''میں پاکستان کو آسٹریلیا سے کہیں زیادہ چاہتا ہوں! اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ یہاں کے مال اور بازار میں زیادہ مزہ آتا ہے۔ آپ کے پاس اگر ویک اینڈ کے لیے کوئی اور ایجنڈا نہیں تو مال میں چلے جائیے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں آپ خاندان کے افراد کے ساتھ وقت گزار سکتے ہیں! مجھے تارکِ وطن (Expat) کہلانا بالکل پسند نہیں۔ میرے ابو کو بھی نہیں پسند! ہم چاہتے ہیں کہ اپنے شہروں میں اپنے رشتہ داروں کے پاس رہیں!‘‘
گیارہ سالہ تیمور رو رہا تھا۔ پوچھا کیا ہوا! کہنے لگا: میں آسٹریلیا نہیں جانا چاہتا۔ یہیں پاکستان میں رہنا چاہتا ہوں! اس کا دل بہلانے کے لیے کہا کہ لکھ کر بتائیے آپ کیوں نہیں جانا چاہتے! اس پر اس نے دو پیرا گراف لکھ کر دکھائے جن کا ترجمہ اوپر دیا ہے۔ اس کا باپ بھی غم زدہ تھا مگر بیٹے کے آنسو کام آئے نہ باپ کی اداسی! تین دن پہلے ایک طاقتور‘ قوی ہیکل فولادی پرندے نے انہیں اپنے بازوؤں میں جکڑا اور گیارہ ہزار کلومیٹر دور جا کر بحر الکاہل کے کنارے اُگل دیا!
کئی برسوں بعد اب کے سب بچوں کو تعطیلات ایک ہی وقت ملیں! دسمبر میں سب اکٹھے تھے۔ خوب ہنگامے رہے! جس گھر میں دو عمر رسیدہ میاں بیوی‘ گویا چوکیداری کر رہے تھے‘ آباد ہو گیا! کہیں نقرئی قہقہے تھے‘ کہیں سنہری آوازیں! اپنے اپنے کمروں میں سونے کے بجائے سب لاؤنج یا بیٹھک میں اکٹھے بیٹھتے! فرش پر سونا گوارا تھا مگر ایک دوسرے سے الگ ہونا نہیں! رات رات بھر جاگتے! کبھی کیرم بورڈ ہو رہا ہوتا تو کبھی کسوٹی! کبھی پیزا آ رہا ہوتا تو کبھی برگر! چھوٹے بچے تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد آکر کاغذ مانگتے۔ نہیں معلوم یہ ان کاغذوں کا کیا کرتے۔ بس میز کے ارد گرد بیٹھ کر ہر بچہ کوئی نہ کوئی شہکار تخلیق کر رہا ہوتا! پیسے اکٹھے کرکے محلے کی دکان پر جاتے اور کئی بار جاتے! بڑے بچے باہر گلی میں کرکٹ کھیلتے۔ مصطفی زیدی کے بقول:
افسانہ در افسانہ تھی مڑتی ہوئی سیڑھی
اشعار در اشعار تھا ہر در اسی گھر میں
قرب کی اس دیوار میں پہلا شگاف زرین نے ڈالا! اس کا سکول کھلنے والا تھا! وہ جاتے وقت ازحد اداس تھی۔ بالکل خاموش! اتنے ہنگامے‘ اتنی چہل پہل‘ اتنی ہماہمی چھوڑ کر جانا آسان نہ تھا۔ میں نے سینے سے لگایا تو ڈر رہا تھا کہ رو نہ پڑے۔ مگر وہ ایک بت کی طرح‘ گُھٹے ہوئے منہ کے ساتھ‘ بالکل بے حس و حرکت رہی! چند دن اور گزرے تو لاہور والوں نے رختِ سفر باندھا! زینب اب ماشاء اللہ اتنی بڑی ہو گئی ہے کہ چھوٹے کزنز کا خیال رکھ سکے۔ کل کی بات لگتی ہے کہ منی سوٹا کے ایک ہسپتال میں اس کا ورود ہوا تو ہسپتال میں شور مچ گیا کہ ایک بچی سیاہ بالوں والی پیدا ہوئی ہے۔ سنہری بالوں کی اس دنیا میں سیاہ بال عجوبہ تھے۔ نرسیں دیکھنے آتی تھیں اور دیکھ کر خوش ہوتی تھیں!! معلوم ہوا کہ نومود بچوں کو شہد کی گُھٹی دینے کی اجازت نہیں! زینب کی نانو اس قانون کو کہاں ماننے والی تھیں! عملے سے چھپ کر گھٹی دی۔ زینب پہلی Grand kid ہے۔ اس کی پیدائش کے بعد ہی معلوم ہوا کہ زندگی کا شیریں ترین میوہ تو بچوں کے بچے ہیں!
پوتوں نواسیوں کے چمن زار واہ واہ
اولاد پر بہشت کے میوے لگے ہوئے
زینب کا چھوٹا بھائی‘ ہاشم خان‘ روہیلہ پٹھانوں کی روایت بر قرار رکھتے ہوئے پندرہ برس کی عمر میں چھ فٹ کا ہو چکا ہے۔ اسے سکول میں اپنی بہن پر مضمون لکھنے کے لیے کہا گیا تو اس نے مضمون میں یہ بھی لکھا کہ زینب نانا ابو کی پہلی Grand kid ہے اور ان کی چہیتی ہے۔ ویسے اس میں کوئی خاص بات نہیں! یہ لوگ لاہور واپس چلے گئے تو رونق آدھی رہ گئی!! کچھ دن اور گزرے تو حمزہ‘ زہرہ اور سمیر کی بیرونِ ملک روانگی سر پر آگئی۔ جوں جوں جانے کی تاریخ نزدیک آتی گئی‘ زہرہ پہلے سے زیادہ لپٹنے لگی! کہیں کھڑا ہوتا یا بیٹھا ہوتا تو آکر لپٹ جاتی! بچوں کو سر پر کھڑی جدائی کا پورا ادراک ہوتا ہے مگر اظہار نہیں کر سکتے! بعض اوقات بچوں کو اپنی پسندیدہ شخصیت کے فراق میں بخار بھی ہو جاتا ہے! یہ درست ہے کہ بچے جلد بھول جاتے ہیں اور اپنے نئے مشاغل میں مصروف ہو جاتے ہیں مگر جدائی کا فوری ردِ عمل ان پر شدید ہوتا ہے۔
تیمور نے مندرجہ بالا نوٹ چند روز پہلے لکھا اور پرسوں چلا گیا۔ جہاز کی روانگی سے پہلے ہم ایئر پورٹ کے ریستوران میں بیٹھے رہے۔ اسے اور اس کے چھوٹے بھائی سالار کو کھانے پینے کی چیزیں لے کر دیں اور وہ خوش ہوئے! رخصت ہوتے وقت وہ بار بار مڑ مڑ کر ہاتھ ہلاتا رہا‘ بالکل بڑے آدمیوں کی طرح!! واپسی پر میں اور اس کی دادی گاڑی میں‘ بے حس و حرکت‘ خاموش بیٹھے رہے! گاڑی میں اندھیرا تھا۔ معلوم نہیں اسے میرے رونے کا پتا چلا یا نہیں مگر مجھے معلوم تھا کہ وہ رو رہی ہے! زیادہ دکھ یہ سوچ سوچ کر ہو رہا تھا کہ تیمور جانا نہیں چاہتا تھا۔ جانے سے پہلے اس نے کئی بار پوچھا ''آپ کا نیا ویزا کب تک لگ جائے گا‘‘؟ یہ لوگ میلبورن پرسوں رات نو بجے پہنچے۔ گھر پہنچتے پہنچتے گیارہ بارہ بج گئے۔ وہاں آدھی رات تھی جب تیمور کے ابو نے فون کیا کہ تیمور راستے میں بھی روتا رہا اور اب گھر پہنچ کر بہت زیادہ رو رہا ہے۔ میں نے اسے وڈیو کال پر چپ کرانے کی کوشش کی۔ مگر وہ سسکیاں لے رہا تھا اور ایک ہی بات پوچھے جا رہا تھا کہ آپ کے آنے میں کتنے دن باقی ہیں؟ آپ کتنے دن بعد آرہے ہیں؟ آپ کب آئیں گے؟
وصال و فراق کا یہ کھیل ہر دوسرے نہیں تو تیسرے گھر میں ضرور جاری ہے! خاندان بٹ گئے ہیں۔ کنبے بکھر گئے ہیں! ملکوں ملکوں! دیس دیس! ہاں! بعض افراد کے اعصاب ''فولادی‘‘ ہوتے ہیں! کچھ طبائع حساس نہیں ہوتے! ہمارے ایک دوست ہیں جنہیں اپنے ہی پوتوں نواسوں کا شور بُرا لگتا ہے۔ ہم جیسے ''کمزور‘‘ اعصاب کے لوگ بچوں کے شور میں لکھنے پڑھنے کا کام بھی کرتے رہتے ہیں۔ مجھے تو اپنے بچوں کا شور دلفریب موسیقی کی طرح لگتا ہے! ''فولادی‘‘ اعصاب تو ان صاحب کے بھی تھے جو بارگاہِ رسالت میں حاضر تھے۔ ان کے سامنے رسالت مآبﷺ نے اپنے نواسے حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو بوسہ دیا۔ ان صاحب نے بتایا کہ ان کے دس بیٹے ہیں مگر انہوں نے کبھی کسی کو نہیں چوما۔ اس پر آپﷺ نے فرمایا ''اگر اللہ تعالیٰ نے تمہارے دل سے رحمت نکال لی ہے تو میں اس کا مالک تو نہیں ہوں‘‘!
اپنے بچے چھوٹے ہوتے ہیں تو ان سے لطف اندوز ہونے کا وقت کم ہی ملتا ہے۔ زندگی کی بے مہریاں تب عروج پر ہوتی ہیں۔ غمِ روزگار نے گھیرا ہوتا ہے۔ بقول ناصر کاظمی:
صبح نکلے تھے فکرِ دنیا میں
خانہ برباد دن ڈھلے آئے
دیکھتے ہی دیکھتے بچے بڑے ہو جاتے ہیں۔ جب ان کے بچے وارد ہوتے ہیں تب فرصت ہی فرصت ہوتی ہے۔ ذمہ داری ان کے ماں باپ پر اور لطف اندوزی دادا ‘دادی یا نانا‘ نانی کے حصے میں! بچوں کی بات توجہ سے ماں باپ نہیں بلکہ دادا‘ نانا سنتے ہیں! ایک خاموش‘ غیر تحریری معاہدہ طے ہو جاتا ہے۔ دادا‘ نانا بچوں کے وکیل ہوتے ہیں۔ ایسے میں بچوں کے ماں باپ کی سب سے بڑی دلیل وہی ہوتی ہے جو نسل در نسل چلی آتی ہے کہ ''آپ نے اسے یا انہیں Spoil کر دیا ہے‘‘۔ ہاں! کر دیا ہے! اس لیے کہ دادا‘ نانا کو قدرت نے یہی کردار سونپا ہے!
اب میرے پاس رستم اور آزادِہ ہیں! رستم دو برس کا ہونے والا ہے۔ چائے اور رَس کا ناشتہ میرے ساتھ بہت شوق سے کرتا ہے۔ ہاں! تیمور کا مضمون فریم کرا رہا ہوں کہ محفوظ ہو جائے!