عبد اللہ بن زبیر نے غلطی کی اور ایسی کہ حکومت بھی گئی اور جان بھی !یزید کی وفات کے بعد امویوں کے لیے حالات ناسازگار تھے۔اُس وقت نرمی کی ضرورت تھی مگر عبد اللہ بن زبیر شامیوں سے انتقام لینے پر تُلے ہوئے تھے۔ مروان بن حکم مدینہ میں تھا۔اسے انہوں نے شام کی طرف دھکیل دیا۔ '' کُبّے نوں لت لگ گئی‘‘ یعنی کبڑے کو لات لگی تو کُبڑا پن دور ہو گیا۔ مروان نے شام پہنچ کر بکھرے ہوؤں کو مجتمع کیا اور خود حکمران بن گیا۔ ابنِ زبیر غلطی نہ کرتے تو آج تاریخ کے صفحات مختلف ہوتے۔ حجاج نے ان کی میت کو کئی دن سولی پر لٹکائے رکھا۔ والدہ وہاں سے گزریں تو جو جملہ کہا اسے شبلی نعمانی نے نظم کیا ہے۔
اب بھی منبر سے نہ اُترا یہ خطیب
اب بھی گھوڑے سے نہ اُترا یہ سوار
شاہ جہاں نے غلطی کی۔ اس غلطی کا نتیجہ یہ نکلا کہ خود سالہا سال تک قید کا ٹی اور دارا کو اور اُس کے بیٹے کو اورنگ زیب نے مروا دیا۔ دارا کا شعبہ علم و دانش تھا اور اورنگ زیب مردِ میدان تھا۔ کیسا باپ تھا کہ بیٹوں کی طبیعتوں اور مزاج سے نابلد تھا اور کیسا حکمران تھا کہ جانتا نہیں تھا کہ کس کے پاس کون سا ہنر ہے! نتیجہ کیا نکلا ؟ ہزاروں لوگ مارے گئے اور شاہ جہاں کے تین بیٹے زمین کے پیٹ میں چلے گئے!خود اورنگ زیب نے دکن کی شیعہ ریاستوں کو ختم کر کے بہت بڑی غلطی کی! اتنی بڑی کہ پوری مغل ایمپائر کو یہ غلطی لے بیٹھی!گولکنڈہ اور بیجاپور کی ان ریاستوں نے مرہٹہ جِن کو بوتل میں بند کر رکھا تھا۔ ریاستیں ختم ہوئیں تو یہ جِن بوتل سے باہر نکل آیا۔پھر مرہٹوں نے اورنگزیب کو اتنا دوڑایا اتنا دوڑایا کہ ہانپتے ہانپتے ہی چل بسا۔ دفن بھی دکن ہی میں ہوا۔میں کہا کرتا ہوں کہ اورنگ زیب اپنے زمانے کا جنرل ضیا الحق تھا اور جنرل ضیا الحق اپنے زمانے کا اورنگزیب ! بظاہر لگتا ہے کہ دونوں کی اولین ترجیح اسلام تھا مگر اصل میں ایسا نہ تھا۔ اورنگ زیب کی اولین ترجیح سلطنت کی وسعت تھی اور جنرل ضیا الحق کی اولین ترجیح اقتدار کا دوام ! باپ کو تا دمِ مرگ قید میں رکھ کر اورنگ زیب نے قرآنی احکام کی صریح خلاف ورزی کی اور ضیا الحق نے نوے دن کا کئی بار کیا ہوا وعدہ ہوا میں اُڑا دیا۔ بھٹو صاحب بھی اپنی غلطی کی نذر ہوئے۔ میرٹ کو قتل کر کے ضیاالحق کو نیچے سے اوپر لائے۔ خود پھانسی چڑھے اور قوم کو ان کی غلطی کا خمیازہ گیارہ سال بھگتنا پڑا! عمران خان نے غلطیوں کے انبار لگا دیے۔ اقتدار میں آنے سے پہلے ان کے وعدے اور دعوے سُن کر بہت سوں کو یقین تھا کہ پاکستان کے لیے مہاتیر ثابت ہوں گے یا لی کوان یئو ! مگر وہ دم درود اور تعویذ گنڈوں کی کُڑکّی میں ایسے پھنسے کہ مہاتیر یا لی تو کیا بنتے‘ محمد تغلق بن کر رہ گئے!
آج کی صورتحال یہ ہے کہ عمران خان کی مقبولیت پہلے سے کئی گنا زیادہ ہے! ان کا ووٹ بینک بڑھ چکا ہے! آزادانہ انتخابات ہوں تو تحریک انصاف کا پلڑا بھاری ہو گا۔ حریف ڈر کے مارے کانپ رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جو عمران خان مارچ 2022 ء میں عدم مقبولیت کی اتھاہ گہرائیوں میں گرا ہوا تھا‘ آج مقبولیت کے آسمان پر کیوں ہے ؟ اس حیرت انگیز تبدیلی کا کریڈٹ عمران خان کو نہیں‘ ان کے مخالفوں کو جاتا ہے جنہوں نے غلطیاں کیں اور یوں کیں کہ سیاسی کے بجائے یہ غلطیاں احمقانہ ہو گئیں! تحریک عدم اعتماد ایک مضحکہ خیز فیصلہ تھا۔پھر حکومت سنبھال لینا ایک اور حماقت تھی۔ پاکستان کی روایت یہ رہی ہے کہ جو حکومت میں آتا ہے‘ اس کی مقبولیت کی اُلٹی گنتی شروع ہو جاتی ہے۔ پی ڈی ایم نے حکومت کے مزے تو لیے مگر یہ مزے مہنگے بہت پڑے! وہ جو کہتے ہیں کہ۔ '' ہُن کیوں روندی‘ چِٹے مکھانے تو کھادے‘‘۔ تو جوں جوں پی ڈی ایم کا وزن گھٹتا گیا‘ عمران خان کا بڑھتا رہا۔ ڈار صاحب کو وزارتِ خزانہ سونپنا ایک اور بڑی غلطی تھی ! جب مسلم لیگ (ن) کے اکثر رہنما جیلوں میں آجا رہے تھے‘ ڈار صاحب ولایت میں اپنے سمدھی کے ساتھ دنیا کے بلند ترین معیارِ زندگی سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ واپسی کے بعد جس طرح ان کے مقدمے ایک ایک کر کے ختم ہوئے‘ اس سے عمران خان کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوا کیونکہ ڈار صاحب کی واپسی پر عمران خان نے کہا تھا کہ یہ واپسی ڈیل کا نتیجہ ہے۔جس رفتار سے مقدمے ختم ہوئے اس سے عمران خان کی ڈیل والی بات درست ثابت ہوئی! ڈار صاحب کے بارے میں محمد زبیر صاحب نے جو انکشاف کیا ہے وہ بھی حد درجہ افسوسناک ہے!
2013ء اور 2018ء کے درمیانی عرصہ میں وفاق میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی۔ زبیر صاحب پرائیو یٹائزیشن کے وزیر تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس دوران ڈار صاحب نے نقصان میں جانے والے سرکاری اداروں کو نجی شعبے میں جانے سے روکے رکھا۔ کابینہ کے اجلاس میں سٹیل مل کو نجی شعبے میں منتقل کرنے کی بات چیت آخری مرحلے میں پہنچ چکی تھی کہ ڈار صاحب نے یہ تجویز پیش کر دی کہ سٹیل مل کو پرائیویٹائز نہ کیا جائے بلکہ سندھ حکومت کے حوالے کر دیا جائے کیونکہ اُس وقت کے لیڈر آف اپوزیشن خورشید شاہ ایسا چاہتے تھے۔ زبیر صاحب کے بقول انہوں نے اس تجویز کی مخالفت کی۔ ان کے بقول حکومتیں ایسے ادارے نہیں چلا سکتیں بلکہ وہ لوگ چلا سکتے ہیں جن کا یہ کام ہے۔ پہلے ہی حکومت اربوں کا نقصان اٹھا رہی تھی۔ بہر طور‘ کابینہ نے منظوری دے دی مگر سندھ حکومت نے اپنی شرائط رکھ دیں۔ دس ماہ اس خط و کتابت میں گزر گئے۔ آخر میں سندھ حکومت کو دینے کا فیصلہ ہی منسوخ کر دیا گیا! پی آئی اے کے حوالے سے بھی زبیر صاحب نے ڈار صاحب کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے! ان کے بقول پارلیمانی کمیٹی نے پی آئی اے کی نجکاری طے کر دی تھی اور اس میں تمام جماعتوں کی رضامندی شامل تھی مگر آخری مرحلے میں ڈار صاحب نے منع کر دیا کہ اپوزیشن کے خیال میں یہ موقع پی آئی اے کی نجکاری کے لیے مناسب نہیں ہے۔ ان سفید ہاتھیوں کی نجکاری کے حوالے سے یہ بات واضح ہے کہ حکومت میں آکر جو جماعتیں نجکاری کی حمایت کرتی ہیں‘ اپوزیشن میں جا کر وہی پارٹیاں مخالفت کرتی ہیں۔ یعنی‘ بدلتے رہتے ہیں انداز کوفی و شامی
عمران خان اور ان کی پارٹی کی مقبولیت میں اضافہ کرنے کے لیے ان کی مخالف سیاسی جماعتوں اور دیگر متعلقین (stakeholders)‘ سب نے اپنی اپنی توفیق کے مطابق خوب محنت کی ہے۔ عدالت کا جیل کے اندر لگنا اور پی ٹی آئی سے جُڑے ہوئے افراد کی ہر رہائی کے بعد پھر گرفتاری نے اس مقبولیت میں خوب خوب اضافہ کیا ہے! یہاں تک کہ چوہدری پرویز الٰہی بھی ہیرو کا درجہ حاصل کر چکے ہیں حالانکہ ان کی وجۂ شہرت اس سے پہلے ہمیشہ ڈرائنگ روم پالیٹکس رہی ہے یا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مثبت تعلقات اور دولت !
پیپلز پارٹی کا ویژن( Vision) بلاول کو وزیر اعظم بنانے سے آگے نہیں جا سکتا! مسلم لیگ (ن) کے افق پر مریم نواز چھائی ہوئی ہیں۔ ان خاندانی اجارہ داریوں سے لوگ اس قدر متنفر ہیں کہ انہیں ان جماعتوں کے بارے میں عمران خان کا مؤقف درست لگنے لگتا ہے۔
حکیم لقمان سے پوچھا گیا : ادب کس سے سیکھا؟ کہا: بے ادبوں سے! کہ جو کچھ وہ کرتے تھے‘ اس سے پرہیز کیا۔ جو کچھ یہ دونوں جماعتیں کرتی پھر رہی ہیں‘ اس سے پرہیز لازم ہے۔ یہی تو عمران خان کہتا ہے۔ ان جماعتوں کا طرزِ عمل ہی عمران خان کو مقبول سے مقبول تر بنا رہا ہے!!