یہ واقعات ایک دوست نے سنائے اور میں حیران ہوں کہ کتنا عجیب و غریب نظام ہے جو موجود ہے مگر نظر نہیں آتا۔
اس دوست نے بتایا کہ وہ ایک ایسے محکمے میں ملازمت کر رہا تھا جہاں طِبّی سہولتوں کا معقول بند و بست تھا۔ وہ ان سہولتوں کی بدولت اپنے والد کی طِبّی دیکھ بھال اچھی طرح کر لیتا تھا۔انہیں کئی تکالیف تھیں۔ آنکھوں کا معائنہ کرانا ہوتا تھا۔ پروسٹیٹ کی پیچیدگیاں۔ دل کے بھی مسائل تھے۔ خون وغیرہ کے ٹیسٹ بھی کرانے ہوتے تھے۔ کبھی کبھی لیبارٹری سے ٹیکنیشن کو گھر بھی بلایا جا سکتا تھا کہ خون کے نمونے لے جائے۔ غرض دیکھ بھال کا اطمینان بخش انتظام تھا۔ پھر یوں ہوا کہ اس کے والد اپنے دوسرے بیٹے کے پاس بیرونِ ملک چلے گئے۔ اُن کے جانے کے کچھ ماہ بعد اس کا تبادلہ ایک ایسے محکمے میں ہو گیا جہاں طبی سہولتیں نہ ہونے کے برابر تھیں۔ اس کے بیوی بچوں کو ہسپتال کی طویل قطاروں میں کھڑا ہونا پڑتا یا کسی پرائیویٹ کلینک کا رُخ کرنا پڑتا۔ اس نے کوشش شروع کر دی کہ اس کا تبادلہ کہیں اور ہو جائے۔مگر معلوم ہوا کہ یہاں سے نکلنا انتہائی مشکل کام ہے۔تگڑی‘ اونچی نسل کی سفارش درکار تھی جو اُس کے پاس نہیں تھی۔ بہت کوشش کی مگر کام نہ بنا۔ تھک ہار کر بیٹھ گیا۔
سال گزر گیا۔ ایک دن اس کے بھائی کا فون آیا کہ والد صاحب واپس آنے کا پروگرام بنا رہے ہیں۔ نہ جانے کیوں اُسے یقین ہو گیا کہ اب اس کا تبادلہ یہاں سے ہو جائے گا اور ایسی جگہ ہو گا جہاں میڈیکل سہولتیں موجود ہوں گی! وہ کہتا ہے کہ اس اطمینان کا کوئی ظاہری سبب نہ تھا۔ منطق تھی نہ حالات کی تبدیلی مگر یقین اسے پختہ تھا۔ ایک دو بار دماغ نے سمجھانے کی کوشش بھی کہ اس اطمینان کا کوئی جواز نہیں۔ خواب نہ دیکھو! تم نے بارہا کوشش کی۔ کام نہ بنا۔ اب تمہارا دل کس برتے پر کہتا ہے کہ تم یہاں سے نکلنے والے ہو! مگر دل نے دماغ کی منطق اور دماغ کی سائنس کو بالکل ہی در خورِ اعتنا نہ گردانا! اطمینان میں کمی نہ آئی! دوسری طرف اس کے والد کی واپسی کی تاریخ نزدیک سے نزدیک تر ہو رہی تھی۔ پھر ایک دن اچانک اسے ایک محکمے کے بارے میں پتا چلا کہ ایک صاحب ترقی پا کر کہیں چلے گئے ہیں اور ان کی جگہ خالی ہے۔ ان صاحب کی ترقی کی خبر حیرت انگیز تھی کیونکہ بظاہر ان کی ترقی کے امکانات نحیف تھے۔ اس سے میرے دوست کا یقین پختہ تر ہو گیا کہ اس کا کام ہونے والا ہے۔ اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب وہ مجاز حاکم کے سامنے پیش ہوا اور عرض گزاری۔ یہ وہی حاکم تھا جو پہلے بات سننا بھی گوارا نہیں کرتا تھا۔ اس بار اس کا انداز بدلا ہوا تھا۔ اب وہ پتھر نہیں‘ موم تھا۔ بات بھی سُنی اور ہامی بھی بھری کہ وہ اس کا نام منظوری کے لیے اوپر بھیجے گا۔ نام بھیجا گیا۔ مقابلہ سخت تھا۔ سفارش نہ ہونے کے برابر تھی۔ مخالف بھی زور لگا رہے تھے۔ اس کے والد کی واپسی سے چند روز پہلے اس کا تبادلہ کر دیا گیا! جب تک والد زندہ رہے‘ ان کی طِبّی ضروریات بہ طریقِ احسن پوری ہوتی رہیں!
یہ وا قعہ سُن کر میں حیران ہوا مگر میرے بھی دماغ نے دل پر اعتراض کر دیا۔ میں نے اپنے دوست سے کہا کہ یہ محض اتفاق بھی تو ہو سکتا ہے‘! یہ تمہاری توجیہ بھی تو ہو سکتی ہے۔ اگر تمہارے والد نہ واپس آتے اور ابھی بیرونِ ملک ہی ہوتے تو ممکن ہے کہ تمہارا تبادلہ پھر بھی ہو جاتا!اُس نے میری بات سُنی اور جواب دیا کہ اس کے ساتھ ایک اور واقعہ بھی پیش آیا۔ کیا وہ بھی محض اتفاق تھا۔ میں نے پوچھا وہ کیا واقعہ ہے؟ اُس نے کہا کہ ایک بار وہ ملک سے باہر گیا ہوا تھا۔ موسمِ گرما تھا۔ بیوی سے فون پر بات ہورہی تھی۔ کہنے لگی: بزرگوں کے ( یعنی میرے دوست کے والد کے ) کمرے میں ایئر کنڈیشنر نہیں ہے۔ تم واپس آؤ تو لگواؤ۔ اُس نے بیوی کو بتایا کہ وہ لگوانا چاہتا تھا مگر والد صاحب نے منع کر دیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ انہیں اس سے سردی لگے گی! کمزور تو وہ تھے ہی! بیوی نے کہا کہ اب کے گرمی بہت زور وں کی پڑ رہی ہے۔ اب لگوانا چاہیے۔ وہ واپس آیا۔ بازار سے ایئر کنڈیشنر خریدا اور والد کے کمرے میں نصب کرا دیا۔ پانچ دس منٹ تک وہ لگا رہنے دیتے پھر بند کرا دیتے۔ کہنے لگا ٹھیک دو دن بعد اُس کے ایک دوست نے‘ جو اس کی نسبت کہیں زیادہ خوشحال تھا‘ فون کیا کہ یار! ایئر کنڈیشنر منگوائے تھے۔ کچھ ضرورت سے زائد آگئے۔ ایک تمہیں بھیج رہا ہوں۔ اُس نے بھیجا تو وہ اسی کمپنی کا‘ اور اسی ماڈل کا ایئر کنڈیشنر تھا جو اس نے والد کے کمرے میں لگوایا تھا! پھر میرا دوست یوں گویا ہوا کہ اگر اس واقعہ کو بھی میں محض اتفاق سمجھتا ہوں تو پھر میں ایک اور واقعہ کے بارے میں کیا کہوں گا جو بہت عرصہ پہلے اس کے ساتھ پیش آیا تھا۔ میں نے پوچھا وہ کیا واقعہ ہے؟ کہنے لگا بہت سال پہلے کی بات ہے۔ والدہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ فرما نے لگیں :کچھ ر وپوں کی ضرورت ہے۔ جیب میں کچھ سو روپے تھے۔ اُن کی خدمت میں پیش کر دیے۔ تھوڑی دیر بعد دروازے پر دستک ہوئی۔ ڈاکیا کھڑا تھا۔ کہنے لگا: آپ کا منی آرڈر آیا ہے۔
یہ رقم‘ جس نے بھی بھیجی تھی‘ ٹھیک اتنی ہی تھی جو میں نے والدہ کو دی تھی۔ اندر آکر میں نے وہ رقم انہیں پیش کر دی کہ یہ مزید آگئی ہے۔ انہوں نے انکار کر دیا اور فرمایا کہ انہیں جتنی ضرورت تھی وہ لے چکی ہیں! یہ واقعہ سنانے کے بعد میرے دوست نے پوچھا کہ کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ جو کچھ تم والدین پر خرچ کرتے ہو‘ وہ تمہیں واپس دے دیا جاتا ہے!
میں خاموش رہا! اُس نے مجھے متذبذب جانا اور کہا کہ کہنے والے تو کائنات کی پیدائش کو بھی اتفاق سمجھتے ہیں۔ پھر اُس نے وہ واقعہ سنایا جو امام ابو حنیفہؒ سے منسوب ہے۔ امام صاحب کی ایک ایسے شخص سے بحث طے تھی جو خدا کے وجود سے منکر تھا اور کائنات کی پیدائش کو اتفاقی حادثہ سمجھتا تھا۔ وہ مقررہ وقت پر بحث کے لیے پہنچ گیا۔ امام صاحب کا نام و نشان نہ تھا۔ ایک طویل انتظار کے بعد پہنچے اور کہنے لگے :ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ تاخیر بھی اسی سبب سے ہوئی۔ مد مقابل اور دیگر حاضرین نے پوچھا کیا ہوا؟ کہنے لگے: میں آرہا تھا کہ راستے میں دریا پڑا۔ ارد گرد دیکھا کوئی آدمی نہ آدم زاد! کوئی کشتی نہ جہاز! پریشان کھڑا رہا کہ دریا کیسے پار کروں! بہت دیر ہو گئی۔ اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک درخت سے موٹی موٹی ٹہنیاں نیچے گر پڑیں! کچھ ہی دیر میں یہ ٹہنیاں‘ خود بخود‘ گھڑے گھڑائے ترشے ہوئے ہموار تختوں میں تبدیل ہو گئیں۔ پھر یہ تختے آپس میں خود بخود جُڑنے لگے۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے ان سے ایک کشتی بن گئی۔ پھر چپو ظاہر ہوا۔ پھر دیکھا تو کشتی میں ملاح بھی بیٹھا ہوا تھا۔ اُس نے مجھے دریا پار کرایا اور یوں آپ کے پاس پہنچ پایا۔ مدِ مقابل ہنسا اور کہنے لگا: امام صاحب! آپ کسے بے وقوف بنا رہے ہیں؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ کشتی‘ کسی بنانے والے کے بغیر خود بخود بن جائے؟ اب امام صاحب کے ہنسنے کی باری تھی۔ کہا :ایک چھوٹی سی کشتی خود بخود نہیں بن سکتی تو اتنی بڑی کائنات خود بخود کیسے بن گئی؟