ہم ابھی جوتے ڈھونڈ رہے ہیں!!!

میرے دوست نے جاپان کی مثال دی ہے۔ کئی افراد نے کوریا کی ترقی کا ذکر کیا ہے جس نے پانچ سالہ اقتصادی منصوبہ پاکستان ہی سے لیا تھا۔میں نے خود بارہا سنگاپور کو ماڈل کے طور پر پیش کیا ہے۔ چار چار بالشت کے تھائی جس طرح صرف ایئر پورٹ سے روزانہ کروڑوں کمارہے ہیں‘ حیرت ہوتی ہے! یو اے ای اس وقت پورے کرۂ ارض پر سیاحت اور کاروبار کا مرکز اور مالیات کا محور ہے۔ کیا تھا یو اے ای؟ ریگستان! جس میں خاردار جھاڑیوں‘ ریت کے ٹیلوں‘ اونٹوں اور بکریوں کے سوا کچھ نہ تھا! پاکستان جہاں تھا‘ وہاں بھی اب نہیں! رجعتِ قہقری کا عبرتناک نمونہ ہے!
ہم جاپان کیوں نہیں بنے؟ سنگا پور‘ کوریا‘ تھائی لینڈ‘ یو اے ای‘ سب ہمارے لیے خوابوں کی دنیا کیوں ہیں ؟ کیا اس لیے کہ کوریا‘ تھائی لینڈ‘ سنگا پور اور یو اے ای کی بغل میں کوئی افغانستان نہیں؟ مگر پچاس اور ساٹھ کی دہائیوں میں یہی افغانستان ہمارا پڑوسی تھا! ہماری صنعتی ترقی رواں دواں تھی۔ ہماری ایئر لائن کا شُہرہ تھا۔ ہم نے ڈیم بنائے تھے۔ دنیا میں ہماری عزت تھی ! تو کیا اس لیے کہ کوریا‘ سنگاپور اور یو اے ای میں کوئی مردِ مومن مردِ حق نہیں آیا؟ جس نے افغانستان کی منشیات اور اسلحہ سے اس ملک کو بھر دیا۔ جس نے اپنے ہی ملک کی سرحدیں ملیا میٹ کر دیں۔ ویزا کے بغیر لاکھوں جنگجو لا کر آباد کیے۔ افغانستان کے نام پر امداد لی اور ایسی امداد کہ اپنے پیٹی بند بھائیوں کی ذریت کو بھی نہال کر دیا!
تو کیا اس لیے کہ کوریا‘ سنگاپور‘ تھائی لینڈ اور یو اے ای نے اپنے آپ کو مذہبی انارکی سے بچایا؟کوئی مذہبی جماعت عقیدے کی بنیاد پر ان ملکوں میں سیاسی پارٹی نہیں بنا سکتی! نہ دھرنا دے کر حکومت اور عوام کو ناکوں چنے چبوا سکتی ہے۔یواے ای میں نوے‘ پچانوے فیصد آبادی مسلمانوں کی ہے۔ مگر مذہب کا ریاست کے کاموں میں کوئی عمل دخل ہے نہ بلیک میلنگ!! ایک بار ایک مذہبی تنظیم نے‘ جس کا مرکز لاہور میں تھا‘ ایک اجلاس منعقد کیا تھا‘ اُسی دن اجلاس منعقد کرنے والوں کو جہازمیں بٹھا کر یو اے ای سے نکال دیا گیا تھا کہ یہ کام جا کر اپنے ملک میں کرو! ان ملکوں میں کوئی قراردادِ مقاصد نہیں لائی گئی جس کے بعد تمام جوگندر ناتھ منڈل ملک چھوڑ گئے! تو کیا اس لیے کہ پاکستان میں وہ تمام گیلانی اور قریشی آج بھی حکمران ہیں جو انگریزوں کی خدمت اور اپنوں سے غداری کے صلے میں جاگیروں سے نوازے گئے تھے؟ بھارت نے جاگیرداری کو ختم کر دیا۔ زرعی اصلاحات کیں اور ان اصلاحات کے نفاذ میں کوئی فریب کاری نہیں کی! پاکستان میں کروڑوں مزارع اور ہاری‘ اور ان کی عورتیں‘ اپنی مرضی سے ووٹ نہیں ڈال سکتیں! تعلیم ان پر حرام ہے! غربت سے چھٹکارا پانا نا ممکن ہے۔ حکم عدولی کریں تو وڈیرے خونخوار کتوں کے آگے ڈال دیتے ہیں!!
تو کیا اس لیے کہ ان ملکوں میں پولیس اور بیورو کریسی سیاست زدہ نہیں؟ کوئی بھی ملک ہو‘ اصل میں پولیس اور بیوروکریسی ہی ملک کو چلاتی ہے۔پاکستان میں پولیس بڑے لوگوں کی کنیز ہے اور چھوٹے لوگوں کے لیے آسمانی قہر ! بیورو کریسی کو بے بس کر دیاگیا ہے اس لیے کہ آئین کی طرف سے ان کے سر پر جو چھتری تنی ہوئی تھی‘ وہ ہٹا دی گئی۔ حکمرانوں کی غیر مشروط اطاعت نہ کرنے والے بیوروکریٹ منظر سے ہٹا کر کونوں کھدروں میں پھینک دیے جاتے ہیں۔یوں جی حضوریے افسر اس خلا کو پُر کرتے ہیں۔ بے بس پولیس اور مفاد پرست افسر شاہی نے ملک کو آگے بڑھنے ہی نہیں دیا۔ تو کیا اس لیے کہ جاپان اور ان دوسرے ملکوں کے حکمران ہمارے حکمرانوں کی طرح لالچی اور کئی نسلوں سے بھوکے نہیں تھے ؟ خریدو فروخت میں کِک بیکس! بینکوں سے قرضے جو کبھی واپس نہ کیے گئے ! دبئی‘ لندن اور امریکہ میں جائدادیں ! ایک دن ملک میں تو چار ہفتے یورپ میں! وہ ملک کیسے ترقی کر سکتا ہے جس کے حکمران دولت کے سمندر میں تیر رہے ہوں اور جس کے عوام پانی‘ بجلی‘ گیس‘ تعلیم اور ہسپتالوں سے محروم ہوں؟ جس کے حکمران‘ بشمول سب سیاستدان‘ اپنا علاج بیرون ملک سے کراتے ہوں!
تو کیا اس لیے کہ ان ملکوں میں کوئی اچکزئی‘ کوئی جتوئی‘ کوئی کانجو‘ دوسروں کو مار کر‘ دوسروں کو روند کر‘ دوسروں کو کچل کر‘ جیل سے رہا نہیں ہو سکتا ۔ وہاں کسی کو قتل کرنے کے بعد کوئی ظاہر شاہ زندہ نہیں بچتا۔ اور کسی کو شک ہو تو لکھ لے کہ یہ جس لڑکے نے چھ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارا ہے‘ یہ بھی چھوٹ جائے گا۔جس نے اسلام آباد میں چار انسانوں کو مار دیا تھا اسے کیا سزا ملی ؟ ہماری عدلیہ کی عالمی رینکنگ میں کیا پوزیشن ہے ؟ تو کیا اس لیے کہ ان ملکوں میں کوئی پسِ پردہ رہنے والی طاقت سیاستدانوں کو نیچے سے اوپر اور اوپر سے نیچے نہیں لاتی؟ حکومتیں ان ملکوں میں آزاد ہیں! ہدایات لیتی ہیں تو صرف پارلیمنٹ سے! یو اے ای میں پارلیمنٹ نہیں ہے مگر جو فیصلہ ساز ہیں‘ وہ فیصلہ سازی بنفسِ نفیس خود کرتے ہیں!
کیا ستم ظریفی ہے کہ ہم ان ملکوں کی مثالیں دیں جن کی گرد کو بھی ہم نہیں پہنچ سکتے؟ ہم سب‘ میرے سمیت خوابوں کی دنیا میں رہتے ہیں ! ہمارے افلاس کا یہ عالم ہے کہ اتنی بڑی پارٹی میں ایک ہی شخص ہے جو پہلی بار بھی وزیراعظم بنتا ہے‘ دوسری بار بھی‘ تیسری بار بھی اور چوتھی بار بھی! ہم ذہنی طور پر اس قدر قلاش ہیں کہ ہمیں اپنے بیٹے کے علاوہ کوئی شخص وزیر اعظم ہوتا نظر ہی نہیں آتا! ہم اس قدر بدھو ہیں کہ سینکڑوں وعدے کرکے اقتدار میں آتے ہیں تو پورے ملک کو جادو ٹونے کی آگ میں جھونک دیتے ہیں یہاں تک کہ بیورو کریٹس کی تعیناتیاں ان کی تصویروں کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ کیا ایسے ملک جاپان‘ کوریا‘ سنگا پور‘ تھائی لینڈ‘ تائیوان یا یو اے ای بن سکتے ہیں؟ موجودہ اہلِ سیاست کے ساتھ قیامت تک نہیں بن سکتے! خواب جھوٹے خواب میرے خواب تیرے خواب بھی !!
لکھنؤ میں ایک نواب کے ہاں دعوت تھی۔ ایک سکھ سردار صاحب بھی مدعو تھے! اتفاق سے دسترخوان پر دہی نہیں تھا۔ نواب صاحب نے ملازم کو دہی لینے بھیجا۔ جیسے ہی وہ نکلا‘ نواب صاحب نے کہنا شروع کر دیا: اب اس نے جوتے پہنے ہیں۔ اب یہ دالان میں پہنچا ہے۔ اب یہ حویلی سے نکلا ہے۔ اب یہ گلی میں چل رہا ہے! اب یہ گلی کے موڑ پر ہے۔ اب یہ بازار میں داخل ہوا۔ اب یہ یہ بائیں طرف مُڑا۔ اب یہ دہی کی دکان پر پہنچا۔ اب اس نے دہی لے لیا۔ اب یہ واپس چل پڑا ہے۔ اب بازار سے نکلا ہے۔ اب گلی کا موڑ مُڑا ہے۔ اب حویلی میں داخل ہوا۔ ا ب دالان عبور کیا۔ اب کمرے کے باہر ہے۔ اب جوتے اتار رہا ہے۔ اور پھر جیسے ہی نواب صاحب نے کہا کہ '' یہ اندر آگیا ‘‘ تو ملازم دہی ہاتھ میں لیے‘ اندر داخل ہو گیا۔ سردار صاحب بہت متاثر ہوئے۔ گھر واپس آئے تو انہوں نے بھی احباب کو دعوت پر بلایا۔ دعوت کے درمیان ملازم کو دہی لینے بھیجا۔ پھر اسی طرح کمنٹری شروع کی جیسے نواب صاحب نے کی تھی۔ اب اس نے جوتے پہنے ہیں۔ اب یہ دالان میں پہنچا ہے۔ اب یہ حویلی سے نکلا ہے۔ اب یہ گلی میں داخل ہوا۔ ا ب دالان عبور کیا وغیرہ۔ آخر میں جب کہا کہ یہ اندر داخل ہو گیا تو کوئی بھی اندر نہ آیا۔ آواز دی تو ملازم نے کہا کہ حضور میں تو ابھی گیا ہی نہیں! ابھی تو میں جوتے ڈھونڈ رہا ہوں! تو جناب! ہم نے کوریا اور یو اے ای کیا بننا ہے ! ہم تو ابھی جوتے ڈھونڈ رہے ہیں!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں