یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں

یہ جن ملکوں میں انصاف کا دور دورہ ہے‘ میرٹ کی حکومت ہے‘ عدلیہ رینکنگ میں ممتاز حیثیت رکھتی ہے‘ حکمرانوں کا احتساب ہوتا ہے‘ ان کی قیام گاہیں سادہ ہیں‘ پولیس ضرورت مندوں کے دروازے پر آتی ہے‘ ضرورت مندوں کو تھانوں میں نہیں آنا پڑتا‘ مسلمان ملکوں سے کروڑوں افراد ان ملکوں میں جا بسے ہیں‘ ان ملکوں میں کوئی قراردادِ مقاصد ہے نہ کوئی اسلامی نظریاتی کونسل‘ نہ کوئی شریعہ کورٹ‘ نہ ان ملکوں کے ناموں میں مذہبی ٹچ ہے‘ نہ ان ملکوں میں قسمیں کھانے کا رواج ہے‘ تو پھر ان ملکوں میں ایسا بہت کچھ کیوں موجود ہے جس کا تقاضا اسلام کرتا ہے؟
ان ملکوں میں نیب جیسے اداروں کا وجود بھی نہیں! پھر بھی کرپشن نہ ہونے کے برابر ہے۔ پچھلے سال شفافیت کے لحاظ سے ڈنمارک کا پہلا نمبر تھا۔ دوسرے نمبر پر نیوزی لینڈ تھا۔ اس کے بعد بالترتیب فن لینڈ‘ ناروے‘ سنگا پور‘ سویڈن‘ سوئٹزر لینڈ‘ نیدر لینڈ‘ جرمنی‘ لگزمبرگ ‘ آئرلینڈ‘ ہانگ کانگ‘ آسٹریلیا‘آئس لینڈ ‘ایسٹونیا‘ یورا گوئے‘کینیڈا‘ جاپان‘ برطانیہ‘ بلجیم‘ فرانس‘آسٹریا‘ امریکہ‘ تائیوان‘ بھوٹان‘ اور چلی کے نام آتے ہیں۔ اس کے بعد پہلا مسلمان ملک یو اے ای ستائیسویں نمبر پر ہے! چالیسویں نمبر پر قطر ہے۔پاکستان کا نمبر ایک سو چالیس ہے! یہ فہرست کسی الل ٹپ طریقے سے نہیں بنائی جاتی! اس کا ایک لمبا چوڑا سسٹم ہے۔ ایک طریقِ کار ہے۔ معیار اور کسوٹیاں ہیں! اچھی طرح جانچ پڑتال کر کے‘ ماپ تول کر ‘ ایک ایک ملک کی چھان بین کر کے یہ فہرست تیار کی جاتی ہے! ثابت ہوا کہ قراردادِ مقاصد ہمارے لیے بیکار ثابت ہوئی۔ یہ ہماری کرپشن کو کم نہ کر سکی! اسلامی نظریاتی کونسل ہماری عملی زندگیوں کو اسلام کے نزدیک نہ لاسکی! ایسے تمام ادارے ہماری کوئی مدد نہ کر سکے!ہماری عدلیہ کی رینکنگ دیکھ لیجیے۔ پاسپورٹ کی رینکنگ ملاحظہ کر لیجیے۔ ہم ہر جگہ خائب اور خاسر ہیں۔
اس ذلت کی وجہ جاننے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں! وجہ بتا دی گئی تھی۔''تم سے پہلی قومیں اس لئے تباہ ہوئیں کہ جب کمزور جرم کرتا اسے سزا دیتے اور طاقتور کوئی خطا و جرم کرتا تو اسے معاف کر دیتے ‘‘۔ اس کی ہمارے ہاں لاکھوں مثالیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ تازہ ترین مثال دیکھیے۔ وفاقی حکومت نے ایک صاحب محمد رازق سنجرانی کو سینڈک میٹلز لمیٹڈ (Saindak Metals Limited) کے سربراہ کے منصب سے بر طرف کر دیا ہے۔ وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ اُن صاحب کی تقرری میں متعلقہ قوانین کی خلاف ورزی کی گئی تھی۔ بظاہر یہ حکم بہت سادہ اور بے ضرر دکھائی دیتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے یہ تقرری کل پرسوں کی گئی ہے اور جیسے ہی حکومت کو معلوم ہوا اس نے تقرری کو خلافِ قانون قرار دے دیا۔مگر ایسا نہیں ہے‘ یہ تقرری پندرہ سال پہلے 2008ء میں کی گئی تھی۔ سفارش بلوچستان کے سابق چیف منسٹر رئیسانی صاحب کی تھی۔ وزیر اعظم کے منصب پر اُس وقت یوسف رضا گیلانی صاحب فائز تھے۔ یہ کمپنی سونے اور پیتل کی اُن کانوں کی کرتا دھرتا ہے جو بلوچستان میں سینڈک قصبے کے قریب 1970ء میں دریافت ہوئی تھیں۔ اس کمپنی کے سربراہ کی پوسٹ ایک طاقتور منصب ہے۔ اس تقرری کے دس سال کے بعد نیب نے تفتیش کی اور بتایا کہ یہ تقرری اس کمپنی کے اپنے ہی قوانین کی صریح خلاف ورزی تھی۔ نیب نے سابق چیف منسٹر بلوچستان اور دیگر ملزموں کو طلب کیا مگر کوئی بھی نہ حاضر ہوا۔ نیب نے رپورٹ میں واضح کیا کہ مسٹر رازق سنجرانی کا ‘ جنہیں کمپنی کا سربراہ مقرر کیا گیا‘ دھاتوں اور کانوں کے شعبے کا کوئی تجربہ نہ تھا اور عمر بھی صرف چوبیس برس تھی۔ مگر نیب کی یہ رپورٹ صدا بہ صحرا ثابت ہوئی۔ کوئی ایکشن نہ لیا گیا۔ پانچ سال اور گزر گئے۔ اب نگران وزیر اعظم نے اس غلط بخشی کو ختم کرتے ہوئے ایکشن لیا ہے۔ ان پندرہ سالوں میں کیا ہوتا رہا؟ کمپنی کس طرح چلائی جاتی رہی؟ کون کون سے اقربا تمتع اٹھاتے رہے ؟ کس کس خاندان کی مالی حالت میں انقلاب آئے؟ یہ سب کچھ ایک تفصیلی تفتیش کا متقاضی ہے۔
آپ کا کیا خیال ہے ؟ اس برطرفی کے بعد کیا تقرری کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی ہو گی ؟ غالباً نہیں! کیونکہ جو افراد بھی ملوث ہیں‘ طاقتور ہیں! اب ایک بار پھر اس فرمانِ نبوی کو غور سے دیکھیے '' تم میں سے پہلی قومیں اس لئے تباہ ہوئیں کہ جب کمزور جرم کرتا اسے سزا دیتے اور طاقتور کوئی خطا و جرم کرتا تو اسے معاف کر دیتے۔‘‘ جو قومیں شفافیت میں ممتاز حیثیت کی مالک ہیں‘ اُن میں سے شاید ہی کوئی غریب یا غیر ترقیاتی یافتہ ہو! اس لیے کہ جس کسی نے اس فرمان پر عمل کیا‘ جو بھی تھا‘ جیسا بھی تھا‘ اس کا بیڑہ پار ہو گیا۔دوا مسلمان کھائے یا کافر‘ ضرور اثر کرتی ہے۔ پیغمبرِ خداﷺ نے ایک نسخہ ‘ ایک فارمولا بتایا۔ اس نسخے پر سویڈن اور نیوزی لینڈ جیسے غیر مسلم ملکوں نے عمل کیا۔کامیاب ٹھہرے ! مسلمان ملک عمل پیرا نہ ہوئے! سو تباہی کے دہانے پر ہیں !!!
آپ ظلم اور بد دیانتی کی انتہا دیکھیے کہ ایک طرف لاکھوں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بے روزگار جوتیاں چٹخا رہے ہیں اور دوسری طرف مراعات یافتہ خاندانوں کے افراد اُن مناصب پر فائز کیے جاتے ہیں جن کے وہ ہر گز اہل نہیں! اس خیانت کا نقصان ملک کو ہو رہا ہے۔ اس صورتحال میں ملک ترقی کیسے کر سکتا ہے؟ ترقی تو دور کی بات ہے‘ ملک کی بقا کا سوال ہے۔ ایک شخص جو پہلے ہی مریض ہے‘ اسے دوا غلط دی جائے تو وہ کیسے بچ سکے گا ؟ اس سانحے کو ایک اور تناظر میں بھی دیکھیے۔ یہ ملک بے پناہ معدنی وسائل کا مالک ہے۔ یہاں تیل‘ سونا‘ تانبا‘ لوہا غرض ہر قیمتی دھات موجود ہے۔ اول تو ان کی تلاش ہی نہیں کی جاتی۔ کر لی جائے اور کچھ دریافت بھی ہو جائے تو یہ دریافت بد عنوانی‘ اقربا پروری‘ دوست نوازی اور سفارش کی نذر ہو جاتی ہے! ملک کا درد رکھنے والے کم ہیں او ر جو تھوڑے بہت ہیں انہیں گمنامی کی گپھاؤں میں دھکیل دیا جاتا ہے !
ایک ہزار قراردادِ مقاصد لے آئیے۔ ہر ضلع ‘ ہر تحصیل‘ ہر یونین کونسل میں اسلامی نظریاتی کونسل کی برانچ قائم کر دیجیے‘ ہر ادارے‘ ہر محکمے‘ ہرشعبے کے ساتھ شرعی کا یا اسلامی کا لفظ لگا دیجیے ‘ یہ منافقت کسی کام نہ آئے گی‘ شفافیت میں وہی ممالک فہرست کی ٹاپ پر ہوں گے جنہیں ہم نفرت اور حقارت سے کفار کہتے ہیں۔اس لیے کہ کوئی بڑا آدمی وہاں سزا سے بچ نہیں سکتا۔ اس لیے کہ غیر قانونی تقرری کو ہٹانے میں وہاں پندرہ برس نہیں لگتے!ان ملکوں میں قانون قانون ہے۔ ہمارے ہاں قانون وہ قالین ہے جس پر بڑے لوگ جوتوں سمیت چلتے ہیں اور وہ پھندا ہے جس میں عام آدمی کی گردن پھنس جائے تو بچنا مشکل ہے!سنگاپور میں امریکی لڑکے نے جرم کیا تو امریکی صدر کی مداخلت کے باوجود اُسے بَید لگائے گئے! اور جرم کیا تھا ؟ گاڑیوں کی توڑ پھوڑ اور سڑکوں پر لگے ٹریفک سائن کی چوری! ہمارے ملک میں ریمنڈ ڈیوس نے دو پاکستانیوں کو قتل کر دیا۔ اس کے قبضے سے حساس پاکستانی تنصیبات کے فوٹو بھی بر آمد ہوئے۔جب اس پر مقدمہ چل رہاتھا تو ایک بہت بڑا‘ انتہائی طاقتور‘ پاکستانی سرکاری ملازم عدالت سے براہِ راست امریکی سفیر کو لمحے لمحے کی رپورٹ دے رہا تھا۔ یہ بات خود نیویارک ٹائمز نے اپنی9 اپریل2013 ء کی اشاعت میں لکھی۔ جب مقتولین کے ورثا عدالت میں ریمنڈ ڈیوس کو '' معاف‘‘ کر رہے تھے تو اُن کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اور کچھ‘ نیویارک ٹائمز کے بقول‘ سسکیاں لے رہے تھے!
آج قوموں کی برادری میں سنگا پور کا مقام دیکھیے اور پاکستان کی حیثیت کا بھی اندازہ لگا لیجیے!!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں