اپنے کالج میں

میں پھر رہا تھا برآمدوں میں اور راہداریوں میں! کمروں میں جھانک رہا تھا۔ گراؤنڈ کا چکر لگایا مگر وہاں بھی کوئی نہ تھا!
لوگ تو موجود تھے! مگر جنہیں میں تلاش کر رہا تھا‘ ان میں سے کوئی نہیں نظر آ رہا تھا! میرے استاد کہاں تھے؟ پروفیسر اقبال بخت کیوں نہیں نظر آ رہے تھے؟ پڑھانے میں ان کا جواب نہ تھا اور خوش لباس اُن جیسا کوئی نہ تھا! پروفیسر سجاد حیدر ملک کہاں تھے جو انگریزی شاعری اور ڈراما پڑھاتے تھے۔ جنہیں معلوم تھا کہ لٹریچر کا ذوق طلبہ میں کیسے پیدا کیا جاتا ہے! جو خود سراپا لٹریچر تھے! پروفیسر اختر شیخ کلاس میں تھے نہ سٹاف روم میں! انہوں نے ہمیں برٹرنڈ رسل کے مشکل Sceptical Essays اس طرح پڑھائے تھے جیسے ان سے زیادہ سہل کوئی مضمون نہ ہو! پروفیسر اشفاق علی خان‘ جو ہمارے پرنسپل تھے‘ کہاں تھے؟ میرے ہم جماعت کہاں تھے؟ مسکراتا دانیال ہمیں کیوں نہیں ڈھونڈ رہا تھا؟ حسن زیدی کے گھر جا کر کھانا کہاں تھا! وہ کیوں غائب تھا؟ ٹی ایس ایلیٹ کی بلّی پر نظم‘ جس کا عنوان Macavity تھا‘ پڑھنے کے بعد ہم نے طاہر اکرام کا نام مکیویٹی رکھ دیا تھا‘ وہ بھی کہیں نہیں نظر آ رہا تھا! مولانا خلیق کہاں تھے؟ مہتاب نقوی‘ اختر کاظمی‘ قمر قریشی‘ پوری کلاس غائب تھی! کیا یہ وہی کالج ہے جہاں کئی دہائیاں پہلے میں پڑھتا تھا؟ برآمدوں‘ رہداریوں اور گراؤنڈ میں طلبہ اور طالبات آج بھی آ جا رہی تھیں۔ کسی کو معلوم تھا نہ پروا کہ یہ سفید ریش شخص کون ہے۔ یہاں کیا کر رہا ہے؟ کسے ڈھونڈ رہا ہے؟ انہیں کیا معلوم کہ میں اپنے آپ کو ڈھونڈ رہا تھا! میں وقت کو ڈھونڈ رہا تھا! مٹی کا ایک ایک ذرہ چھان رہا تھا مگر وقت نہیں مل رہا تھا! وہ ایک اور وقت تھا! ایک اور زمانہ تھا! وہ وقت لد چکا! وہ زمانہ گم ہو چکا! مگر کالج اب بھی موجود تھا! میرے دل میں آباد تھا! اس کے برآمدے‘ اس کی روشیں‘ اس کے کلاس روم‘ اس کے لیکچر ہال سب مجھ میں آباد تھے! یوں کہ کبھی دل سے نکلے ہی نہیں! آج میں جو کچھ بھی تھا‘ افتاں و خیزاں جہاں تک پہنچا‘ جو بھی ٹوٹی پھوٹی پہچان بنائی‘ جو کچھ حاصل کیا‘ اس میں اس درسگاہ کا‘ اس کے اساتذہ کا‘ اس کے کمروں کا‘ اس کی رہداریوں کا‘ اس کے باغ کے پھولوں کا‘ اس کی مٹی کا بہت بڑا عمل دخل ہے!
میں مدتوں بعد اپنی مادردرسگاہ کو پلٹا تھا! گورنمنٹ کالج اصغر مال!! مجھے فخر ہے کہ میں اس کا طالبعلم رہا ہوں! اس کی مٹی میرے لیے مقدس ہے! اس کے در و دیوار تو کیا‘ اس کی گھاس کا ایک ایک تنکا میرا محسن ہے! میں نے یہاں ادب پڑھا! ادب سیکھا! یہاں زندگی گزارنے کا نہیں‘ زندگی بسر کرنے کا ڈھنگ پایا! زندگی بھر اپنے اساتذہ کا پانی بھرتا رہوں تو ان کے احسانات کا بدلہ نہ چُکا سکوں۔ میرے لیے تو میرے اساتذہ کے قدموں کی دھول بھی مقدس ہے! ہم اساتذہ سے بچھڑ کر عملی زندگی کی پُرپیچ جدوجہد میں کھو جاتے ہیں! ملازمت‘ کاروبار‘ گھر بار‘ بیوی بچے‘ ذمہ داریاں اور فکرِ معاش اجازت ہی نہیں دیتے کہ اساتذہ کی زیارت مسلسل کرتے رہیں! اور ان کی خدمت کریں! زندگی کی ضروریات اور مکروہات آہنی پنجوں میں جکڑے رکھتی ہیں! جب بڑھاپا فراغت کی گھڑی لاتا ہے اور پلٹ کر دیکھتے ہیں تو اساتذہ جا چکے ہوتے ہیں! پھر کفِ افسوس ملتے ہیں! خدا انہیں اپنی بے پایاں رحمتوں سے نوازے!
اچانک مجھے اپنا نام سنائی دیتا ہے۔ پلٹ کر دیکھتا ہوں۔ یہ کالج کے موجودہ پرنسپل ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر عبد الکبیر محسن! عربی ادب کے استاد‘ سکالر‘ کئی کتابوں کے مصنف اور مترجم! وہ مجھے اپنے دفتر لے جاتے ہیں! یہ وہی کمرہ ہے جہاں ہمارے پرنسپل‘ پروفیسر اشفاق علی خان اور ان کے بعد پروفیسر ڈاکٹر سید صفدر حسین بیٹھا کرتے تھے۔ تب ہمیں اس کمرے میں داخل ہونے سے پہلے سو بار سوچنا پڑنا تھا! دیوار پر سابق پرنسپل صاحبان کی تصویریں آویزاں تھیں۔ کرسی پر بیٹھتے ہوئے مجھے یوں لگا جیسے اپنے پرنسپل صاحبان کی تصویروں کی موجودگی میں بیٹھ کر میں سوء ادب کا مرتکب ہو رہا ہوں! مجھے کھڑا رہنا چاہیے تھا۔کچھ دیر کے بعد پرنسپل صاحب کالج کے وسیع و عریض آڈیٹوریم میں لے جاتے ہیں! آڈیٹوریم طلبہ اور طالبات سے بھرا ہوا ہے! اساتذہ بھی موجود ہیں! پرنسپل صاحب سٹیج پر اپنے ساتھ بیٹھنے کا اعزاز عطا کرتے ہیں! ہال میں شور ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر وسیم باقر ڈائس سنبھالتے ہیں! وہ دایاں ہاتھ بلند کرکے ایک بار، صرف ایک بار‘ کہتے ہیں ''آواز نہ آئے‘‘ اور ہال میں سناٹا چھا جاتا ہے! پروفیسر صاحب میرا تعارف کرانے کے بعد مجھے طلبہ و طالبات سے گفتگو کرنے کا حکم دیتے ہیں! میں طلبہ اور طالبات کو بتاتا ہوں کہ میری سب سے بڑی کوالیفکیشن‘ سب سے بڑا اعزاز اور سب سے بڑی اہلیت یہ ہے کہ میں اس کالج کا طالب علم رہا ہوں! میں انہیں بتاتا ہوں کہ جو اساتذہ آج اس کالج میں پڑھا رہے ہیں وہ بھی میرے لیے قابلِ احترام ہیں۔ میں انہیں ایک ضعیف العمر شخص کے بارے میں بتاتا ہوں جسے میں نے ایک ڈیڑھ سالہ بچی کے پاؤں چومتے دیکھا تھا! پوچھنے پر اس نے بتایا تھا کہ یہ بچی اُس کے استاد کی پڑپوتی ہے اور‘ اپنے استاد کی نسبت سے‘ اس کے لیے قابلِ احترام ہے! میں انہیں بتاتا ہوں کہ علم اور رزم گاہِ زندگی میں کامیابی‘ استاد کا ادب اور احترام کرنے سے حاصل ہوتی ہیں! طلبہ و طالبات کے ساتھ سوال جواب کا سیشن چلتا ہے۔
تشویشناک معاملہ یہ ہے کہ اصغر مال کالج کی اصل‘ قدیم عمارت خستہ شکستہ حالت میں ہے۔ یہ ایک یاد گار عمارت ہے۔ اس کی حیثیت تاریخی ہے۔ یہ راولپنڈی کا بہت نمایاں لینڈ مارک ہے۔ مگر افسوس کہ پنجاب حکومت کے متعلقہ محکمے اس عمارت کی مرمت‘ تجدید‘ تزین اور آرائش سے یکسر غافل ہیں۔ محکمۂ تعلیم اور محکمۂ عمارات دونوں کو اس ضمن میں اپنے اپنے فرائض کا احساس کرنا چاہیے! پنجاب کے مستعد اور محنتی وزیراعلیٰ جناب محسن نقوی کی خدمت میں خصوصی گزارش ہے کہ اس عمارت کی بقا اور Renovation کے لیے ضروری احکام جاری کریں اور وزارتِ خزانہ کو فنڈز کی فراہمی کا حکم بھی دیں!
اصغر مال کالج کی یہ عمارت 1913ء میں سناتن دھرم ہائی سکول کے لیے تعمیر کی گئی تھی۔ پاکستان بنا تو پنجاب حکومت نے 1948ء کے اواخر میں اسے کالج کا درجہ دے دیا! گزشتہ پون صدی کے دوران اس عظیم الشان تعلیمی ادارے میں ہزاروں لاکھو ں نونہالانِ وطن نے تعلیم پائی! یہ سلسہ بدستور جاری ہے۔ یہاں سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ و طالبات ملک کے مختلف شعبوں میں کام کر کے قومی ترقی میں اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں! بجا کہ نئے بلاک تعمیر ہو گئے ہیں مگر کالج کی اصل شناخت پرانی اور اصل عمارت ہی سے ہے۔ اس کے سرخ‘ منفرد نوعیت کے مینار کالج کی پہچان ہیں! ان کا تحفظ لازم ہے! زندہ قومیں افسروں اور حکمرانوں کے محلات کی تعمیر و تزیین کو نہیں بلکہ تعلیمی عمارات کو فوقیت دیتی ہیں! کالج کے وسیع و عریض احاطے میں اتنی گنجائش موجود ہے کہ اساتذہ کی قیام گاہیں تعمیر کی جا سکیں! کثیر المنزلہ اپارٹمنٹس بنائے جا سکتے ہیں اور بنانے چاہئیں! کتنا بڑا المیہ ہے کہ کلرک سے لے کر سیکشن افسر تک اور مجسٹریٹ سے لے کر کمشنر تک‘ تمام سرکاری ملازموں کو سرکاری قیام گاہیں دی جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ سرکار کی طرف سے ان کے گھروں میں ٹیلیفون بھی لگائے جاتے ہیں۔ ان کے موبائل ٹیلی فونوں کا بار بھی قومی خزانے پر پڑتا ہے مگر اساتذہ کو‘ جو ہماری آئندہ نسلوں کے معمار ہیں‘ ان کو بنیادی سہولتوں سے محروم رکھا جاتا ہے! ہماری موجودہ عبرتناک حالت کا بہت بڑا سبب یہ ہے کہ ہم تعلیم اور اساتذہ کو وہ مقام نہیں دے رہے جو ترقی یافتہ ملکوں میں دیا جاتا ہے! اس مائینڈ سیٹ کو تبدیل نہ کیا گیا تو ہم اسی طرح اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہیں گے!!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں