وسط ایشیا کے کسی شہر کے لوگ کنجوسی میں اپنی مثال آپ تھے۔ اس ضمن میں ایک حکایت ہے کہ اُس شہر سے تعلق رکھنے والے چار دوست سفر کر رہے تھے۔ کھانے کے لیے انہوں نے دکان سے گوشت خریدا۔ یہ گوشت صرف چار بوٹیوں پر مشتمل تھا۔ پکانے کے لیے دیگچی چولہے پر چڑھائی گئی۔ ہر شخص نے بوٹی کو دھاگے سے باندھا۔ بوٹی کو دیگچی میں ڈالا اور دھاگے کا دوسرا سرا ہاتھ میں پکڑ لیا۔ آخر وقت تک سب نے اپنی اپنی بوٹیوں کے دھاگے پکڑے رکھے۔ رہا شوربہ‘ تو وہ برابر برابر تقسیم کر لیا۔ ہمارے اہلِ سیاست کا یہی حال ہے۔ دیگچی میں گوشت پک رہا ہے۔ سب نے اپنی اپنی بوٹیاں نشان زد کی ہوئی ہیں۔ مگر جھگڑا پڑا ہوا ہے۔ جن کے پاس بوٹی نہیں‘ وہ بھی حصہ مانگ رہے ہیں۔ ان کی دلی خواہش یہ ہے کہ اگر انہیں کچھ نہیں ملتا تو دیگچی ہی اُلٹا دی جائے! دستبردار ہونے کو کوئی تیار نہیں! دھاگہ چھوڑنا تو دور کی بات ہے‘ گرفت ڈھیلی بھی کوئی نہیں کر رہا!! دعا کیجیے دیگچی سلامت رہے!
ہماری تاریخ عجیب و غریب ہے۔ آج تک کسی وزیراعظم نے اپنی مدت پوری نہیں کی اور سوائے یحییٰ خان کے جتنے آمر آئے‘ دس سال سے کم کسی کا تسلط نہیں رہا! لیاقت علی خان چار سال 63دن وزیراعظم رہے۔ خواجہ ناظم الدین کی وزارتِ عظمیٰ ایک سال 182دن رہی۔ محمد علی بوگرہ دو سال 117دن‘ چودھری محمد علی ایک سال 31دن‘ سہروردی صاحب ایک سال 35دن‘ آئی آئی چندریگر صرف 55دن اور فیروز خان نون صرف دو سو 95دن!! اس کے بعد جنرل ایوب خان نے کم و بیش گیارہ سال حکومت کی! نور الامین صرف 13دن وزیراعظم رہے! بھٹو صاحب کی وزارتِ عظمیٰ کی مدت تین سال 325دن سے زیادہ نہ ہو سکی! پھر جنرل ضیاء الحق نے پورے دس سال بادشاہت کی! اس نے اپنے مہیب پروں کے نیچے جونیجو صاحب کو وزارتِ عظمیٰ کا لولی پاپ دیا وہ بھی صرف تین سال 66دن کے لیے! بے نظیر بھٹو پہلی بار وزیراعظم بنیں تو صرف ایک سال اور 247دنوں کے لیے! پھر نواز شریف نے دو سال 254دن حکومت کی۔ بے نظیر کی دوسری مدت بھی تین سال 17دن سے زیادہ نہ ہو سکی! نواز شریف دوسری بار دو سال 237دن وزیراعظم رہے۔ جنرل پرویز مشرف نے‘ اپنے پیشرو آمروں کی پیروی میں‘ دس سال حکمرانی کے مزے لُوٹے! اس دوران اپنے مُغبچوں کے منہ میں چوگ بھی ڈالتے رہے۔ جمالی صاحب کو وزارتِ عظمیٰ کی یہ چوگ ایک سال 216دن کے لیے ملی۔ چودھری شجاعت حسین 54دن کے لیے وزیراعظم بنے۔ آرڈر پر بنے ہوئے پلاسٹک کے وزیراعظم‘ شوکت عزیز‘ اس لاٹری سے تین سال 80دن کے لیے لطف اندوز ہوئے۔ یوسف رضا گیلانی کی مدت چار سال 86دن رہی۔ راجہ پرویز اشرف صرف 275دن وزیراعظم رہے۔ نواز شریف تیسری بار وزیراعظم بنے تو ان کی مدت چار سال 53دن سے زیادہ نہ تھی۔ شاہد خاقان عباسی صرف 303دن وزیراعظم رہے۔ عمران خان کی مدت تین سال 235دن سے زیادہ نہ ہو سکی۔ اس کے بعد شہباز شریف وزیراعظم بنے۔ ان کی حکومت ایک سال 125دن رہی۔ طویل ترین مدت یوسف رضا گیلانی کی رہی‘ یعنی چار سال 86دن!! تقسیمِ ہند کے بعد‘ 77برسوں میں ہم نے 23 وزرائے اعظم دیکھے۔ ان 77برسوں میں سے 33سال آمریت کے نکال دیجیے‘ باقی بچے 44سال! گویا ان 23 وزرائے اعظم کا کُل عرصۂ حکمرانی 44سال تھا یعنی اوسطاً ہر ایک کا عرصہ دو سال سے کم!! دوبارہ نوٹ کیجیے: 44برسوں میں 23 وزرائے اعظم۔ اس کے مقابلے میں بھارت کی صورتِ حال پر بھی غور فرما لیجیے۔
77برسوں کے دوران چودہ وزرائے اعظم!! اوسطاً ہر وزیراعظم نے ساڑھے پانچ سال حکومت کی! نہرو کا عرصۂ حکومت سولہ سال سے زیادہ تھا۔ اندرا گاندھی پہلی بار گیارہ سال اور دوسری بار چار سال سے زیادہ وزیراعظم رہیں۔ من موہن سنگھ دس سال وزیراعظم رہے۔ مودی کا یہ دسواں سال ہے! اس طویل موازنے کے بعد ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے کہ جن سے ہم الگ ہوئے تھے وہ کہاں کھڑے ہیں اور ہم نے اپنا کیا حال کر رکھا ہے! یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا سیاست دانوں کے تعاون کے بغیر آمریت کا دور دس دس‘ گیارہ گیارہ سال تک رہ سکتا تھا؟ ہمیں سب سے پہلے اُن سیاست دانوں کی فہرستیں تیار کرنی چاہئیں جنہوں نے آمروں کے ادوار میں مناصب قبول کیے اور آمروں کے ہاتھ مضبوط کیے۔ اگر ہم میں‘ من حیث القوم‘ عزتِ نفس ہوتی تو آمروں کے ساتھیوں کو کسی بھی جمہوری حکومت میں شامل نہ کیا جاتا! ایسا کیا جاتا تو مقتدرہ کو بھی سبق حاصل ہوتا! مگر ہم عجیب لوگ ہیں۔ آمریت کی مذمت بھی کرتے ہیں اور آمروں کے پُشتیبانوں کو سر پر بھی بٹھاتے ہیں!
جنرل قمر جاوید باجوہ نے فوج کی کمان چھوڑتے وقت جو باتیں کہیں وہ مقتدرہ سمیت قوم کے ہر شعبے کے لیے لمحۂ فکریہ ہیں۔ یہ باتیں انہوں نے 23نومبر 2022ء کو یومِ شہدائے پاکستان کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہیں۔ میڈیا نے ان کی جو تقریر رپورٹ کی اس کی رُو سے ان کا کہنا تھا ''دنیا میں سب سے زیادہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہندوستانی فوج کرتی ہے۔ لیکن ان کے عوام کم ہی ان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ اس کے برعکس ہماری فوج دن رات قوم کی خدمت میں مصروف رہتی ہے‘ اور پھر بھی تنقید کا نشانہ بنتی ہے۔ میرے نزدیک اس کی بڑی وجہ 70سال سے فوج کی مختلف صورتوں میں مداخلت ہے جو غیر آئینی ہے‘‘۔ گویا سطورِ بالا میں پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کی حکومتی مدتوں کا جو تقابل پیش کیا گیا ہے‘ اس کا سبب جنرل قمر جاوید باجوہ نے انتہائی جامعیت کے ساتھ نہ صرف اپنی قوم کے سامنے بلکہ پوری دنیا کے سامنے رکھ دیا ہے۔ اس کے بعد جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ''پچھلے سال فروری میں فوج نے بڑی سوچ بچار کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ آئندہ فوج کسی سیاسی معاملے میں مداخلت نہیں کرے گی۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم اس پر سختی سے کاربند ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے‘‘۔
اس وقت ہم جس افراتفری اور غیر یقینی صورتِ حال کا سامنا کر رہے ہیں‘ اس کے اسباب ہم سب جانتے ہیں اور بخوبی جانتے ہیں۔ یہ اسباب بیان کیے جائیں یا نہ کیے جائیں‘ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا! بقول سعدی:
گر نہ بیند‘ بروز‘ شپرہ چشم
چشمۂ آفتاب را چہ گناہ
دن کے اجالے میں بھی اگر چمگادڑ کی آنکھ دیکھنے سے قاصر ہے تو اس میں سورج کا کیا قصور ہے؟
واپس دیگچی کی طرف چلتے ہیں! دیگچی بچانے کی ایک ہی صورت ہے۔ سب اپنی اپنی بوٹی سے تھوڑا سا حصہ کاٹ کر اُن کے دہانوں میں ٹھونسیں جن کے پاس بوٹی نہیں ہے۔ شوربے کا بھی ایک ایک گھونٹ انہیں بخشش میں دیں! ورنہ یہ طفیلی اس قدر شور و غوغا برپا کریں گے اور اتنی بدامنی پھیلائیں گے کہ اصل مالک بھی اپنی اپنی بوٹی نہیں کھا سکیں گے۔ کسی کو تو قربانی دینا پڑے گی۔ قربانی وہی دیتا ہے جو مخلص ہو۔ دو عورتوں میں بچے کے بارے میں جھگڑا تھا۔ دونوں ماں ہونے کا دعویٰ کر رہی تھیں۔ جج نے فیصلہ کیا کہ بچے کے دو ٹکڑے کر کے دونوں کو ایک ایک ٹکڑا دے دیا جائے۔ جعلی ماں نے کہا: ٹھیک ہے۔ اصل ماں تڑپ اٹھی اور کہنے لگی: سارا بچہ دوسری عورت کو دے دیا جائے تاکہ بچے کی زندگی سلامت رہے! اصل ماں اور جعلی ماں میں فرق کرنا بہت ضروری ہے!