اگر عمران خان دوبارہ وزیر اعظم بنے

عوام نے فیصلہ کر دیا ہے! یہ فیصلہ کسی کو پسند ہو یا نہ ہو‘ اس فیصلے کا احترام ہونا چاہیے! اس فیصلے پر عمل ہونا چاہیے! تمام رکاوٹوں اور نامساعد حالات کے باوجود تحریک انصاف نے میدان مار لیا ہے۔ اس کامیابی کا بڑا سبب وہ وابستگی ہے جو لوگوں کو عمران خان کے ساتھ ہے اور جنون کی حد تک ہے! وہ عمران خان کو ایک دیومالائی‘ ایک مافوق الفطرت شخصیت سمجھتے ہیں! وہ ان کا لیڈر نہیں ہیرو ہے! اس کی غلطیاں بھی انہیں اس کے کارناموں کی طرح لگتی ہیں! وہ اس کے پرستار ہیں! اور پرستش دل کا معاملہ ہے۔ اس میں دماغ کا کچھ عمل دخل نہیں! اس وابستگی اور اس جنون کے علاوہ‘ کامیابی کا دوسرا سبب وہ مار دھاڑ ہے جو تحریک انصاف کے حامیوں کے ساتھ روا رکھی گئی! ہر عمل کا ایک ردِ عمل ہوتا ہے۔ بہت سے ووٹ ہمدردی کے بھی پڑے!
آخر میاں صاحبان‘ زرداری صاحب اور بلاول میں اتنی سیاسی دور اندیشی اور اخلاقی جرأت کیوں نہیں کہ وہ اپوزیشن میں بیٹھیں! ایک مضبوط اپوزیشن ملک کی اتنی ہی خدمت کر سکتی ہے جتنی کہ حکومتی پارٹی! اگر تحریک انصاف ملک کے لیے اچھی کارکردگی دکھائے گی تو اپوزیشن کا بھی اس میں کردار ہو گا۔ اگر تحریک انصاف کی پرفارمنس اچھی نہیں ہو گی تو عوام اگلے انتخابات میں اپنا فیصلہ بدل سکتے ہیں!
میاں نواز شریف کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ پاکستان میں صرف اسی صورت میں رہ سکتے ہیں جب اقتدار میں ہوں! لندن کی زندگی کے وہ دلدادہ ہیں! اس حوالے سے اکثر تصویریں اور خبریں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ اس میں کیا شک ہے کہ لندن کے ریستورانوں‘ کافی شاپس‘ سپر سٹوروں اور اپارٹمنٹس میں بہت کشش ہے۔ کون ہے جسے لندن میں رہنا پسند نہ ہو۔ پھر اگر استطاعت بھی ہو تو کیا کہنے!! مگر پاکستان کے عوام اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ حکومت کرنے کے لیے پاکستان میں رہا جائے اور حکومت نہ ملے تو لندن کو مستقر بنایا جائے‘ یہاں تک کہ عید بھی لندن میں کی جائے! میاں صاحب کو یہ تاثر زائل کرنا چاہیے! لازم ہے کہ وہ اپوزیشن میں بیٹھیں! اور لوگوں کی یہ غلط فہمی دور کر دیں کہ وہ حکمرانی کے بغیر پاکستان میں نہیں رہ سکتے! یوں بھی رائیونڈ کے محلات اور وسیع و عریض جاگیر لندن سے کم نہیں!
ووٹ دینے والوں کی اکثریت عمران خان کو وزیراعظم دیکھنا چاہتی ہے۔ ہم فرض کرتے ہیں کہ عمران خان رہا ہو جاتے ہیں اور وزیراعظم بن جاتے ہیں! ہم یہ بھی فرض کرتے ہیں کہ پنجاب اور کے پی میں بھی انہی کی حکومت ہو گی۔ اس صورت میں ذہن کچھ سوالات اٹھاتا ہے۔ کیا وہ پہلے کی طرح پنجاب کو اپنی مٹھی ہی میں رکھنا چاہیں گے؟ اگر اب کے بھی ان کی خواہش یا پالیسی یہی ہوئی تو اس مقصد کے لیے کیا پھر کسی بزدار کا انتخاب کیا جائے گا؟ کیا پھر پنجاب میں سیکرٹریوں‘ ڈپٹی کمشنروں‘ کمشنروں اور پولیس افسروں کی میوزیکل چیئر کھیلی جائے گی؟ کیا تقرریوں‘ تبادلوں اور ترقیوں کے لیے پھر روپیہ فیصلہ کن کردار ادا کرے گا؟ گجر صاحب کا کیا کردار ہو گا؟ کیا وہ اور ان کی بیگم‘ عمران خان کے دوبارہ وزیراعظم بننے کے بعد پاکستان واپس آجائیں گی؟ کیا زلفی بخاری‘ جو عمران خان کو مصیبت میں دیکھ کر واپس بیرونِ ملک چلے گئے‘ واپس آکر پھر سے کوئی اہم ذمہ داری سنبھالیں گے؟ کیا شہباز گل صاحب بھی امریکہ سے واپس آکر‘ ایک بار پھر‘ چیف آف سٹاف یا ترجمان کے طور پر فرائض سرانجام دیں گے؟ کیا شیخ رشید کے ساتھ دوبارہ ان کا اتحاد ہو گا؟ چودھری پرویز الٰہی نے استقامت کا مظاہرہ کیا ہے۔ کئی ماہ سے جیل میں ہیں! تحریک انصاف کو نہیں چھو ڑا۔ عمران خان انہیں یقینا کسی بڑے منصب سے نوازیں گے! مگر کیا وہ اعتراف کریں گے کہ پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہنے والی بات غلط تھی؟ کیا عمران خان اپنے دوسرے عہدِ اقتدار میں پہلے کی نسبت ‘ قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں باقاعدگی سے شرکت کیا کریں گے؟
کیا عمران خان اس بار بھی‘ ہر روز‘ ہیلی کاپٹر ہی کے ذریعے دفتر آیا جایا کریں گے یا یورپ کے ان حکمرانوں کی طرح عام شہریوں کا انداز اپنائیں گے جن کی وہ مثالیں دیتے رہے ہیں؟ کیا اس بار بھی بڑے بڑے مناصب پر تقرریوں کے فیصلے افسروں کی تصویریں دیکھ کر کیے جائیں گے؟ کیا زرداریوں اور شریفوں سے دولت واپس لینے کی کوششیں دوبارہ کی جائیں گی؟ اور کیا شہزاد اکبر صاحب دوبارہ وہی ذمہ داریاں سنبھالیں گے؟
عمران خان طالبان کے لیے ہمیشہ سے دل میں نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے دورِ حکومت میں کوشش کی کہ ٹی ٹی پی (جو پاکستان پر مسلسل حملے کر رہی ہے) کے پانچ ہزار ارکان اپنے خاندانوں سمیت پاکستان منتقل ہو جائیں۔ اس امر کے بارے میں کبھی کوئی وضاحت نہیں ہوئی کہ کیا یہ افراد اپنے ہتھیاروں سمیت منتقل ہونے تھے یا غیر مسلح ہو کر؟ دوبارہ وزیراعظم بننے کی صورت میں کیا عمران خان اسی پالیسی پر عمل پیرا ہوں گے؟ سعودی عرب کے ساتھ ان کے زمانے میں تعلقات بہت اچھے نہیں رہے تھے۔ اس میں‘ مبینہ طور پر‘ کسی گھڑی کا بھی معاملہ تھا۔ شہزادے کے جہاز پر سوار ہو کر عمران خان امریکہ گئے تھے۔ واپسی پر کچھ ہوا اور یہ جہاز سفر کے دوران ہی واپس منگوا لیا گیا۔ ایک اور دراڑ یوں بھی پڑی تھی کہ عمران خان‘ مہاتیر اور اردوان اسلامی کانفرنس کے مقابلے میں ایک اور تنظیم کھڑی کرنا چاہتے تھے۔ روایت ہے کہ خان صاحب‘ کسی ملک کے کہنے پر‘ پیچھے ہٹ گئے اور پھر اس ملک کا نام بھی لے لیا تھا۔ بین الاقوامی تعلقات اور پاکستان کی خارجہ پالیسی کے طالب علم کے طور پر‘ ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ کیا عمران خان ان تعلقات کی تجدید کریں گے؟
عمران خان کے دورِ اقتدار میں عام شہریوں کے لیے صحت کارڈ جاری کیے گئے تھے۔ یہ ایک انتہائی عوام دوست پالیسی تھی۔ ان کی حکومت ختم ہونے کے بعد‘ بد قسمتی سے‘ یہ سہولت غیر اعلانیہ طور پر ختم کر دی گئی۔ کیا تحریک انصاف کی حکومت اس پالیسی کا احیا کرے گی؟ تحریک انصاف کی حکومت کا ایک اور تعمیری منصوبہ یہ تھا کہ دو یا تین پاکستانی جزیروں کو سیاحت کے نقطۂ نظر سے ڈویلپ کرنا تھا۔ اس میں رخنہ یہ آن پڑا کہ سندھ حکومت نے اس منصوبے کی اجازت نہ دی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ عمران خان اپنے عہدِ اقتدار میں کسی سیاسی مخالف کے ساتھ بات کرتے تھے نہ ہاتھ ملا تے تھے۔ جب کراچی جاتے تھے تو سندھ کے وزیراعلیٰ کو ان کے دورے کی خبر ہوتی تھی نہ وزیراعلیٰ کو کسی اجلاس میں بلایا جاتا تھا۔ تعلقات کا یہ انقطاع بھی ان جزیروں کے ترقیاتی منصوبے کی ناکامی کا سبب تھا۔ عمران خان اپنے مخالفین کو چور اور ڈاکو کہتے تھے۔ اپوزیشن کا ان کے نزدیک وجود ہی نہ تھا! اس بچکانہ رویے نے کاروبارِ حکومت کو متاثر کیا۔ ویسے عمران خان نے اس بات کا جواب کبھی نہیں دیا کہ جس سیاستدان کو وہ پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہتے تھے‘ اس کے ساتھ ان کے تعلقات انتہائی گہرے کیوں تھے۔ اسے ان کے زمانے میں بہت بڑا منصب ملا۔ اس کے بیٹے کو وزارت دی گئی۔ اصولی طور پر خان صاحب کو باقی چوروں سے بھی ہاتھ ملا لینا چاہیے تھا یا پھر کسی سے بھی نہ ملاتے!
کیا دوبارہ وزیراعظم بننے کے بعد بھی وہ اپوزیشن کے وجود کو تسلیم نہیں کریں گے؟ ان سوالوں کا جواب وقت ہی دے گا۔ بہر طور‘ عوام کے فیصلے کا احترام لازم ہے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں