بس کر دو! خدا کے لیے بس کر دو! کب تک منافقت کے پیچھے اصل چہرا چھپاتے رہو گے؟ کوئی کہتا ہے بوتل میں پانی تھا جو پیر صاحب نے دم کیا تھا؟ کوئی کہتا ہے گاڑی میں جو بوتلیں تھیں ان میں شہد تھا۔ کوئی کہتا ہے ہسپتال‘ اس کے کمرے میں جو بوتلیں پڑی تھیں ان میں کوکنگ آئل تھا! تم منافقوں سے تو وہ رند اچھے ہیں جن کے چہروں پر نیکوکاری کی تہہ نہیں ہوتی! منافقت کے علاوہ یہ تمہاری بزدلی بھی ہے! وہ کام کرتے کیوں ہو جس کا اعتراف نہیں کر سکتے؟ کرتے ہو تو اعتراف بھی کرو! تم چاہتے ہو کہ اندر خانے موج مستی بھی کرو‘ عیش و عشرت کے تقاضے بھی پو رے کرو اور اوپر سے لبادہ بھی نہ اُترے! لوگ سمجھدار ہو گئے ہیں! انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ پیر کے دم کیے ہوئے پانی سے کیا مراد ہے‘ شہد کا کیا مطلب ہے اور خوردنی تیل کیسا تھا! تم جو چاہو کرو! کسی کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ تمہیں روکے! جو معاملات بندے اور خدا کے درمیان ہیں‘ ان میں انسانوں کو دخل نہیں دینا چاہیے! مگر ڈرامے کرنا‘ ملمع سازیاں کرنا‘ جھوٹ بولنا‘ پاکبازی کی جعلی قبائیں پہننا‘ ان سب حرکتوں سے ذلت میں اضافے کے علاوہ کچھ حاصل نہ ہو گا!
اور یہ ہم کس زمانے میں پہنچ گئے ہیں! ہمارے کلچر میں تو ماؤں‘ بہنوں‘ بیویوں اور بیٹیوں کا عدالتوں میں جانا ہی ناقابلِ تصور تھا‘ چہ جائیکہ ان کی موجودگی میں‘ انہی کے بارے میں‘ ایسے سوالات اور ایسی باتیں جنہیں سُن کر مردوں کے کان بھی سرخ ہو جائیں! لوگ مر جاتے تھے‘ اپنے گھروں کی خواتین کو کچہریوں میں نہیں جانے دیتے تھے! یہ کیسے لوگ ہیں جو اس سارے شرمناک تماشے کے دوران‘ زمین میں گڑنے کے بجائے‘ ہنستے رہے اور انگلیوں سے فتح کے نشان بناتے رہے! کیسی بے حسی ہے! اور بے حسی کی کیسی انتہا ہے! سچی مثال ہے وہ جو کسی کو شرم دلانے کے لیے کہا گیا کہ تمہاری پشت پر کیکر اُگا ہے تو اس نے‘ شرم کرنے کے بجائے‘ آگے سے جواب دیا تھا کہ اچھا ہے‘ اس کی چھاؤں میں بیٹھیں گے!
ایک بار چہرے سے حیا کی چادر اُتر جائے تو پھر اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ بے حرمتی کتنی بار ہو رہی ہے یا کتنی ہو رہی ہے یا کہاں کہاں ہو رہی ہے! کاش انتہائی ذاتی معاملات ذاتی ہی رہنے دیے جاتے! بندوں کو ان معاملات میں نہیں پڑنا چاہیے جو بندوں اور خدا کے درمیان ہیں!
کسی خاتون قیدی کو اگر اپنے گھر میں نظربندی کی رعایت دینا ہی تھی تو ڈاکٹر یاسمین راشد سے زیادہ اس رعایت کی مستحق کوئی نہ تھی! ہو بھی نہیں سکتی! اس ملک میں کتنی خواتین ہیں جو اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے ان کے برابر ہو سکتی ہیں؟ انہوں نے ساری عمر تعلیم کے شعبے میں خدمات انجام دیں! ہزاروں طلبہ اور طالبات کو پڑھایا۔ ان کی تصنیف کردہ کتابیں نصاب میں شامل ہیں! چکوال کی اس جینیئس بیٹی نے برطانیہ سے گائناکالوجی میں اعلیٰ ترین ڈگریاں حاصل کیں! کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج (اب یونیورسٹی) جیسے معتبر ترین ادارے میں شعبے کی سربراہ رہیں! پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن پنجاب کی صدر رہیں! کئی یونیورسٹیوں میں کام کیا! اتنی لائق اور بلند ترین اہلیت کی مالک خاتون جیل میں عام قیدیوں کی سی زندگی گزار رہی ہے۔ عمر بھی ان کی ستر سے زیادہ ہے! اس کے مقابلے میں ایک ایسی خاتون کو گھر میں نظر بندی کی سہولت دی گئی ہے جو تعلیم و تعلّم میں ان کے پاسنگ تک نہیں! ایک اور سَو کا فرق ہے! ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ جس خاتون کو یہ بیش بہا رعایت ملی ہے‘ اسے نہیں ملنی چاہیے یا اس سے یہ رعایت واپس لے لینی چاہیے۔ مگر ایسی رعایت ڈاکٹر یاسمین راشد جیسی قابل پروفیسر کو بھی ملنی چاہیے تھی!
اور صرف ڈاکٹر یاسمین راشد ہی نہیں‘ کتنی ہی خواتین عام قیدیوں کی زندگی گزار رہی ہیں! ذلت آمیز زندگی!!
2019ء کے اعداد و شمار کی رُو سے‘ صرف پنجاب کے زندانوں میں ساڑھے چار سو سے زیادہ عورتیں پڑی ہیں جن کے مقدمات کے فیصلے ہی نہیں ہوئے۔ کتنی عورتوں کو وکیل ہی میسر نہیں! کتنی ہی عورتیں جیل میں بجوں کو جنم دیتی ہیں۔ یہ بچے بھی سزا کاٹتے ہیں!
2021ء کے اعداد و شمار کے حساب سے ایک ہزار چار سو سے زیادہ خواتین جیلوں میں بند ہیں! ان بے کس‘ بے بس عورتوں کو گھر میں نظر بندی کی عیاشی کیوں نہیں میسر؟ کیا یہ پاکستانی نہیں؟ کیا یہ حوّا کی بیٹیاں نہیں؟ اس رعایت کا معیار کیا ہے؟ تعلیم؟ عمر؟ یا صرف سوشل سٹیٹس؟ سوشل سٹیٹس تو مریم نواز اور فریال تالپور کا بھی کم نہ تھا! بلکہ بہت زیادہ تھا! کئی نسلوں سے امیر زادیاں تھیں اور حکمران خاندانوں کی بیٹیاں!! سوشل سٹیٹس اور خاندانی امتیاز کی بنیاد پر ایسی رعایت دینا اور لینا انصاف کا خون کرنے کے برابر ہے! انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ بوڑھی خواتین قیدیوں کو گھروں میں نظربند کیا جائے اور اُن عورتوں کو بھی جن کے ساتھ بچے ہیں! رہی اُس سلوک کی بات جو ہمارے جیلوں میں خواتین قیدیوں سے روا رکھا جاتا ہو گا‘ تو اس کے تصور ہی سے دل میں ہول اٹھنے لگتا ہے۔ ہم سب اس سلوک کی نوعیت کو اچھی طرح جانتے ہیں! کوئی غلط فہمی نہیں! ظلم‘ تشدد‘ اور وہ سب کچھ جو ناگفتنی ہے اور ناقابلِ بیان‘ ان خواتین قیدیوں کے ساتھ ہوتا ہو گا اور یقینا ہوتا ہو گا! خدا دشمن کی خواتین کو بھی جیل سے بچائے!
ہنسنے ہنسانے کا موسم زوروں پر ہے! ذرا ٹیلی ویژن سکرین کے سامنے بیٹھیے! لگتا ہے دنیا بھر کے کلاؤن‘ مسخرے اور مداری یہاں آ گئے ہیں! رنگا رنگ پگڑیاں پہن کر تقریریں کی جا رہی ہیں! اچھل اچھل کر دعوے اور چھلانگیں لگا لگا کر وعدے کیے جا رہے ہیں! ایسی ایسی مضحکہ خیز باتیں کی جا رہی ہیں کہ الامان و الحفیظ! ایک دوسرے کے کردار کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں! کل جو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر حکومت بنا رہے تھے اور حکومت کر رہے تھے‘ آج ایک دوسرے کو چیر پھاڑ رہے ہیں! حیرت تو یہ ہے کہ ہر نئے الیکشن سے پہلے پارٹی بدلنے والے بھی انقلاب کے خواب فروخت کر رہے ہیں! قیمتیں نیچے لانے کا وعدہ کیا جا رہا ہے۔ مگر کیسے؟ یہ نہیں بتاتے! پی ڈی ایم کی حکومت میں تو سمدھی صاحب کوئی معجزہ نہ دکھا سکے! دیکھیے! اب کے کیا کرتب دکھاتے ہیں! ہم اپنے آپ کو تسلی دیتے ہیں کہ چلو جیسی بھی لُولی لنگڑی جمہوریت ہے‘ جمہوریت تو ہے! مگر سچ یہ ہے کہ یہ لولی لنگڑی جمہوریت بھی نہیں‘ یہ اولی گارکی (Oligarchy) ہے۔ یعنی امرا شاہی! ارسطو Oligarch کو ارسٹوکریسی (اشرافیہ کی حکومت) کی بدتر قسم کہتا ہے! آپ ضیاء الحق کی کابینہ سے لے کر آج تک کی کابینہ کا تجزیہ کر کے دیکھ لیجیے! وہی اشرافیہ! وہی امرا! ثروت مندوں کے وہی ٹولے! نسل در نسل! پشت در پشت! ساتھ ساتھ نئے امرا بھی شامل ہوتے جاتے ہیں! وہ جو مڈل کلاس کے نام پر سیاست میں آئے تھے‘ ان کے کنبے بھی امریکی شہروں کے گراں ترین علاقوں میں منتقل ہو گئے ہیں ! پاکستان کی اشرافیہ نے پکا پکا اصول بنا لیا ہے کہ حکومت کرنے کے لیے پاکستان اور رہنے کے لیے لندن‘ دبئی‘ جدہ‘ سپین اور امریکہ!! جو سیاستدان آج کل اپنا اصلی وطن‘ لندن‘ چھوڑ کر پاکستان آئے ہوئے ہیں‘ ان کا قوم پر اور ملک پر احسانِ عظیم ہے! کہاں لندن کے کافی ہاؤس‘ سپر سٹور‘ اور شاپنگ! اور کہاں غریب‘ گرد آلود‘ پاکستان!! مگر حکومت میں ایک بار پھر آنے کے لیے قربانی تو دینا پڑتی ہے! ہاں! حکومت ہاتھ آگئی تو پھر پہلے کی طرح لندن کے پے در پے ''سرکاری‘‘ دورے یعنی چُپڑی اور دو دو!! پھر کابینہ کے نہ اسمبلی کے اجلاسوں میں حاضری!! فرنگیوں نے کیا جامع محاورہ نکالا ہے More of the same!! یعنی یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے۔