اعلیٰ عہدے پر فائز ایک نوجوان افسر نے خود کشی کر لی۔سوشل میڈیا پر یہ خبر ٹاپ ٹرینڈ بنی رہی۔ بہت تجزیے ہوئے۔ جتنے منہ اتنی باتیں! اس خاص واقعہ کے پیچھے کیا عوامل کار فرما ر ہے ؟ اس میں ازدواجی معاملات نے کیا اور کتنا کردار ادا کیا؟ اس ضمن میں کوئی کارآمد اور ٹھوس تجزیہ تاحال سامنے نہیں آیا۔ ہاں! افسر کی اہلیہ کے حوالے سے '' سابق اہلیہ ‘‘ کا لفظ پڑھنے میں ضرور آیا جو مبینہ طور پر اچھے منصب پر فائز ہیں۔
ماضی قریب میں اعلیٰ افسروں کی جس تعداد نے خود کشی کی ہے وہ تعداد تشویشناک ہے۔ اس حوالے سے کوئی سٹڈی تاحال نہیں ہوئی کہ عوامل کیا ہیں۔ کسی سنجیدہ سٹڈی کا امکان بھی نہیں۔ ہمارے ہاں اس کا رواج ہی نہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس افسر کا خاندانی اور معاشرتی حدوداربعہ کیا تھا۔ اور ازدواج کے پہلو کا اس سانحہ میں کتنا عمل دخل ہے۔ بہر طور میں اپنے ایک قریبی دوست کا ‘ جو کلاس فیلو بھی تھا‘ احوال قارئین کے ساتھ شیئر کرتا ہو ں۔اس نے بھی اعلیٰ منصب پر پہنچ کر اپنی زندگی اپنے ہاتھوں سے ختم کی۔ یہ بتانا مناسب نہیں کہ وہ کس شہر یا کس سکول یا کالج یا یونیورسٹی میں میرا ہم جماعت تھا یا کس سروس میں تھا یا کس منصب پر تھا۔ اس لیے کہ پردہ پوشی ضروری ہے۔ہو سکتا ہے کچھ قریبی دوست اس تحریر کے بعد اس کی شناخت تک پہنچ جائیں۔ ایسا ہوا بھی تو ان کی تعداد تین چار سے زیادہ شاید نہ ہو!
وہ ایک بہت غریب گھرانے سے تھا۔ ایک گنجان محلے میں پرانی وضع کا گھر تھا۔ صحن اور دو یا تین کمرے۔ تھا بہت لائق! بہت ذہین۔ ہم کبھی کبھی اس کے گھر جاتے۔ جو پکا ہوتا خوشی سے کھاتے۔ تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ وہ شام کو ملازمت بھی کرتا رہا۔ اس سے وہ اپنی تعلیم کے اخراجات بھی پورے کرتا اور گھر والوں کی مالی مدد بھی کرتا۔ ایم اے تک کی تعلیم اسی محنت اور اسی مشقت کے ساتھ حاصل کی۔ پھر مقابلے کا امتحان دیا۔ کامیابی نے قدم چومے۔ ایسی سروس یعنی سروس گروپ ملا جس کی حسرت امرا کے بچے بھی کرتے ہیں مگر ناکام رہتے ہیں۔ پھر شادی کا مرحلہ آیا اور اس سے وہی غلطی ہوئی جو نہ صرف لوئر یا مڈل کلاس سے ہوتی ہے بلکہ طبقۂ بالا کے افراد سے بھی ہوتی ہے اور پھر اس غلطی کی قیمت ادا کرنا ہوتی ہے۔ اس قیمت کی مختلف شکلیں ہوتی ہیں۔کبھی یہ غلطی سکون چھین لیتی ہے۔ کبھی ازدواجی زندگی شکست و ریخت کا شکار ہو جاتی ہے۔ کبھی خون کے رشتے چھوٹ جاتے ہیں۔ کبھی کیرئیر زخمی ہو جاتا ہے۔ اور کبھی اپنے جسم و جان کا تعلق اپنے ہی ہاتھوں سے ختم کرنا پڑتا ہے۔
یہ جو کہا گیا ہے کہ شادی اپنے کُفو میں کرو تو اس کا آخر کیا مطلب ہے؟ لوگ سمجھتے ہیں کہ شادی اپنے قبیلے‘ اپنی ذات‘ اور اپنی برادری میں کرنے کا مطلب کُفو ہے! لیکن اگر اپنی ذات اور اپنی برادری کا گھرانہ بہت زیادہ امیر ہے یا بہت زیادہ غریب ہے تو کیا وہ کُفو ہے ؟ نہیں! ہر گز نہیں ! کُفو سے مراد مالی ہم آہنگی اور سماجی مناسبت( Compatibility ) بھی ہے۔ اور ہم آہنگی اور مناسبت تو ایک باپ کے دو بیٹوں میں بھی مفقود ہو سکتی ہے۔ ہمارے قصبے میں دو سگے بھائی تھے۔ ایک کا معاش یہ تھا کہ وہ گدھے پر ریت ڈھوتا تھا۔ اسے سب لوگ''فضل ریت والا ‘‘ کہتے تھے۔ دوسرا بھائی ایک ہائی سکول میں ہیڈ ماسٹر کے عہدے پر فائز تھا۔ دونوں گھرانوں کی نہ صرف مالی حیثیت میں فرق تھا بلکہ رہنا سہنا‘ سوشل سرکل‘ تعلیمی معیار‘ نفسیات ‘ سب کچھ مختلف تھا۔ دونوں گھرانوں کے بچے اپنے اپنے ماحول میں پلے بڑھے تھے اور یہ ماحول یکسر مختلف تھے۔ اپنے سے بہت اوپر اور اپنے سے بہت نیچے ‘ دونوں فرق ہی مہلک ہیں! ہمارے اس دوست نے بہت اوپر کے گھرانے سے شادی کر لی۔ بہت بڑے لوگ تھے۔ لڑکے کو تو لڑکی نے قبول کر لیا اور پسند بھی مگر وہ لڑکے کے ماں باپ کو‘ لڑکے کے گھر کو ‘ لڑکے کے بھائی بہنوں کو قبول نہ کر سکی۔ سماجی فرق بھی بہت زیادہ تھا اور لڑکی بھی پہاڑ سے نہ اُتر سکی! یہاں تک کہ تعطیلات میں بچے دادا دادی کو مل سکتے نہ ہی ان کے پاس رہ سکتے ! لڑکے کی زندگی میں زہر سرایت کر گیا۔ وہ اندر ہی اندر گھُلتا رہا۔ پہلے تو کیرئیر میں ٹوٹ پھوٹ ہوئی۔ وہ اپنے ہم چشموں سے پیچھے رہ گیا۔ آخر میں اُس نے خود کشی کر لی!
بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ بڑے گھر کی لڑکی چھوٹے گھر میں اور چھوٹے گھر کی لڑکی بڑے گھر میں ایڈجسٹ ہو جائے۔ اور جو شاذ ہوتا ہے وہ معدوم ہوتا ہے۔ یعنی مستثنیات سے اصول نہیں بنتے نہ ہی تعمیم (generalisation ) ہو سکتی ہے! ملازمت پیشہ خاندانوں اور کاروباری خاندانوں کے درمیان جو فرق ہوتا ہے اسی پر غور کر لیجیے۔ دونوں کی نفسیات میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ کھانا پینا ‘ لباس ‘ عادات ‘مزاج‘ رجحانات ‘ سب کچھ الگ ہے۔ کروڑ پتی تاجر انکم ٹیکس کے دفاتر میں ادنیٰ لباسوں میں دیکھے ہیں ! بکرا قصاب سے سالم خریدیں گے! ملازم پیشہ لوگوں کی نفسیات یہ نہیں! ان دونوں گروہوں کے درمیان ہونے والی شادیاں کم ہی کامیاب ہوتی ہیں۔ عسکری خاندانوں نے اس نکتے کو خوب سمجھا ہے۔ ان کی شادیاں زیادہ تر آپس ہی میں یعنی عسکری خاندانوں ہی میں ہوتی ہیں۔ لڑکی اور لڑکے کو اپنے اپنے سسرال میں وہی ماحول ملتا ہے جو اس کے اپنے گھر کا ہو تا ہے۔
غریب گھر کا لڑکا جب اعلیٰ افسر بنتا ہے تو وہ دو وجوہ کی بنا پر اپنے سے اوپر والوں کے ہاں شادی کا بندھن باندھتا ہے! کچھ تو مال و دولت کی لالچ میں کسی بڑے گھر میں ازدواجی نقب لگاتے ہیں! ہمارے ساتھ کے ایک دو افسروں نے بھی سیٹھوں کے گھرانوں میں شادیاں کیں! اگر زندگی میں ترجیح پیسہ اور صرف پیسہ ہو تو انسان بہت کچھ مرضی سے اور خوشی سے قربان کر دیتا ہے! ایسا لالچی شخص بیوی سے اپنی عزت نہیں کرا سکتا تو اپنے ماں باپ کی اور خاندان کی کیسے کرا سکتا ہے! دوسری وجہ ''پھنسنے ‘‘ کی یہ ہے کہ کچھ شِکرے ‘ کچھ شکاری ‘ کنوارے افسروں کی تاک میں رہتے ہیں! ایک تو ان کے خیال میں بیٹی کا مستقبل محفوظ ہوجاتا ہے۔ دوسرا‘ افسر کی وجہ سے ان کے خاندانی وقار اور اثر و رسوخ میں اضافہ ہوتا ہے اور اگر بزنس ہے تو اس کے مشکل مقامات میں بھی دستگیری ہو جاتی ہے۔ پنجاب کے ایک بڑے شہر کی ایک مخصوص برادری کا سول سروس میں بڑا مؤثر نیٹ ورک ہے! یہ لوگ بھی نوجوان کنوارے افسروں سے رشتہ داریاں گانٹھتے ہیں۔ ان کے پھینکے ہوئے جال سے اور ان کی لگائی ہوئی کَڑْکّی سے بچنا بہت مشکل ہوتا ہے کیونکہ ایسے مؤثر نیٹ ورک کا حصہ بننا نوجوان افسر کے کیرئیر کے لیے بھی مہمیز ثابت ہوتا ہے!!
جہیز کی لعنت بھی بے سروپا اور غیر متوازن شادیوں میں اپنا کردار ادا کرتی ہے! بہت عرصہ پہلے کراچی گیا تو ایک افسر دوست سے ملنے اس کی قیام گاہ پر گیا! وہ گھر میں اکیلا تھا۔ بیگم صاحبہ مصوّری کی نمائش دیکھنے گئی ہوئی تھیں! ڈرائنگ روم کیا تھا شیشہ گھر تھا۔ انتہائی قیمتی اور دیدہ زیب فرنیچر ! بے تکلفی تو تھی ہی ‘ میں صوفے پر بیٹھا تو کہنے لگا: یار اس پر نہ بیٹھو‘ بیوی نے منع کیا ہوا ہے‘ چنانچہ میں اُس صوفے پر بیٹھا جو اس نے تجویز کیا۔ یہ دوست بھی جلد ہی دنیا سے رخصت ہو گیا۔ موت کی وجہ خود کشی بتائی گئی! بعد میں یہ سنا کہ کسی اپنے نے گولی مار دی تھی !! ہمارے استاد پروفیسر کرم حیدری مرحوم نے خوب کہا ہے
خود جلائی آ گ اپنے سر پہ ہم نے کیوں کرمؔ
دوسروں کو دیکھتے ‘ انجام اپنا جانتے