غزالی صاحب

پرسوں منگل کا دن تھا جب علی الصبح چھوٹے بھائی انتصار الحق نے میسج بھیجا کہ جسٹس پروفیسر ڈاکٹر محمد الغزالی دنیا نامی سرائے سے رخصت ہو کر اپنے پروردگار کے ہاں حاضر ہو گئے!
غزالی صاحب اور ان کے بڑے بھائی ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم سے تعلق 54‘ 55برس سے تھا۔ یہ تعلق اس وقت قائم ہوا جب 1970ء کے اوائل میں ڈھاکہ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہو کر اسلام آباد واپس آیا۔ فراغت کے زمانے تھے۔ بیروزگار ہو کر بھی رنجِ روزگار لاحق نہ تھا۔ بلکہ یہ بیروزگاری خود اختیاری تھی۔ بینک میں ملازمت ملی۔ ایک ہفتے بعد چھوڑ دی۔ لیکچرر کے طور پر گورنمنٹ کالج تلہ گنگ میں تعیناتی ہوئی۔ انکار کر دیا۔ پی سی ایس (پراونشل سول سروس) کا امتحان دیا۔ تحریری امتحان میں اچھی پوزیشن آئی۔ انٹرویو کال ملی تو جواب ہی نہ دیا۔ اس وقت کا اسلام آباد بہت مختصر تھا۔ بس زیرو پوائنٹ کے مشرقی حصے میں سمایا ہوا!! بلیو ایریا کی جگہ چٹیل میدان تھا۔ اس کی تعمیر 1985ء میں شروع ہوئی۔ ادارۂ تحقیقاتِ اسلامی تب میلوڈی سینما کے سامنے والے بلاک کی دوسری منزل پر واقع تھا اور ہمارے گھر کے نزدیک تھا۔ ڈھاکہ جانے سے پہلے بھی میں ادارے کی لائبریری میں جایا کرتا تھا۔ اب جب روزگار نہ تھا اور بے فکری کا دور تھا تو ہر روز وہاں جانا ہوتا۔ وہیں محمود احمد غازی سے ملاقات اور پھر دوستی ہوئی۔ آج کا نہیں پتہ مگر اُس وقت ادارۂ تحقیقاتِ اسلامی میں جو نوجوان ریسرچ پر مامور تھے وہ صحیح معنوں میں سکالر اور محقق تھے۔ غازی صاحب کے علاوہ دو اور سکالرز سے بھی دوستی ہوئی۔ غلام حیدر عاصی صاحب اور حافظ محمد طفیل صاحب! یہ سب لوگ عربی دان تھے اور بلند پایہ عالم! غلام حیدر عاصی جلد ہی امریکہ سدھار گئے۔ حافظ طفیل صاحب سے اب بھی رابطہ ہے۔ وہ ادارۂ تحقیقات اور اسلامی یونیورسٹی کے اعلیٰ مناصب سے فارغ ہو کر اسلام آباد میں مقیم ہیں!! سی ایس ایس کی تیاری کیلئے ادارۂ تحقیقاتِ اسلامی کی لائبریری بہت نزدیک پڑتی تھی۔ پیدل چند منٹ کا فاصلہ تھا۔ آہستہ آہستہ لائبریری کے بجائے زیادہ وقت ان حضرات کے ساتھ گزرنے لگا۔ محمود احمد غازی کے چھوٹے بھائی غزالی‘ تب دینی تعلیم کے آخری مراحل میں تھے۔ ان سے ابتدائی تعلق اس حوالے سے قائم ہوا کہ غازی صاحب کے چھوٹے بھائی ہیں مگر وقت کے ساتھ ساتھ ان سے غازی صاحب سے بھی زیادہ دوستی اور بے تکلفی ہو گئی۔ ان کے والد صاحب کو اور میرے والد صاحب کو جو سرکاری گھر ملے ہوئے تھے‘ حسنِ اتفاق سے وہ بھی قریب قریب تھے۔ درمیان میں بس دو گلیاں پڑتی تھیں! اکثر شام کو ہم اکٹھے ہوتے! ان کے والد صاحب متشرّع اور بہت نیک شخصیت تھے۔ میرے والد گرامی کو ہمیشہ کھیرا کھانے کی تر غیب دیتے کیونکہ انہیں گردے کی پتھری کا عارضہ تھا۔ وہ بتایا کرتے کہ کھیرا اس مرض کیلئے اکسیر ہے۔
ان دونوں بھائیوں‘ محمود احمد غازی اور محمد الغزالی نے اسی درسِ نظامی کی تکمیل کی تھی جو مدارس میں لاکھوں طلبہ پڑھتے ہیں۔ مگر انہوں نے فراغت کے بعد جو کام کیا وہ کوئی کوئی ہی کرتا ہے۔ دونوں بھائیوں نے عربی گفتگو میں کمال حاصل کیا۔ زبان قربت کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ عربی بولنے اور لکھنے پر قدرت رکھنے کی وجہ سے بہت سے عرب سفارتکاروں کے ساتھ ان کے ذاتی تعلقات تھے۔ ملازمت کے دوران جب میں نے عربی میں ایم اے کا امتحان دینا چاہا تو نثر کے کچھ حصے غازی صاحب سے پڑھے۔ جب جنرل مشرف کی کابینہ میں وہ مذہبی امور کے وفاقی وزیر تھے تو مجھے یہ اعزاز بخشا کہ زکوٰۃ کے نظام پر انہیں بریفنگ دوں۔ میں اس وقت چیف کنٹرولر ملٹری اکاؤنٹس کے طور پر جی ایچ کیو میں کام کر رہا تھا۔ میں نے اُن کے حکم پر زکوٰۃ کے موجودہ نظام کا تجزیہ پیش کیا اور متبادل نظام کا تفصیلی خاکہ بنا کر دیا جس کے تمام اخراجات زکوٰۃ کی رقم ہی سے پورے ہونے تھے اور ملکی خزانے پر کوئی اضافی بار نہیں پڑنا تھا۔ یہ Presentationمیں نے انہیں ان کے دفتر میں دی۔ میرا خیال تھا کہ وہ وزارت کے حکام کو بھی اس موقع پر طلب کریں گے مگر انہوں نے بتایا کہ اس مرحلے پر وہ کسی اور کو اس میں شریک نہیں کرنا چاہتے۔ میری بریفنگ سے وہ مطمئن تھے تاہم مجھے یقین تھا کہ حکومتِ پاکستان میں کسی نظام کی اصلاح یا تبدیلی ناممکن نہیں تو ازحد مشکل ضرور ہے۔ یہی ہوا! یوں بھی غازی صاحب کی وزارتِ مذہبی امور کی مدت قلیل تھی۔ دو سال سے بھی کچھ دن کم!
