تین دن قیام کرنے کے بعد‘ واپس آتے ہوئے‘ نوجوان ڈاکٹر سے الوداعی کلمات کہے تو ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا۔ وہ بھی رونے لگا اور میں بھی!
اُس کی والدہ‘ اُسے چھوڑ کر اگلی منزل کی جانب روانہ ہو گئی تھیں! میں نے اُسے کہا کہ اب اُسے محتاط اور ہوشیار رہنا ہو گا کیونکہ جو حفاظتی حصار اس کے ارد گرد تھا‘ وہ اُٹھ گیا ہے اور یہ کہ اب He is on his own۔ روایت ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کی والدہ نہ رہیں تو انہیں وارننگ دی گئی کہ اب ذرا سنبھل کر کہ معاملات پہلے جیسے نہیں! اب پشت پر ماں کی دعائیں نہیں رہیں!
ماں باپ کی قدر جیتے جی کم ہی ہوتی ہے! اس لیے کہ ہمارے پاس اُس زندگی کا تصور نہیں ہوتا جو اُن کے بغیر ہو سکتی ہے۔ وہ ہماری زندگی کا‘ ہماری ذات کا‘ ہمارے وجود کا ‘ یا ہم ان کے وجود کا حصہ ہوتے ہیں! ہم انہیں Taken for granted لیتے ہیں! بالکل اسی طرح جیسے ہم ہاتھوں یا آنکھوں کے بغیر اپنی زندگی کا تصور نہیں کر سکتے! ہاتھوں کی معذوری یا آنکھوں کی بے نوری کا احساس اسی کو ہوتا ہے جس سے یہ چیزیں چھِن جائیں! ہم آئے دن فقیروں کی صدا سنتے ہیں ''آنکھوں والو! آنکھیں بڑی نعمت ہیں‘‘ مگر کبھی اس جملے کی گہرائی پر غور نہیں کرتے! کر بھی نہیں سکتے! یہ تو تجربے کا معاملہ ہے! آنکھوں‘ ہاتھوں اور دیگر اعضائے بدن کی طرح ماں باپ بھی نعمت ہیں مگر ہم ادراک نہیں کر سکتے! ماں نعمت کے علاوہ ایک معجزہ بھی ہے! غور کیجیے! ہم تو بنتے ہی ماں کے پیٹ میں ہیں! وہیں ڈھلتے ہیں! وہیں صورت پذیر ہوتے ہیں! کوئی کسی بے سہارا کو چند دن بھی اپنے گھر میں رکھے تو وہ تا دمِ مرگ اس کا احسان مند رہتا ہے! اور ماں ہمیں اپنے گھر میں نہیں‘ اپنے کمرے میں نہیں‘ اپنے اندر‘ اپنے وجود کے اندر رکھتی ہے! کیا اس سے بڑھ کر بھی کوئی پناہ دے سکتا ہے! فرض کیجیے یہ بات آپ زندگی میں پہلی بار سن رہے ہیں! تو کیا یہ بات حیرت انگیز نہیں؟ اور چند دن نہیں‘ چند ہفتے نہیں‘ نو ماہ اپنے اندر رکھتی ہے! دنیا کا کوئی مرد اُن تکالیف کا احساس نہیں کر سکتا جن کا ماں ان نو ماہ کے دوران سامنا کرتی ہے!وہ اپنی خوراک‘ اپنے پانی‘ اپنے خون‘ اپنی توانائی‘ اپنی سانسوں کا ایک حصہ اس بے سہارا‘ انسان کو دیتی ہے جس کی پوری دنیا میں ماں کے پیٹ کے سوا کوئی پناہ گاہ نہیں! ماں کے چہرے پر داغ پڑ جاتے ہیں! اس کا حُسن مرجھا جاتا ہے! کبھی وہ قے کرتی ہے کبھی اسے غش پڑتا ہے! کبھی وہ کچھ کھا نہیں سکتی! اس تکلیف کا تو بیان بھی انسان کے بس کی بات نہیں! اس تکلیف کو خدا ہی بیان کر سکتا تھا! یہ جو فرمایا گیا ہے ''وھنا علی وھن‘‘ یعنی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھا کر پیٹ میں رکھا تو عجیب ہی جامع اظہار ہے! کمزوری پر کمزوری! ہر روز‘ ہر ہفتے‘ ہر ماہ بڑھتی ہوئی کمزوری! علامہ اسد نے ''وھنا علی وھن‘‘ کا ترجمہ Strain upon strain کیا ہے! پھر جنم دینے کے بعد وہ اپنے خون کو دودھ بنا کر پلاتی ہے۔ فیضی کے اس شعر نے جو اس نے ماں کی وفات پر کہا تھا‘ مجھے مدتوں نڈھال رکھا :
خون کہ از مہرِ تُو شد شیر و بطفلی خوردم
باز خون گشتہ و از دیدہ برون می آید
تیری محبت سے جو خون دودھ بن گیا تھا اور میں نے بچپن میں پیا تھا‘ اب وہ دوبارہ خون بن کر میری آنکھوں سے باہر آرہا ہے!
اب یہ بے یار و مدد گار انسان ماں کے لیے ایک اور امتحان ہے! ہِل سکتا ہے نہ اُٹھ بیٹھ سکتا ہے! نہ بول ہی سکتا ہے! نہ بول و براز کا کوئی وقت مقرر ہے! ( اب تو ڈائپر آگئے ہیں! ہماری ماؤں نے‘ اور میری بیوی نے بھی‘ راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر پوتڑے دھوئے تھے۔ یہ سہولت تو اب ہماری بیٹیوں اور بہوؤں کے دور میں آئی ہے!) جو ماں کے سامنے اکڑے‘ اُس تِیرہ بخت کو یاد کرنا چاہیے کہ وہ نو ماہ کس پوز اور کس پوزیشن میں کہاں پڑا رہا اور پیدائش کے بعد اس کی کیا حالت تھی!
آپا زہرہ سے میرا تعلق تقریباً بیس برس قبل قائم ہوا جب انہوں نے اپنے ڈاکٹر فرزند کے لیے میری بڑی بیٹی کا رشتہ لیا! وہ ایک عام عورت نہ تھیں! انہیں دیکھ کر‘ اُن کے پاس بیٹھ کر اور ان سے معاملات طے کر کے معلوم ہوتا تھا کہ خاندانی بیبیاں کیسی ہوتی ہیں! اعوان تھیں! شخصیت میں رعب تھا اور دبدبہ! قوتِ فیصلہ میں کئی مردوں سے آگے تھیں! میں وہ منظر نہیں بھول سکتا جب تقریب کے اختتام پر رخصتی کا وقت آیا تو میری بیٹی کے سر اور کندھوں پر پہلے انہوں نے چادر ڈالی! کبھی ایسا نہ ہوا کہ ہم گئے ہوں اور آتے ہوئے ہمارے ڈرائیور کو انہوں نے اچھی خاصی رقم نہ دی ہو! نصف درجن ملازم مستقلاً ان کے ہاں تین وقت کا کھانا کھاتے تھے اور کھانا بھی ایسا جیسے مہمانوں کے لیے ہوتا ہے! بے پناہ مہمان نواز تھیں! ملاقاتی کو یا مہمان کو تحائف دے کر رخصت کرتی تھیں! دو تعزیتی فقرے کبھی نہیں بھولتے۔ دادی جان کی وفات ہوئی تو میرے علاقے کی ایک بزرگ خاتون( بریگیڈیر زرین خٹک کی والدہ ) نے مجھے روتا دیکھ کر کہا '' رو کیوں رہے ہو؟ تو کیا اب ہم مَریں بھی نہیں ؟‘‘ جب والد گرامی نے کُوچ کیا تو آپا زہرہ نے مجھے جتلایا ''محروم ہو گئے نا؟ ‘‘ آج بھی یہ فقرہ یاد آتا ہے تو چشمہ اُبل پڑتا ہے!
مگر آپا زہرا کا اصل کام اور تھا! وہ بلند پایہ عالمہ تھیں! نہ صرف عالمہ بلکہ ایک لائق معلّمہ بھی! عالمہ فاضلہ ہونا اور بات ہے اور ساتھ معلّمہ ہونا یکسر مختلف! ساری زندگی قرآن کی تدریس کی! ہزاروں خواتین نے اکتسابِ فیض کیا! آپا کے بچے جہاں رہیں یا جہاں جائیں کوئی نہ کوئی خاتون انہیں ملتی ہے اور بتاتی ہے کہ اس نے قرآن کے رموز و اسرار ان کی امی جان سے سیکھے یا کوئی مرد بتاتا ہے کہ اس کی ماں یا بہن یا بیوی ان کی شاگرد تھی! ایک وقت وہ بھی تھا جب آپا زہرہ پچپن( 55) سکول چلا رہی تھیں اور ہر سکول کا معائنہ اور نگرانی خود کرتی تھیں! کئی ٹرسٹ اُن کی نگرانی میں چل رہے تھے! غیر مسلم خاتون نے ان کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا تو اُسے اپنے گھر میں گھر کا فرد بنا کر رکھا۔ پھر شادی کی اور بہت کچھ دے دلا کر رخصت کیا! جنازے میں ان کی شاگرد خواتین کے شوہروں اور بیٹوں کا اژدہام تھا! مٹی ڈالنے کے بعد ‘ قبر پر‘ عموماً پیشہ ور حفاظ سے تلاوت کرائی جاتی ہے۔ آپا زہرا کے فرزندوں نے‘ جو دنیاوی اعتبار سے اعلیٰ مناصب پر فائز ہیں اور فائز رہے ہیں‘ خود تلاوت کی ! انہیں ایسا ہی کرنا چاہیے تھا کیونکہ وہ آپا زہرا کے بیٹے تھے۔ مرحومہ نے بیٹیوں کو بھی اعلیٰ تعلیم دلائی! علم و ادب اس گھر کا سب سے بڑا اثاثہ تھا۔ ان کے مرحوم شوہر‘ جو نسلاً یوپی کے روہیلہ پٹھانوں میں سے تھے‘ اپنے وقت کے سب سے بڑے روزنامے ''کوہستان‘‘ کے چیف ایڈیٹر تھے اور کئی کتابوں کے مصنف!
مرنا تو سب نے ہے۔
آخر سب اپنی اپنی سنا کر ہوئے خموش
تھی داستاں طویل تو کیا‘ مختصر تو کیا
مگر جس طرح انسان اور انسان میں فرق ہے اسی طرح مرنے اور مرنے میں بھی فرق ہے! بعض کی موت سے لوگ سکون کا سانس لیتے ہیں اور خس کم جہاں پاک کا نعرہ لگاتے ہیں۔ بعض مرتے ہیں تو لا تعداد لوگ ان کی موت کو اپنا ذاتی نقصان سمجھتے ہیں! معلوم نہیں کس کا ہے مگر قطعہ بے مثال ہے:
یاد داری کہ وقتِ زادنِ تو / ہمہ خندان بُدند و تو گریان
آنچناں زی کہ وقت مُردنِ توُ/ ہمہ گریاں بوند و تو خندان
کالم کا دامن تمام ہوا۔ ترجمہ پھر کبھی!