آج گھر میں بہت رونق تھی۔ ڈرائنگ روم مہمانوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔
گائے‘ بکری‘ گدھا اور کتا ملاقات کے لیے آئے ہوئے تھے۔
بات گائے نے شروع کی۔کہنے لگی :پیدائش سے انسان کی خدمت شروع کرتی ہوں۔ ماں کا دودھ مجھے بہت کم ملتا ہے اور مالک زیادہ لے جاتا ہے۔ پھر بڑی ہوتی ہوں تو بچھڑے کو جنم دیتی ہوں۔ میرے دودھ پر اصل حق اس کا ہے۔ مگر میرے لخت جگر کو میرے سامنے کھونٹے سے باندھ دیا جاتا ہے اور دودھ کا غالب حصہ انسان اپنے استعمال میں لاتا ہے۔ لسی‘ گھی‘ مکھن بناتا ہے۔ کھاتا بھی ہے۔ بیچتا بھی ہے۔ ساری زندگی اپنے خون کو دودھ میں بدل کر انسان کی سیوا کرتی ہوں۔ مر جاؤں تو گوشت کھاتا ہے۔ پائے اور زبان تک نہیں چھوڑتا۔ اور زندگی بھر کی غلامی کا صلہ کیا ملتا ہے ؟ جو انسان بھی ہونّق‘ گاؤدی‘ بودا‘ گھامڑ اور بدھو ہو اسے اللہ میاں کی گائے کا خطاب دیتے ہو! یا کہتے ہو فلاں تو نری گائے ہے۔ حیران ہوتی ہوں کہ تم انسان کتنے احسان فراموش ہو۔
گائے چپ ہوئی تو بکری بولنے لگی! اس کا بیان بھی یہی تھا کہ ساری زندگی انسان کی خدمت میں گزار دیتی ہے۔ اس کے ننھے ننھے‘ خوبصورت میمنے دودھ سے اپنا پورا حصہ نہیں لے سکتے۔ کہنے لگی‘ عقیقہ ہو یا صدقہ‘ ولیمہ ہو یا برات‘ مجھے ذبح کیا جاتا ہے۔ مشتاق احمد یوسفی نے درست کہا ہے کہ عالمِ اسلام میں کسی بکرے کو طبعی موت مرتے نہیں دیکھا۔ ہم بکرے‘ بکریاں لاکھوں کروڑوں اربوں کی تعداد میں ہر سال قربانی کی نذر ہوتی ہیں۔ ثواب سارا تم انسان لے جاتے ہو۔ کبھی کسی مولوی صاحب کو یہ کہتے نہیں سنا کہ قربان ہونے والی بکری کو بھی ثواب ملے گا۔ ایک انصاف پسند شاعر نے اس طرف توجہ بھی دلائی ؎
یہ عجب تماشا دیکھا کہ بروزِ عیدِ قرباں
وہی ذبح بھی کرے ہے وہی لے ثواب الٹا
مگر اس خدمت گزاری کا تم انسان بدلہ کیا دیتے ہو؟ میری تذلیل کرتے ہو۔ ہر بزدل کو بکری کہہ کر پکارتے ہو۔ بزدل کا مطلب ہی تم نے بکری کے دل والا رکھا ہے۔ کیا یہ طوطا چشمی نہیں؟ کبھی اس ناسپاسی پر غور کیا ہے؟
پھر گدھے نے تقریر جھاڑنا شروع کی۔ باقاعدہ روہانسا ہو رہا تھا۔ لمبوترے چہرے پر کرب صاف دیکھا جا سکتا تھا۔ کہنے لگا: ساری زندگی بوجھ اٹھاتا ہوں۔انسان کی خدمت کرتا ہوں۔ ایندھن‘ پانی‘ اناج‘ گھاس‘ بھوسہ‘ کیا ہے جو مجھ پر نہیں لادا جاتا۔ گرمی ہو یا سردی‘ دھوپ ہو یا بارش‘ میری باربرداری میں تعطل نہیں آتا۔ پیٹھ زخمی ہو جاتی ہے۔ ٹانگیں کانپتی ہیں۔ بھوک مر جاتی ہے مگر کبھی چھٹی نہیں ملی! تین تین بندے مجھ پر سواری کرتے ہیں! لیکن اس عاجزی اور سپردگی کے بدلے میں میری خوب خوب توہین کی جاتی ہے۔ جسے گالی دینی ہو اسے گدھا کہتے ہیں یا گدھے کا بچہ! پنجابیوں نے تو حد کردی ہے۔ ''کھوتے دا پتر‘‘ ان کا تکیہ کلام ہے۔ جس کی تضحیک کرنی ہو اسے کہیں گے '' کھوتا ای اوئے‘‘۔صرف ایک شریف شاعر نے اپنے دشمن سے خطاب کرتے ہوئے مجھے انسان سے بہتر قرار دیا ہے ؎
ترا خر خواہم و گشتم پشیمان
کہ آن بیچارہ را بدنام کردم
کہ تجھے گدھا کہہ کر پچھتا رہا ہوں کہ اس بیچارے کو مفت میں بدنام کیا ! شیخ سعدی بھی آخر انسان تھے۔ میری ہی بے حرمتی کی ؎
خرِ عیسیٰ اگر بہ مکّہ رود
باز آید‘ ہنوز خر باشد
کہ عیسیٰ علیہ السلام کا گدھا مکہ سے ہو آئے پھر بھی گدھا ہی رہے گا! شیخ سے کوئی پوچھتا کہ حضرت! کون سا جانور ہے جس کی ہیئت مکہ جا کر بدل جائے گی ؟ ابو جہل اور ابو لہب تو تھے ہی مکہ میں؟ تو کیوں نہ بدلے؟ آخر میں گدھے نے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور کہا :تم انسان ناشکرے ہو!
کتّے نے ساری حدیں پار کر دیں۔ اتنا شرمندہ کیا کہ میں زمین میں جیسے گڑ ہی گیا! کہنے لگا :میری وفاداری ضرب المثل ہے۔ مجھ سے بڑھ کر انسان کا کوئی وفادار نہیں۔ یہاں تک کہ اس کے ملازم اور اس کی اولاد بھی مجھ سے زیادہ وفادار نہیں! میں انسان کے پاؤں چاٹتا ہوں! دُم ہلاتا ہوں۔کام سے واپس آئے تو سو سو بلائیں لیتا ہوں۔جہاں بٹھاتا ہے‘ بیٹھ جاتا ہوں۔ جہاں کھڑا کرتا ہے‘ وہیں کھڑا رہتا ہوں! غم میں ہوتا ہے تو جان جاتا ہوں اور ساتھ لگ کر دلاسا دیتا ہوں۔اس کے گھر کی‘ اس کے بچوں کی حفاظت کرتا ہوں۔ جان تک قربان کر دیتا ہوں۔ کتنے ہی کتے سالہا سال مالک کا استقبال کرنے ہر روز ریلوے سٹیشن جاتے رہے جبکہ مالک جہاں کام پر گئے تھے‘ وہاں مر گئے تھے۔ کتنے ہی کتے سفر کے دوران مالک کے ساتھ تھے۔ مالک مر گیا‘ جنگل تھا یا پہاڑ یا دشت‘ کتا مالک کی لاش کے ساتھ چمٹا رہا۔ کتنے ہی کتے مالک کی قبر پر بیٹھ گئے اور واپس نہ گئے! یہ کتا ہی تھا جو اصحاب کہف کے ساتھ رہا۔ سعدی نے تو میرے بلند مقام کا اعتراف بھی کیا ؎
سگِ اصحابِ کہف روزی چند
پئی نیکان گرفت و مردم شد
کہ اصحاب کہف کے کتے نے کچھ دن نیکوں کی صحبت اختیار کی اور آدمی ہو گیا۔ مگر افسوس! تم انسانوں نے میری بے لوث وفا کا بدلہ بدترین انداز میں دیا۔ تم نے میرے نام کو‘ میرے وجود کو گالی بنا دیا! جسے گالی دینی ہو اسے کتا کہتے ہو یا کتے کا بچہ ! جس کی گفتگو بُری لگے اسے کہتے ہو کتے کی طرح بھونک رہا ہے۔ جسے بد دعا دینی ہو اسے کہتے ہو کتے کی موت مرو! جو بیکار ہو اسے کہتے ہو دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا! کبھی کہتے ہو کتے کی دُم سو سال بھی نلکی میں رکھو‘ ٹیڑھی ہی رہے گی! اور تو اور ! فرنگیوں نے بھی‘ جو ویسے تو مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں‘ میری بہت تحقیر کی! گالی دیتے وقت Son of bitchکہتے ہیں! افسوس! تم انسان محسن کُش ہو !
چاروں نے دل کا غبار نکالا اور رخصت ہو گئے۔ ابھی گھر کے اندر آکر بیٹھا ہی تھا کہ ملازم نے اطلاع دی کہ شیر اور چیتا ملنے آئے ہیں۔ ملازم یہ بتاتے ہوئے دانت بھی نکال رہا تھا۔ کم بخت نے میری بے عزتی جو دیکھی تھی! میں نے شیر اور چیتے کو ڈرائنگ روم میں بٹھانے کو کہا۔ اندر گیا تو دونوں کے تیور ہی اور تھے۔ اکڑ کر بیٹھے رہے۔ اُٹھے نہ مصافحہ کیا نہ سلام کا جواب دیا۔ میں نے پوچھا: کیسے زحمت کی؟ شیر نے جواب دیا کہ ہم دونوں یہ پوچھنے آئے ہیں کہ تم انسانوں میں غیرت اور حمیت کی کوئی رمق ہے یا نہیں ؟ میں نے حیران ہو کر پوچھا: ایسا کیوں کہہ رہے ہو ؟ ہم انسان تو تمہاری بہادری کی مثالیں دیتے ہیں۔شیر کہنے لگا: یہی تو مسئلہ ہے! ہم تمہارے جانی دشمن ہیں! جہاں کوئی انسان ملے اسے چیر پھاڑ کر رکھ دیتے ہیں! تمہارے بچوں کو ہڑپ کر جاتے ہیں۔ تمہارے مویشیوں کو کھا جاتے ہیں۔ ایک شیر یا ایک چیتا بھی نظر آجائے تو پوری بستی کے لوگ دبک کر گھروں میں بیٹھ جاتے ہیں! اس بربریت‘ دشمنی اور سفاکی کے باوجود تم اپنے بہادروں کو شیر کہتے ہو اور بچوں کو شیر بچہ کہتے ہو! یا کہتے ہو :شاباش! میرے چیتے! تمہارے شاعر اقبال نے بھی کہا ہے ؎
ملے گا منزلِ مقصود کا اسی کو سراغ
اندھیری شب میں ہے چیتے کی آنکھ جس کا چراغ!
حالانکہ کئی اور جانور چیتے سے بھی زیادہ تیز نظر رکھتے ہیں! دونوں نے مجھ پر حقارت آمیز نظر ڈالی اور چلے گئے!ان کے جانے کے بعد کچھ دیر سوچتا رہا۔ پھر میں اس حتمی نتیجے پر پہنچا کہ ہم انسان طاقتور کی خوشامد کرتے ہیں اور کمزور کی تحقیر! اور احسان فراموش ہم جیسا کوئی نہیں !!