظم کے لیے کچھ کریں گی !!خدا کا شکر ہے کہ ان ہستیوں کے مزار بھی اچھے وقتوں میں بن گئے۔ اُس وقت مردانِ کار موجود تھے۔ ملک کی عزت رہ گئی۔ اس کے بعد تو پھر تعمیری منصوبوں کی رفتار پر چیونٹیوں کو شرم آنے لگی ! اسلام آباد کا ایئر پورٹ دس سال میں بنا! وہ بھی نقائص سے پُر !
اقبال کی شاعری پڑھنے اور سمجھنے کے لیے ہم کتنے سنجیدہ ہیں؟ ان کی شاعری کی ساڑھے تین کتابیں اُردو میں ہیں۔ بانگِ درا‘ بالِ جبریل‘ ضربِ کلیم اور ارمغانِ حجاز کا ایک حصہ ! ساڑھے سات کتابیں فارسی میں ہیں: جاوید نامہ‘ اسرارِ خودی‘رموزِ بے خودی‘ پیامِ مشرق‘ زبورِ عجم‘ مسافر‘ پس چہ باید کرد اور ارمغانِ حجاز کا ایک حصہ! یعنی تقریباً انہتّر ‘ ستر فیصد کلام فارسی میں ہے۔ اس میں شک نہیں کہ زبان کی مقبولیت کا روزگار سے گہرا ربط ہے۔ آج روزگار فرنگی زبان سے وابستہ ہے۔ مگر یہ وابستگی‘ یہ ربط‘ جبری ہے۔ اس میں محبت اور جذبات کا عمل دخل نہیں! فارسی ہماری تہذیبی اور ثقافتی زبان ہے۔ ہمارا سینکڑوں سال کا سرمایہ اس میں ملفوف ہے۔من حیث القوم اس سے ہماری بے رُخی المناک ہے۔ کئی بار مختلف محفلوں‘ اجتماعات اور مضامین میں عرض کیا کہ اُردو پر دسترس رکھنے والے ہر پاکستانی کو فارسی آتی ہے مگر وہ بے خبر ہے۔کتنی ہی مرتبہ کہا کہ مطالعہ اقبال کے لیے مجلسیں‘ گروپ اور زاویے بنانے کی ضرورت ہے۔ ہفتے میں ایک یا دو گھنٹے بھی مختص کیے جائیں تو کلام ِاقبال کی تفہیم کی طرف کئی فرسنگ آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ پچھلے دنوں اسلام آباد کے ایک کلب نے کچھ دردمند حضرات کے اصرار پر فارسی کی کلاسوں کا ‘ کچھ دنوں کے لیے‘ انتظام کیا مگر بات بول چال کے الفاظ اور جملوں سے آگے نہ بڑھ سکی۔ مقصد فارسی بول چال نہیں‘ اقبال کے کلام کی تسہیل ہونی چاہیے۔
یہ بھی تو المیہ ہے ‘ بہت بڑا المیہ ‘ کہ فارسی کو مدارس سے بیک بینی دو گوش نکال باہر کیا گیا۔ پہلے درسِ نظامی کا اچھا خاصا حصہ فارسی کی تعلیم کے لیے مختص تھا۔ مصدر فیوض‘ کریما‘ نامِ حق ‘تحفہ نصائح‘ گلستان‘ بوستان۔ یوسف زلیخا( جامی ) اور سکندرنامہ (نظامی)۔یہ سب کتابیں پڑھائی جاتی تھیں۔ پھر نہ جانے کیا ہوا کہ یہ سلسلہ ختم کر دیا گیا۔اگر اس لیے ختم کیا گیا کہ فارسی ایرانیوں کی زبان ہے تو افسوس کے سوا کیا کیا جا سکتا ہے۔فارسی افغانستان‘ تاجکستان‘ سمر قند‘ بخارا اور کئی دیگر مقامات کی بھی زبان ہے۔ یہ پاک و ہند کی بھی زبان ہے! یہ بر صغیر ہی تھا جو مغل عہد میں ہزاروں لاکھوں ایرانی اہلِ قلم کی صدیوں پناہ گاہ رہا!
اقبال کی وفات کے حوالے سے خورشید رضوی کی نظم یاد آرہی ہے۔
موت نے پہلے جھک کر /قدم اس کے چومے /اور اس سرد بوسے سے یخ بستہ ہوتی ہوئی جُوئے خوں میں بہی /اور اس قلبِ ِبیدار کے سات چکر لیے /اور اس ذہنِ برّاق کی نور ہی نور دہلیز پر آ کے ٹھٹکی /اجازت اگر ہو تو اس جگمگاتی مقدس امانت کو اِن تیرہ ہاتھوں سے چھولوں /کہا : مرحبا ! /اے فرستادۂ خالقِ نیست و ہست و غیب و حضور /یہی حکم ہے تو خدو خالِ خورشید پر /پردۂ شب گرا دے مگر ہوشیار ! /آخری سانس کے ساتھ /جب تو مرے جسمِ خاکی سے نکلے /تومیرے لبوں پر لکھی مسکراہٹ کو /پامال کر کے نہ جانا