اگر یہ قتلِ عام نہیں تو کیا ہے ؟
یہ قتلِ عام ایک چودہ سالہ بچے نے کیا جو ڈیفنس لاہور فیز سات میں کار چلاتے ہوئے کرتب دکھا رہا تھا۔ انتہائی تیز رفتاری سے وہ زگ زیگ کھیل رہا تھا۔ جو قارئین زگ زیگ کے مطلب سے نا آشنا ہیں ان کی اطلاع کے یے عرض ہے کہ زگ زیگ کامطلب گاڑی کو سڑک کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے اور پھر دوسرے کنارے سے پہلے کنارے لانا ہے اور اسی طرح کرتے جانا ہے‘ یعنی پہلے سڑک کے دائیں طرف کرنا پھر برق رفتاری سے بائیں طرف کرنا ! اس کھیل کے دوران اس کی گاڑی دوسری گاڑیوں سے ٹکرائی۔ ایک بدقسمت خاندان کے چھ افراد اس بچے کے کھیل کی بھینٹ چڑھ گئے۔ان مقتولوں میں ایک چار سالہ بچی اور ایک چار ماہ کا بچہ بھی شامل ہیں۔ تین شدید زخمی ہوئے۔ پورے کا پورا خاندان اُجڑ گیا۔ یہ وحشت ناک قتلِ عام کسی دور افتادہ بستی یا گاؤں میں نہیں کیا گیا۔ یہ لاہور شہر کے سب سے زیاد ماڈرن اور مہنگے علاقے میں رونما ہوا۔
جیسا کہ ہر حادثے کے بعد ہوتا ہے‘ صوبے کے گورنر اور وزیر اعلیٰ کی طرف سے بیانات جاری ہوئے۔ دونوں نے واقعہ پر گہرے دکھ اور افسوس کااظہار کیا۔ رپورٹ طلب کی اورغفلت کے ذمہ دار ڈرائیور کے خلاف قانونی کارروائی کا حکم بھی دیا۔ مگر ہم بصد احترام نگران وزیر اعلیٰ جناب محسن نقوی سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا غفلت کا ذمہ دار صرف ڈرائیور ہے؟ اصولی طور پر عوام کے جان و مال کی ذمہ داری حکمران پر عائد ہوتی ہے۔فرات کے کنارے مرنے والے جانور والی بات ہر حکمران کو معلوم ہے۔شیر شاہ سوری کا فرمان تھا کہ جس گاؤں میں قتل ہو گا‘ وہاں کا مکھیا قاتل کو تلاش کرے گا ورنہ موت کی سزا پائے گا۔خلجیوں کے دور میں بھی انصاف کا نظام مثالی تھا۔کم تولنے والے تاجر کے جسم سے اتنا گوشت کاٹ دیا جاتا تھا جتنا کم اس نے تولا ہوتا تھا۔ کہا جائے گا یہ ظلم اور سفاکی ہے۔ مگر مکھیا اور کوتوال راتوں کو سوتے نہیں تھے‘ پہرا دیتے تھے۔ جدید سنگا پور کے معمار‘ لی کؤان یئو سے امریکیوں نے پوچھا تھا کہ صرف گولی چلانے والے کو‘ جس نے کسی کو مارا نہ زخمی کیا‘ سزائے موت دینا کہاں کا انصاف ہے؟ لی نے جواب دیا تھا تم مجرم کو جرم سرزد ہونے کے بعد سزا دیتے ہو‘ ہم جرم سرزد ہونے سے پہلے سزا دیتے ہیں! سفاکی کا انسداد سفاکی ہی سے کیا جا سکتا ہے‘ چونچلے اٹھانے سے نہیں کیا جا سکتا ! اس ملک میں قاتلوں کی جس طرح ناز برداریاں کی جاتی ہیں ‘ اس کے بعد انسانی جان کی وقعت یہاں اتنی بھی نہیں رہی جتنی فرش پر رینگنے والی کیڑی کی ہے!
نہیں ! جناب وزیر اعلیٰ! نہیں ! چھ بے گناہ انسانوں کے قتل کی ذمہ داری سب سے پہلے ٹریفک پولیس پر عائد ہوتی ہے۔ اگر چودہ سال کا بچہ گاڑی چلا رہا ہے تو اس کا مطلب ایک پاگل شخص کو بھی معلوم ہے کہ ٹریفک پولیس اپنا کام نہیں کر رہی! ٹریفک پولیس کا ڈر ہوتا تو بچہ گاڑی چلاتا نہ بچے کے بڑے اسے گاڑی چلانے کی اجازت دیتے! کوئی بھی ایسا ملک ہوتا جہاں قانون کی حکمرانی ہوتی تو ایسے دلخراش حادثے کے بعد سب سے پہلے ٹریفک پولیس کے متعلقہ ہیڈ کو ذمہ دار قرار دیا جاتا اور سزا دی جاتی! ذرا ٹریفک پولیس پر قومی خزانے سے ہونے والے اخراجات کا اندازہ لگائیے! ان کی تنخواہیں‘ ان کی گاڑیاں‘ ان کے ٹیلیفون‘ ان کی مراعات‘ ان کے پروٹوکول! ان کی قیام گاہوں کے باہر تنے ہوئے خیموں میں شفٹوں پر پہرہ دینے والے پولیس کے جوان !! اور اس کا حاصل ! چودہ سال کا بچہ گاڑی چلاتے ہوئے اٹھکیلیاں کرتا ہے اور چشم زدن میں چھ آدم زادوں کو ہلاک اور تین کو زخمی کر دیتا ہے!! اور ٹریفک پولیس کے سربراہ کو کٹہرے میں نہیں کھڑا کیا جاتا!! یا وحشت ! یہ لاہور کا شہر ہے یا جنگل ؟ اور یہ ڈیفنس کے فیز ہیں یا کسی قتل گاہ کے فیز ؟ جس شہر میں چار سال کی بچی اور چار ماہ کا بچہ محفوظ نہیں‘ وہ پاکستان کا شہر ہے یا غزہ کا؟
اور دوسرا ذمہ دار اس قتل عام کا اُس بچے کا سرپرست ہے‘ خواہ اس کا باپ ہے یا ماں یا کوئی اور!! کیا اس بچے کا والد کوئی بہت بڑی شخصیت ہے؟ کوئی بہت بڑا سرکاری منصب دار ؟ یا کوئی امیر کبیر تاجر یا وڈیرہ یا صنعت کار یا کوئی سیاسی زعیم؟ جس کے برخوردار کو ٹریفک پولیس نے کھلی چھٹی دے رہی ہے اور وہ خود اتنا بے نیاز ہے کہ بچے کی جان کو خطرے میں ڈال کر اسے گاڑی دے رہا ہے! یہ تو قسمت اچھی تھی کہ بچہ بچ گیا۔ و رنہ اس کے سرپرست نے تو بچے کی زندگی کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی تھی ! چھ انسانوں کی موت اس بچے کو ساری زندگی یاد رہے گی! یہ اس کے لیے ایک نفسیاتی مسئلہ بھی بن سکتا ہے! انصاف یہ ہے کہ بچے کو نہیں‘ اس کے سرپرست کو سزا دینی چاہیے
یہ کوئی فخر کی بات نہیں مگر سچ یہ ہے کہ اس لکھنے والے نے بارہااُس قتلِ عام کی طرف توجہ دلائی ہے جو اس ملک میں بغیرکسی روک ٹوک کے جاری ہے۔ ڈمپروں‘ ٹریکٹر ٹرالیوں اور تیز رفتار ویگنوں کے نیم وحشی ڈرائیور ہزاروں افراد کو موت کے گھاٹ اتار چکے ہیں! اس ملک میں خلیل حامدی جیسا نابغۂ رُوزگار سکالر گنّا ڈھونے والی ٹرالی کی نذر ہو جاتا ہے ‘ پروفیسر طیب منیر جیسا ہر دلعزیز ‘ ہنستا مسکراتا‘ پروفیسر ایک ڈمپر کے نیچے کچلا جاتا ہے ‘ کتنے ہی خاندان ہر روز ماتم کناں ہو تے ہیں‘ کتنے بچے یتیم‘ کتنی سہاگنیں بیوہ اور کتنے ماں باپ بے سہارا ہو جاتے ہیں اور قانون خاموش رہتا ہے! قانون سازی کرنے والے بے نیاز اور لاتعلق!! جرمانوں کی مالی مقدار مضحکہ خیز حد تک معمولی ہے۔ ڈرائیونگ لائسنسوں کا کوئی پوائنٹ سسٹم نہیں ! وفاقی دارالحکومت میں رات کو بغیر لائٹ والی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی تعداد ہوشربا ہے! افسوس ! صورت حال بدلنے کے کوئی آثار نہیں ۔
پس نوشت: پاکستان ہوزری مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے مرکزی چیئرمین سید ناہد عباس نے کہا ہے کہ برآمدات بڑھانے کیلئے پاکستان کو ''بنگلہ دیش ماڈل‘‘ پر عمل کرنا پڑے گا۔ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد ہر روز دن کا آغاز اس میٹنگ سے کرتی ہیں کہ برآمدات بڑھانے اور ایکسپورٹرز کو درپیش مسائل حل کرنے کیلئے کس حکومتی محکمے نے کیا کام کیا ہے۔ پاکستان میں صورتحال اس کے برعکس ہے اور صنعتی تنظیموں کے عہدیداروں کو اپنے مسائل حل کروانے کیلئے حکومتی عہدیداروں اور بیورکریٹس سے ملاقاتوں کیلئے مہینوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ بنگلہ دیش کے صنعتکاروں نے بیرون ملک بڑے برینڈز کے قریب ترین مقامات پر اپنا سیٹ اَپ بنا کر انہی برینڈز کے تجربہ کار لوگوں کو بہتر تنخواہوں پر ملازم رکھ کر اپنے برینڈز متعارف کروا دیے ہیں۔
سید ناہد عباس کا یہ بیان برآمدات میں ہماری ''کارکردگی‘‘کا وضح ثبوت ہے! بنگلہ دیش کی اس میدان میں بے مثال کامیابی وہاں کی حکومت کی انتھک کوشش ہے۔ وزیر اعظم حسینہ واجد ‘ معاشی اور مالی حوالوں سے جن اجلاسوں کی صدارت کرتی ہیں‘ وہ سات سات گھنٹے جاری رہتے ہیں! بنگلہ دیش اگر ابھی تک ایشین ٹائیگر نہیں بھی بنا ‘ تو بننے کے قریب ہے! کپاس کا ایک پودا بھی جس ملک میں نہیں ‘ وہ ملبوسات کی برآمد میں ہمیں میلوں پیچھے چھوڑ گیا ہے۔ سیاسی عدم استحکام ہماری ناکامی کا بہت بڑا سبب ہے لیکن نوکر شاہی‘ سرخ فیتہ اور ذاتی مفادات کی آمیزش بھی بڑے عوامل ہیں!ہمارے برآمد کنندگان کو سرکاری دفتروں میں عزت ملتی ہے نہ سہولت! بڑے بڑے ادارے بنا دیے گئے ہیں مگر ان کا اصل مقصد یہ ہے کہ مزید اسامیاں پیدا ہوں اور پسندیدہ بیوروکریٹس وہاں پارک ہوں ! کاش ! ہم بیدار ہو جائیں اور اپنی اصلاح کر لیں !