غزالی اپنے بڑے بھائی کے مقابلے میں ہنس مکھ تھے۔ ان کی حسِ مزاح بہت تیز اور خوشگوار تھی۔ میرے نام کو انگریزی میں ترجمہ کرکے بلاتے تھے یعنی Expression of Truth‘ ان سے گفتگو کر کے ہمیشہ لطف آتا۔ ہم اکثر اسلام آباد کی شاہراہوں پر لمبی واک کرتے۔ شام ان کی معیت میں ہمیشہ دلآویز رہتی! ذہانت پروردگار نے کمال کی عطا کی تھی۔ مقاماتِ حریری عربی ادب کی مشکل کتابوں میں سے ہے۔ مسجع اور مقفیٰ نثر! اس کے صفحوں کے صفحے غزالی کو حفظ تھے۔ عربی اشعار بے شمار یاد تھے۔ کچھ مضامین انگریزی میں بھی لکھے جو معروف انگریزی روزناموں میں چھپے۔ درسِ نظامی کی تکمیل کے بعد دونوں بھائیوں نے انگریزی اپنے طور پر سیکھی اور تحریر و تقریر دونوں میں کمال حاصل کیا! غزالی کچھ عرصہ اسلام آباد ہوٹل ( اب ہالیڈے اِن ) کی مسجد میں نمازِ تراویح بھی پڑھاتے رہے۔ ان کی اقتدا میں کئی بار تراویح ادا کیں! خوش الحان تھے۔ ان کی قرأت سن کر مولانا احتشام الحق تھانوی کی قرأت یاد آجاتی تھی۔
مشہور کتاب ''امام شامل‘‘ اور درجنوں دوسری کتابوں کے مصنف کرنل ڈاکٹر محمد حامد میرے اور غزالی کے مشترکہ دوست تھے۔ کرنل حامد دو سال قبل انتقال کر گئے۔ وہ 1995ء والی مشہور فوجی بغاوت کی لپیٹ میں آگئے تھے۔ میجر جنرل ظہیر الاسلام عباسی اور بریگیڈیر مستنصر باللہ اس بغاوت کے کرتا دھرتا تھے۔ پنشن اور دیگر مراعات سے محرومی کے بعد حامد صاحب نے زاویہ کے نام سے تعلیمی ادارہ کھولا جو بہت کامیاب رہا۔ جن دنوں کرنل حامد ملٹری اکیڈیمی کاکول میں پڑھا رہے تھے‘ انہوں نے غزالی صاحب کو اور مجھے دعوت دی کہ آکر مل جاؤ؛ چنانچہ ہم دونوں ایبٹ آباد گئے اور ایک دن ان کے ساتھ گزارا۔
غزالی صاحب کے جانے سے ہم ایک خدا ترس جج ‘ ایک لائق استاد‘ ایک قابل عربی دان‘ ایک دیانت دار عالمِ دین اور ایک صاف گو انسان سے محروم ہو گئے ہیں۔ قحط الرجال کے اس مشکل زمانے میں ان جیسے گوشہ نشین اثاثہ تھے۔ وہ چاہتے تو مشرقِ وسطیٰ کے کسی بھی بادشاہ کے سیکرٹری یا معاون ہو کر کروڑوں میں کھیل سکتے تھے۔ فتویٰ فروشی بھی کر سکتے تھے مگر اللہ نے علم و عمل کے ساتھ قناعت کی دولت سے بھی مالا مال کیا تھا۔ جس صبح ان کی وفات ہوئی ان کے شاگرد‘ ممتاز کالم نگار اور مصنف آصف محمود نے بتایا کہ غزالی اسلامی یونیورسٹی کے تنزل‘ زبوں حالی اور لاقانونیت سے سخت دل گرفتہ تھے۔ وہ ان افراد میں سے تھے جنہوں نے اس یونیورسٹی کی علمی تعمیر و ترقی میں حصہ لیا تھا۔ اب وہ اپنی آنکھوں سے اس کا زوال دیکھ رہے تھے۔ عبرتناک زوال! ناگفتہ بہ صورت حال!! کیا عجب یہی صدمہ انہیں لے بیٹھا ہو۔ سلیم احمد کی وفات پر ایک غزل کہی تھی۔ اس کا آخری شعر آج پھر یاد آرہا ہے:
ستارہ ٹوٹنے سے پیشتر آواز آئی
فرشتو! دیکھنا کیسا ستارہ ٹوٹتا ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں