میں جب اُٹھا ہوں تو زور کا چکر آیا اور گر پڑا! اپنے آپ کو سنبھال کر دوبارہ اُٹھا۔ سب لوگ ایک طرف کو رواں تھے۔ میں نے بھی اسی جانب چلنا شروع کر دیا۔
گرمی تھی اور بلا کی گرمی! ناقابلِ بیان حد تک! دور دور تک سایہ کہیں نہیں تھا۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ سورج کہیں دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ لوگ چلتے جا رہے تھے۔ گروہوں کے گروہ! جماعتوں کی جماعتیں! طائفوں کے طائفے! قطاروں کی قطاریں‘ ان میں سفید فام بھی تھے‘ سیاہ رنگی بھی!! زرد رنگ والے بھی! گندمی رنگت والے بھی! سانولے سلونے بھی! طویل قامت بھی! پستہ قد بھی! مرد بھی‘ عورتیں بھی! جوان بھی‘ بوڑھے بھی! ادھیڑ عمر بھی! سب چلتے جا رہے تھے! چلتے چلتے گر پڑتے تھے اور اُٹھ کر دوبارہ چلنے لگتے تھے۔
ہم چلتے رہے۔ وقت کا کوئی اندازہ نہیں تھا۔ یہ بھی معلوم نہیں ہو رہا تھا کہ صبح ہے یا شام یا دوپہر! رات کا دور دور تک نشان نہیں تھا۔ لگتا تھا یہ کوئی اور ہی نظام ہے۔ ہمارے والا نظامِ شمسی نہیں! یہ بھی اچنبھے کی بات تھی کہ اَن گنت انسان کیسے سمائے ہوئے تھے! اتنے میں ایک کڑک کی آواز سنائی دی۔ ایسی خوفناک کہ دل دہل گئے۔ یہ ویسی ہی کڑک تھی جس نے پہلے سوتوں کو اُٹھا دیا تھا۔ اب کے سب بے ہوش ہو گئے! بے ہوشی کا یہ زمانہ نہیں معلوم برسوں پر مشتمل تھا یا صدیوں پر! رات دن تو تھے نہیں کہ ہفتوں مہینوں کی بات ہو۔ کوئی اور ہی تقویم تھی!! کوئی انوکھا ہی کیلنڈر تھا۔ اُٹھے تو اور ہی سماں تھا۔ اب سب اپنی اپنی جگہ پر کھڑے ہو گئے۔ کب تک کھڑے رہے؟ کوئی اندازہ نہ تھا۔ پھر ایک عجیب سلسلہ شروع ہوا! ایک عجیب سی مخلوق آتی! پر اس کے اتنے بڑے کہ میلوں‘ کوسوں تک پھیلے ہوئے! یہ مخلوق ایک ایک کرکے آتی اور ایک ایک انسان کو ساتھ لے جاتی! کتنے زمانے گزر گئے۔ یہ سلسلہ جاری رہا! اس ساتھ لے جانے والی عجیب و غریب مخلوق کا کوئی شمار تھا نہ انسانوں کا جنہیں یہ مخلوق ساتھ لے جارہی تھی! میں نے اندازہ لگایا کہ جلد یا بدیر‘ مجھے بھی لے جایا جائے گا! اب تجسس دل میں ہول ڈالنے لگا کہ کہاں لے جا رہے ہیں! کیوں لے جا رہے ہیں؟ آخر کیا سلسلہ ہے! یہ بھی نوٹ کیا کہ کچھ کو احترام اور نرمی سے لے جایا جا رہا تھا اور کچھ کو درشتی سے یوں جیسے ہانک رہے ہوں! نہ جانے کتنا وقت‘ کتنے قرن‘ کتنے ہزار سال‘ کتنے زمانے‘ کتنے جُگ‘ کتنا عرصہ‘ کتنی مدتیں‘ کتنے ادوار بیت گئے! یہ سلسلہ جاری رہا۔ یہ بات بھی عجیب اور پُر اسرار تھی کہ جو جاتا‘ واپس نہ آتا۔ اس سے یہ اندازہ ہو رہا تھا کہ اس میدان میں قیام عارضی تھا۔ مستقل ٹھکانہ کہیں اور تھا!
بالآخر پروں والی ایک مخلوق میرے قریب آئی۔ اس کی قربت کا عجب اثر تھا۔ پہلے مجھے سردی لگی! اتنی کہ ٹھٹھرنے لگا! پھر حرارت محسوس ہوئی جو بڑھتے بڑھتے اتنی زیادہ ہوئی کہ میں پسینے میں نہا گیا! اس کے چہرے پر انتہا درجہ کی سنجیدگی اور لاتعلقی تھی۔ اپنائیت اور نرمی کا کوئی نشان نہ تھا۔ اس نے اشارے سے مجھے چلنے کے لیے کہا اور جواب یا ردِ عمل کا انتظار کیے بغیر ایک طرف کو چل پڑا۔ میں اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگا! ہر طرف حیرت انگیز مناظر تھے۔ کہیں کہیں کچھ لوگ سائے میں کھڑے تھے۔ ہمت کر کے پروں والی مخلوق سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ اس نے بتایا یہ وہ اہلِ ایمان ہیں جو دوسرے انسانوں کے حقوق کا خیال رکھتے تھے۔ آگے گئے تو کچھ لوگ سجدے میں پڑے تھے۔ پوچھا تو پروں والی مخلوق نے بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو حقوق اللہ کے مجرم ہیں۔ یہ معافی کے طلبگار ہو رہے ہیں! امید تو ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے حقوق کے معاملات معاف فرما دیں گے۔ اور آگے گئے تو کڑکتی دھوپ میں ایک جمِ غفیر پریشان کھڑا تھا۔ پیاس اور گرمی کی شدت سے سب کا بُرا حال تھا۔ پروں والی مخلوق نے بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن سے حقوق العباد میں گناہ سرزد ہوئے! میں نے بہت منطقی اور اپنی طرف سے دانشمندانہ سوال پوچھا کہ اگر ان لوگوں سے حقوق العباد میں کوتاہیاں ہوئی ہیں تو یہ بھی ان لوگوں کی طرح اللہ تعالی کے سامنے گڑ گڑاتے کیوں نہیں جو حقوق اللہ کے مجرم ہیں اور سجدہ کناں ہیں؟ اس پر پروں والی مخلوق پہلی بار مسکرائی اور کہا کہ حقوق العباد کا معاملہ مختلف ہے۔ جس انسان کا حق تلف کیا گیا‘ صرف وہی مجرم کو معاف کر سکتا ہے! یہ تمام لوگ ان افراد کی تلاش میں ہیں جن کے ساتھ انہوں نے زیادتیاں کی ہیں۔ جب تک وہ معاف نہیں کرتے‘ ان کی جان نہیں چھوٹے گی! پھر اس نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا تمہاری جگہ بھی اسی گروہ میں ہے! مگر پہلے تم ان افراد سے ملو گے جنہوں نے تمہارے ساتھ ناانصافیاں کیں! یہاں سب کے ساتھ انصاف ہو گا۔ مظلوموں کے ساتھ بھی اور ظالموں کے ساتھ بھی! ہر ظالم مظلوم بھی ہے اور ہر مظلوم ظالم بھی! اور یہاں ہر انسان کی ہر حیثیت کو جانچا جا ئے گا!
ہم دونوں‘ میں اور پروں والی مخلوق‘ ابھی وہیں کھڑے ہی تھے کہ ایک آدمی ہماری طرف بڑھا! وہ پریشان حال دکھائی دے رہا تھا۔ پسینہ سر سے پیروں تک بہہ رہا تھا۔ چہرا یوں لگ رہا تھا جیسے ٹوٹا ہوا ہو! عجیب سا! ڈراؤنا سا! میرا نام لے کر پوچھا کہ کیا یہ تم ہی ہو! میں نے اثبات میں جواب دیا تو گڑ گڑانے لگا کہ مجھے معاف کر دو! میں نے کہا کہ بھئی! میں تو تمہیں جانتا ہی نہیں اور پھر مجھے تو یہاں اپنی پڑی ہے! نہ جانے میرے ساتھ کیا ہو گا! اس نے میری قمیض کا دامن پکڑ لیا اور کہنے لگا: تم مجھے نہیں جانتے مگر میں تمہیں جانتا ہوں! میں تمہیں لفافہ کالم نگار کہتا تھا۔ یہ بھی الزام تم پر لگایا کہ تم مقتدر حلقوں کے لیے لکھتے ہو! تم نے تحریکِ انصاف پر تنقید کی تو میں نے تمہیں مسلم لیگ کا پروردہ کہا! تم نے مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کے خلاف لکھا تو میں نے الزام لگایا کہ تم انصافیوں کے پے رول پر ہو۔ تم نے مجھے تنبیہ کی تھی کہ روزِ حشر ثبوت دینا پڑے گا! اس وقت میں یہ سُن کر ہنسا تھا! مگر آج پروں والی مخلوق مجھ سے ان الزامات کا ثبوت مانگ رہی ہے جو میں تم پر لگاتا رہا! خدا کے لیے مجھے معاف کر دو ورنہ مجھے شدید سزا دی جائے گی! مجھے اس پر رحم آیا اور اسے کہا: جاؤ! میں تمہیں معاف کرتا ہوں! وہ خوش خوش جدھر سے آیا تھا‘ ادھر واپس چلا گیا!
میں پروں والی مخلوق کی طرف خوف زدہ ہو کر دیکھ رہا تھا کہ اب یہ میرے ساتھ کیا کرنے والا ہے۔ دل زور زور سے دھڑک رہا تھا! اچانک کسی نے مجھے جھنجھوڑا! اٹھیے آج ڈرائیور نہیں آیا! جا کر سبزی لائیے کہ پکانے کے لیے گھر میں کچھ بھی نہیں! یہ میری بیوی تھی! میں نے ڈرتے ڈرتے آنکھیں کھولیں مگر میں سخت خوفزدہ تھا۔ بیوی نے رضائی ہٹائی تو مجھے دیکھ کر پریشان ہو گئی۔ ''آپ ٹھیک تو ہیں؟ رنگت ہلدی کی طرح زرد ہو رہی ہے! اس شدید سردی میں بھی آپ پسینے میں نہا رہے ہیں! کیا بات ہے؟ آپ کی طبیعت خراب لگ رہی ہے‘‘۔ مجھے بیوی کی آواز بہت دور سے آتی سنائی دی۔ اس کی باتوں کا جواب دیے بغیر میں نے کاغذ اور قلم لیا اور ان افراد کے ناموں کی فہرست بنانے لگ گیا جن کے ساتھ میں نے زیادتیاں اور ناانصافیاں کی تھیں!