یہ سطور سولہ دسمبر کے دن لکھی جا رہی ہیں! آج شام ڈھلے ایک اور سولہ دسمبر گزر جائے گا۔ایک اور دن ! ایک اور شام ! کتنے ہی دن گزر گئے! کتنی ہی شامیں ڈھل کر راتوں کا روپ دھار چکیں! مگر افسوس! وقت ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکا! ہم وہیں ہیں جہاں کھڑے تھے!
ہم آج بھی ‘ اہلِ قلم کی ایک اقلیت کو چھو ڑ کر‘ یہی راگ الاپے جا رہے ہیں کہ بنگالیوں نے غداری کی!یہ کہ شیخ مجیب الرحمان غدار تھا! یہ کہ زبان کے حوالے سے ان کا مطالبہ غلط تھا۔ یہ کہ غیر بنگالیوں پر ظلم ہوئے!! اس کور چشمی کا‘ اس بد دماغی کا‘ اس تعصب کا ‘ اس ہٹ دھرمی کا اور اس تکبر کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم آج بھی قومی سطح پر ‘ بھِک منگے ہیں ! بنگلہ دیش کوسوں آگے پہنچ چکا ہے! ہمارے موجودہ ریزرو بارہ بلین ڈالر ہیں۔ بنگلہ دیش کے اس سے دو گنا زیادہ! باقی اشاریے بھی اسی سے قیاس کر لیجیے! ہمیں آج بھی دنیا میں کوئی دہشت گرد قرار دیتا ہے ‘ کوئی سکیورٹی سٹیٹ ! کوئی ہمیں کیلے کی ریاست کہتا ہے! اس لیے کہ ہم مستقل انکار کی حالت (State of denial ) میں ہیں۔ ہم سچ کو تسلیم کرنے سے انکار کر رہے ہیں! ہم یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ مشرقی پاکستان پر اردو مسلط کرنا اور اردو کو واحد قومی زبان قرار دینا بہت بڑی غلطی تھی۔ ایک حقیقت بہت دلچسپ ہے۔پروفیسر غلام اعظم‘ جو بعد میں جماعت اسلامی کی ٹاپ لیڈر شپ تک پہنچے ‘ 1947ء سے 1949ء تک ڈھاکہ یونیورسٹی سنٹرل سٹوڈنٹس یونین کے جنرل سیکرٹری رہے۔ اسی حیثیت میں انہوں نے ستائیس نومبر 1948ء کے دن ‘ جمنیزیم گراؤنڈ ڈھاکہ یونیورسٹی میں ‘وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خان کو ایک میمورنڈم پیش کیا جس میں مطالبہ کیا کہ بنگالی کو ملک کی قومی زبان قرار دیا جائے! بچے کھچے پاکستان کے دانشور ( الا ماشاء اللہ ) آج بھی یہ ماننے کیلئے تیار نہیں کہ بنگالی اردو سے قدیم تر اور امیر تر زبان تھی اور ہے! ( یہاں یہ بتانا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ سندھی زبان میں روزانہ شائع ہونے والے اخبارات کی تعداد دس سے کم نہیں! ہم اہلِ پنجاب کی بھاری اکثریت کے لیے یہ بات بھی اچنبھے سے شاید کم نہ ہو !!) کئی ملکوں میں قومی زبانیں ایک سے زیادہ ہیں۔ جیسے کینیڈا اور سوئٹزر لینڈ! بعد میں بنگالی کی حیثیت قومی زبان کے طور پر مان لی گئی مگر اعتبار کے شیشے میں بال آچکا تھا۔ ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ چکا تھا۔
یہ کون سا انصاف ہے کہ سالہا سال تک فوجی آمریت رہے۔ مغربی پاکستان کا ایوب خان حکمرانی کرے۔ پھر وہ زمام اختیار مغربی پاکستان کے یحییٰ خان کو سونپ دے! پھر انتخابات ہوں۔ مشرقی پاکستان کو حکمرانی کا حق ملے۔ آئینی حق! قانونی حق!اخلاقی حق! مگر اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ''ملتوی ‘‘ کر دیا جائے ! پھر اس کا ردِ عمل ہو تو اسے پوری قوت سے کچل دیا جائے! اور پھر آج ‘ پچاس پچپن سال بعد اپنے آپ کو پوتّر اور مظلوم پارٹی کو غدار کہا جائے!! واہ جناب واہ ! آپ کس دنیا میں رہ رہے ہیں ! جو کچھ آپ کہہ رہے ہیں ‘ پوری دنیا میں اسے کوئی بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں !!
پروفیسر جی سی دیو کا کیا قصور تھا؟ وہ تو ایک فلسفی تھا اور استاد! قتل کے وقت بھی وہ ‘‘ پاکستان فلوسوفیکل سوسائٹی ‘‘ کا جنرل سیکرٹری تھا جو وہ گیارہ سال سے چلا آرہا تھا! اس کی لے پالک بیٹی کا نام رقیہ سلطانہ تھا۔ رقیہ کے میاں کا نام محمد علی تھا۔ محمد علی بھی پروفیسر دیو کے ساتھ ہی قتل کیا گیا! قتل و غارت کی یہ داستان طویل ہے اور درد ناک!! پاکستان میں اس موضوع پر جس قدر لکھا گیا اور اب بھی لکھا جا رہا ہے تقریباً سارے کا سارا ‘ یا تو مغربی پاکستانیوں کا موقف ہے یا مشرقی پاکستان کے غیر بنگالیوں کا!! اتنی اخلاقی جرأت کہاں کہ بنگالیوں کا مؤقف دیا جائے یا سنا جائے !! یک طرفہ کہانی ہے جو ہر سال‘ بار بار دہرائی جاتی ہے!! بقول غالب ؎
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق
آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا
خدا جھوٹ نہ بلوائے ‘ ایسے ایسے جغادری اپنے زعم میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر تبصرے کر تے رہے ہیں اور کر رہے ہیں جو مشرقی پاکستان کی تاریخ تو دور کی بات ہے‘ جغرافیہ سے بھی نا بلد ہیں!! زر مبادلہ کون کماتا تھا؟ خرچ کہاں ہوتا تھا ؟ مرکزی ملازمتوں میں ان کا قانونی حصہ کتنا تھا اور اصل میں کتنا دیا جا رہا تھا؟ مسلح افواج سے انہیں کیوں دور رکھا گیا ؟ کیا ان کے قد اور سینے ویت نامیوں سے بھی چھوٹے تھے جنہوں نے طویل قامت امریکیوں کو شکست دی ؟ تاریخ کا مطالعہ کرنے والوں کو معلوم ہے کہ جن تین علاقوں نے انگریزوں کا مقابلہ کیا ان تین علاقوں کو انگریز سرکار نے باقاعدہ ایک پالیسی کے تحت فوجی بھرتی کے لیے اَن فِٹ قرار دیا! یہ تین علاقے بنگال‘ یوپی اور سندھ تھے! پاکستان نے انگریز کی یہ پالیسی مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے نو سال بعد تبدیل کی جب 1980 میں سندھ رجمنٹ کا قیام عمل میں آیا۔ پالیسی میں یہ تبدیلی بہت پہلے آجانی چاہیے تھی!!
غیر بنگالیوں پر '' ظلم ‘‘ کے بہت تذکرے کیے جاتے ہیں !اصل حقیقت کی طرف کوئی نہیں دیکھتا! پاکستان بنا تو مشرقی پاکستان نے بھارت سے آنے والے مہاجرین کے لیے اپنے بازو وا کر دیے! ان میں غالب تعداد بہار سے آنے والوں کی تھی ! مگر ان مہاجرین نے کیا کیا؟ سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ انہوں نے مقامی آبادی میں مِکس ہونے سے مکمل اعراض برتا۔ بجائے اس کے کہ وہ اپنے میزبانوں سے گھُل مِل کر رہتے‘ انہوں نے الگ بستیاں بسائیں جن میں صرف وہی رہتے تھے۔ جیسے ڈھاکہ میں میر پور اور محمد پور کی بستیاں تھیں! جب بھی کسی ملک یا کسی شہر میں لسانی یا نسلی بنیاد پر الگ آبادیاں بسائی جاتی ہیں ‘ اختلاف پیدا ہوتا ہے اور جھگڑے ہوتے ہیں۔ ان حضرات کا برتاؤ مقامی لوگوں کے ساتھ متکبرانہ تھا۔ یہ انہیں کم تر گردانتے تھے! ریلوے اور پوسٹل کے محکموں پر ان کا مکمل قبضہ تھا۔ مقامی افراد کو لینے سے گریز کیا جاتا تھا! میں نے اپنے تین سالہ قیام کے دوران ان حضرات کی مقامی آبادی سے نفرت کو کئی بار نوٹ کیا۔ خود ہمارے ساتھ کے مغربی پاکستانی طلبہ کی اکثریت بنگالیوں کی تضحیک کرتی۔ کوئی انہیں ڈڈو ( مینڈک ) کہتا ‘ کوئی ''بھات ‘‘ کے حوالے سے مذاق اڑاتا!
عوامی لیگ کے چھ نکات پر اب بھی غور کر کے دیکھ لیجیے۔ یہ ساتھ رہنے کی ‘ یعنی پاکستان کو متحد رکھنے کے لیے بہترین تجویز تھی۔ علیحدگی بھی ہوتی تو امن و امان سے ہو تی! مجیب الرحمان کو وزیر اعظم بننے دیا جاتا تو اقتدار میں آنے کے بعد مشرقی پاکستان میں اس کی مقبولیت کم ہونا شروع ہو جاتی! مگر جمہوری عمل کو روک دیا گیا! جب بھی‘ جہاں بھی ‘ جمہوری عمل کو روکا جاتا ہے ‘ فساد برپا ہوتا ہے جو قتل و غارت پر منتَج ہوتاہے! آپ اتنی بڑی آبادی کو بندوق کے زور پر کیسے ساتھ رکھ سکتے ہیں ! وقتی طور پر یہ کوشش کامیاب بھی ہو جائے تو اس کامیابی کی عمر بہت کم ہوتی ہے! اسمبلی کا اندھا التوا پہلی سنگین غلطی تھی اور پچیس مارچ کا ایکشن دوسری بڑی غلطی! صاف معلوم ہوتا ہے کہ فیصلہ ساز قوت ‘ جو بھی تھی‘ اس قدر کمزور نظر رکھتی تھی کہ چند گز آگے دیکھنا اس کیلئے نا ممکن تھا۔ ورنہ نوشتۂ دیوار تو دور سے بھی نظر آرہا تھا! جو تدبیر کی گئی اس کا انجام یہی ہونا تھا جو ہوا اور ڈنکے کی چوٹ ہوا!! سرگودھا کے سید قاسم شاہ نے ایک نظم کمال کی کہی ہے۔ اس کی چند سطور بے ساختہ یاد آرہی ہیں
اِتھے لُولے کھیڈن کوڈیاں ‘اِتھے گنجے کڈھن چِیر
اِتھے اَنھّے ویکھن سینمے ‘اِتھے گونگے گاندے ہِیر
اِتھے چور اچکّا چوہدری‘ اتھے لُنڈی رَن پردھان
( جاری )