وزیراعظم مودی کے دو چہرے ہیں۔ ایک چہرہ اس دنیا کے لیے ہے جو بھارت سے باہر ہے۔ یہ چہرہ متین‘ نرم اور متبسّم ہے! بھارت کے روزنامہ ''ہندو‘‘ نے تازہ ترین اشاعت میں لکھا ہے کہ بھارت اور متحدہ عرب امارات دونوں ''برداشت اور اجتماعیت‘‘ جیسی اقدار کے مشترکہ مالک ہیں! بھارت کی اس سفارتی کامیابی سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس نے دنیا کے سامنے جو چہرہ رکھا ہوا ہے‘ دنیا سمجھ رہی ہے کہ وہی اصل چہرہ ہے! مشرقِ وسطیٰ کی کچھ ریاستیں بھارت کے اس دوغلے پن کی خاص طور پر شکار ہو رہی ہیں! سفارتی محاذ پر اسے پاکستان کی ناکامی بھی کہا جا سکتا ہے۔ کیا یہ بات حیرت انگیز نہیں کہ 2014ء سے لے کر آج تک مودی سات مرتبہ یو اے ای کا دورہ کر چکے ہیں۔ جی ہاں! نو سال میں سات بار!! ابھی ابھی دبئی میں جو ورلڈ گورنمنٹ سمٹ (World Government Summit) منعقد ہوئی ہے‘ اس میں بھی مودی نے شرکت کی ہے۔ جہاں تک ہماری معلومات کا تعلق ہے‘ پاکستان کی نمائندگی نہیں تھی۔ بھارت اور یو اے ای کے درمیان دس دو طرفہ معاہدے بھی ہوئے ہیں۔ باہمی سرمایہ کاری کے معاہدے پر بھی دستخط کیے گئے ہیں۔ یو اے ای دنیا کا واحد ملک ہے جس کے ساتھ بھارت کا نہ صرف تجارتی معاہدہ ہے بلکہ سرمایہ کاری کا معاہدہ بھی ہے۔ ان دس معاہدوں کی تفصیلات ہوشربا ہیں۔ شاید ہی کوئی ایسا شعبہ ہو جس میں دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ مربوط نہیں! اب تو یو اے ای برکس (BRICS) کا بھی رکن بن گیا ہے۔ بھارت پہلے ہی اس کا رکن ہے۔ اس حوالے سے بھی دونوں ملک مل کر کام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں! مودی نے حالیہ دورے کے دوران ابو ظہبی میں بنائے گئے مندر کا بھی افتتاح کیا ہے!! یہ بھی یاد رہے کہ دبئی میں ہر تیسرا شخص بھارتی ہے۔ یعنی شہر کی 33فیصد آبادی بھارت سے ہے!
اوپر برکس (BRICS) کا ذکر کیا گیا ہے! برکس کیا ہے؟ یہ بنیادی طور پر چار ملکوں کی تنظیم تھی۔ برازیل‘ روس‘ انڈیا اور چین کی! تب اس کا نام برک (BRIC) تھا۔ یہ جنوب کے ملکوں کی انجمن ہے جو اس زاویے سے بنائی گئی کہ شمال کے ممالک جیسے امریکہ اور مغربی یورپ کے ممالک‘ جو عالمی معیشت پر چھائے ہو ئے ہیں‘ ان کا مقابلہ کیا جائے۔ بعد میں جنوبی افریقہ کو بھی شامل کر لیا گیا یوں برک کے آخر میں ساؤتھ افریقہ کا ''ایس‘‘ لگا اور تنظیم کا نام برکس (BRICS) ہو گیا۔ سالِ رواں میں چھ مزید ممالک (سعودی عرب‘ ایتھوپیا‘ یو اے ای‘ مصر‘ ارجنٹائن اور ایران) اس کے رکن بنے ہیں۔ پاکستان نے عرضی تو ڈالی ہوئی ہے مگر اس ضمن میں خوش فہمی پالنے کی ضرورت نہیں! بھارت پوری کوشش کر رہا ہے کہ پاکستان کی رکنیت روکی جائے۔ پاکستان کا اندرونی عدم استحکام بھی اس ناکامی کا سبب ہے! پھر رکن ممالک کی باہمی پالیٹکس بھی کردار ادا کرتی ہے!! مجموعی طور پر عالمی حوالے سے ہم روز بروز پیچھے ہی جا رہے ہیں!!
یہ جو روزنامہ ''ہندو‘‘ نے دعویٰ کیا ہے کہ ''برداشت اور اجتماعیت‘‘ یو اے ای اور بھارت کی مشترکہ اقدار ہیں‘ اس سے بڑا دردناک اور سفاک مذاق شاید ممکن ہی نہیں! تازہ ترین خبر یہ ہے کہ مغربی بنگال میں انتہا پسند ہندو عدالت گئے ہیں صرف اس لیے کہ ایک شیرنی اور شیر چڑیا گھر میں اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ شیر کا نام اکبر ہے‘ شیرنی کا نام‘ ایک ہندو دیوی کے نام پر‘ سیتا ہے۔ اکبر یعنی شہنشاہ اکبر‘ جتنا بھی آزاد خیال تھا اور ہندوئوں پر مہر بان تھا‘ تھا تو مسلمان! اس لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ اکبر نامی شیر سیتا نامی شیرنی کے ساتھ رہ سکے!! یہ ہلکی سی جھلک ہے بھارتی ''برداشت‘‘ کی!! یہ مائنڈ سیٹ مودی کا لایا ہوا ہے۔ یہ ہے اصل چہرہ وزیراعظم مودی کا جسے باہر کی دنیا دیکھنے سے قاصر ہے یا جان بوجھ کر دیکھنا نہیں چاہتی۔ بی جے پی کی حکومت میں کون سا ظلم ہے جو مسلمانوں پر نہیں کیا جا رہا! مودی کے دو قریبی رفقا اس معاملے میں پیش پیش ہیں۔ امیت شاہ اور ادتیہ ناتھ! امیت شاہ وزیر داخلہ ہے۔ مودی کے پرانے ساتھیوں میں سے ہے۔ ماضی میں بی جے پی کا صدر بھی رہا ہے۔ گجرات میں مودی نے جتنے مظالم مسلمانوں پر ڈھائے‘ امیت شاہ ان میں برابر کا ذمہ دار ہے۔ ادتیہ ناتھ ایک متعصب پنڈت ہے۔ 24کروڑ آبادی والی بھارتی ریاست یو پی کا وزیراعلیٰ ہے۔ شہروں کے نام بدلنے کا یہی ذمہ دار ہے۔ جس شہر کے نام میں بھی مسلمانوں کی جھلک نظرآتی ہے‘ اس کا نام بدل دیتا ہے۔ الہ آباد‘ علی گڑھ‘ آگرہ اور کئی اور شہروں کے نام بدل دیے گئے ہیں! ادتیہ ناتھ کی مسلم دشمنی کا یہ عالم ہے کہ اس نے تقریر کرتے ہوئے ہندو نوجوانوں کو باقاعدہ اُکسایا کہ وہ مسلمان خواتین کے ساتھ زیادتی کریں! اسے مودی کا جانشین بھی کہا جاتا ہے۔ اگر خدانخواستہ ادتیہ ناتھ وزیراعظم بنا تو مودی سے چار ہاتھ آگے ہو گا!
جب سے بی جے پی کی یعنی مودی کی حکومت آئی ہے‘ مسلمانوں کی زندگی جہنم بنانے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ گائے کے نام پر سینکڑوں مسلمان مارے جا چکے ہیں! مسلمانوں کو ان کے گھروں میں گھس کر لوٹا اور قتل کیا جاتا ہے۔ کوئی مسلمان گائے فروخت کرنے بھی جارہا ہو تو مار دیا جاتا ہے۔ کل پرسوں ہی ایک امام مسجد کو شہید کیا گیا ہے۔ آسام میں مسلمان دشمنی زوروں پر ہے۔ وہاں صدیوں سے رہنے والے مسلمانوں سے شہریت کے ثبوت مانگے جا رہے ہیں۔ مسلمانوں سے شہریت چھینی جا رہی ہے اور زرعی اراضی سے بے دخل کیا جا رہا ہے! آسام کا چیف منسٹر ہمنتا بسوا شرما بی جے پی کا رکن ہے۔ اس نے مسلمانوں کو زمین سے بے دخل کرنے کا لمبا چوڑا منصوبہ بنایا ہے۔ اس نے تقریر میں یہ بھی کہا ہے کہ لوگ مغلوں کے جبر کی وجہ سے مسلمان ہو گئے تھے۔ اب اگر انہیں زرعی زمین چاہیے تو واپس ہندو ازم کو قبول کریں! ایسا کرنے والا زمین کا حقدار ہو جائے گا! ایودھیا کی بابری مسجد کے بعد باقی مسجدوں کو منہدم کرنے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ یہ ہے وہ ''برداشت‘‘ جس کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے!
یہ درست ہے کہ بھارت کے مسلمانوں اور مسلمانوں کے آثار کا تعلق بنیادی طور پر پاکستان سے ہے۔ مگر باقی مسلم ممالک‘ بھارتی مسلمانوں پر کیے جانے والے مظالم سے لا تعلق کس طرح رہ سکتے ہیں؟ بدقسمتی سے پاکستان ایک معاشی اور سیاسی گرداب میں پھنسا ہوا ہے اور اس پوزیشن میں نہیں کہ بھارت کی چیرہ دستیوں کو روک سکے۔ دوسری طرف مسلم ممالک بے حسی اور خود غرضی کا شکار ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ اُمہ کے وجود پر بہت بڑا سوالیہ نشان لگا ہوا ہے۔ اُمہ کہاں ہے؟ مسلم ممالک‘ مسلمان اقلیتوں کی کیا مدد کریں گے‘ وہ تو ایک دوسرے کے دشمن ہو رہے ہیں! غزہ کے مسلمانوں کے لیے اُمہ نے کیا کیا ہے؟ اسرائیل کے ساتھ قربتوں کے تانے بانے بُنے جا رہے ہیں! ایران‘ یو اے ای اور کچھ اور مسلم ملکوں کے تعلقات بھارت سے بہت دوستانہ ہیں۔ یہ ممالک ایک ہلکا سا اشارہ بھی کر دیں تو بھارت کا رویہ بھارت کے مسلمانوں کے ساتھ تبدیل ہونے میں دیر نہیں لگے گی مگر سوال یہ ہے کہ یہ ممالک ایسا کیوں کریں گے؟ ''نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر‘‘ والی میٹھی اور سہانی باتیں قوالیوں اور ترانوں کی حد تک تو درست ہیں‘ حقیقی دنیا میں ان کا کوئی وجود نہیں! ڈفلی بھی اپنی اپنی ہے اور راگ بھی اپنا اپنا !!