پہلی بار عصا پکڑنے کی ضرورت اُس وقت محسوس ہوئی جب میں ابھی‘ نسبتاً‘ جوان تھا۔
طبیعت خراب ہوئی تو وفاقی دار الحکومت کے سب سے بڑے ہسپتال میں لے جایا گیا۔ وہاں ایک بہت بڑے ڈاکٹر صاحب تھے۔ ان کے نام کے ساتھ ڈگریوں کی قطار لگی تھی۔ ساتھ یہ بھی لکھا تھا کہ مشرقِ وسطیٰ کے فلاں بادشاہ کے ذاتی معالج ( پرسنل فزیشن) رہے ہیں! ان کے علاج سے فائدہ تو کیا ہوتا‘ کئی مزید عارضے لاحق ہو گئے۔ یہاں تک کہ چلنے میں دقت ہونے لگی! بالآخر عصا کا سہارا لینا پڑا! ان بہت بڑے ڈاکٹر صاحب کی تشخیص ہی غلط تھی۔ چونکہ تشخیص غلط تھی اس لیے علاج بھی غلط تھا۔ وہ ایک ایسی بیماری کا علاج کرتے رہے جو دور دور تک نہیں تھی!
دوسری بار عصا کا سہارا تب لینا پڑا جب ایک فٹ پاتھ پر چلتے چلتے معلوم ہی نہ ہوا اور فٹ پاتھ ختم ہو گیا۔ پاؤں مُڑ گیا۔ دوسرے دن صبح اٹھا تو درد بے پناہ تھا! ایکس رے سے معلوم ہوا کہ ہیئر لائن (Hairline) فریکچر ہو گیا ہے۔ تھا تو ہیئر لائن مگر چلنا ممکن نہ رہا۔ پلستر کئی ہفتے لگا رہا۔ یہ 1998-99ء کے دن تھے۔ فروری1999ء میں‘ میرے دوست‘ مشہور شاعر غلام محمد قاصر کا انتقال ہوا تو میں پلستر لیے‘ بستر پر پڑا تھا۔ جنازے میں شرکت کے لیے پشاور جانا ممکن نہ تھا۔ قاصر کو ہیپاٹائٹس بی یا سی تھا۔ آخر تک وہ اپنی صحت کے بارے میں اچھی خبریں دیتا رہا۔فون پر اُس سے مسلسل رابطہ تھا۔ ہر بار یہی کہتا کہ بیماری تیس فیصد رہ گئی ہے یا یہ کہ پہلے سے چالیس فیصد افاقہ ہے۔ مگر ساری تسلیاں جھوٹی تھیں! قاصر کے کچھ اشعار تو ضرب المثل ہو چکے ہیں:
تم یونہی ناراض ہوئے ہو ورنہ میخانے کا پتا
ہم نے ہر اُس شخص سے پوچھا جس کے نَین نشیلے تھے
کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام ہی نہیں آتا
بہر طور‘ بستر سے اٹھا تو کئی ہفتے عصا پر چلنا پڑا!
تیسری بار عصا نے ٹھیک دس سال قبل دستگیری کی۔اچانک چُک پڑی۔ پٹھوں کے شدید کھنچاؤ نے چلنے سے معذور کر دیا۔ گھر کے ہر فرد نے دیکھ بھال کی مگر جو خدمت عصا نے کی‘ بے مثال تھی۔ وہاں بھی کام آیا جہاں ساتھ کوئی نہیں ہوتا تھا۔ رات رات بھر پلنگ کے ساتھ کھڑا رہتا! مخلص اور خدمت گار عصا!! یہ تینوں مواقع عارضی تھے۔تکلیف آئی۔ عصا نے سہارا دیا۔ تکلیف دور ہوئی تو عصا بھی رخصت ہو گیا۔ مگر لگتا ہے عصا سے‘ آہستہ آہستہ‘ وقت کے ساتھ ساتھ‘ مستقل دوستی رکھنا پڑے گی۔ بہت دیر بیٹھے رہنے کے بعد‘ اٹھتے وقت‘ اچانک تیز چل پڑنے سے چکر آنے لگتے ہیں۔ اصولی طور پر اٹھنے کے بعد کچھ دیر‘ چند سیکنڈ‘ کھڑا رہنا چاہیے۔ اس کے بعد چلنا چاہیے۔ مگر اٹھتے وقت یاد ہی نہیں رہتا کہ چند سیکنڈ توقف کرنا ہے۔ تیز چلنے کی عادت شروع سے ہے۔ اٹھتے ہی تیز رفتاری آغاز ہو جاتی ہے۔ بقول ظفر اقبال :
جاگ کر بھاگ اٹھے تھے یونہی بے سمت ظفرؔ
اب کھڑے سوچئے آوازہ کدھر سے آیا
اس کا حل یہ نکالا گیا کہ اٹھتے وقت عصا پکڑ لیا جائے تاکہ چکر آئے تو عصا مدد کرے۔ مگر جس طرح اٹھتے وقت چند سیکنڈ کھڑے رہنا یاد نہیں رہتا‘ بالکل اسی طرح عصا پکڑنا بھی یاد نہیں رہتا۔
ایک تصویر میں علامہ اقبال عصا کے ساتھ چلتے نظر آتے ہیں۔ فراق گورکھپوری یونیورسٹی جاتے تھے تو عصا ساتھ رکھتے تھے! اس کا مطلب یہ ہوا کہ کسی زمانے میں عصا ساتھ رکھنا رواج میں شامل تھا۔ اس کا عمر سے کوئی تعلق نہ تھا۔ جیسے گاؤں میں کسان اور گڈریے جوان ہوں‘ تب بھی عصا ساتھ رکھتے ہیں۔ گڈریے کے لیے تو عصا یوں بھی ضروری ہے کہ ریوڑ ہانکنے کے کام آتا ہے۔ جس درخت کو جنگلی زیتون کہا جاتا ہے اس کا نام مقامی زبان میں کؤو ہے۔ کسان اسی درخت کی لاٹھی کو ترجیح دیتا ہے۔ جب سفر پیدل یا گھوڑوں پر ہوتا تھا تب بھی عصا ساتھ رکھنا لازم ہوتا تھا کیونکہ کتوں اور دیگر جانوروں سے بچاؤ کے کام آتا تھا۔
عجیب بات ہے کہ عصا بیک وقت کمزوری کی علامت ہے اور طاقت کی بھی!! موسیٰ علیہ السلام کا عصا طاقت کی نشانی تھی۔ اقبال تو موسیٰ کی کلیمی کے لیے عصا کو لازم گردانتے ہیں :
رشی کے فاقوں سے ٹوٹا نہ برہمن کا طلسم
عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد
فاقوں سے یعنی عجز اور ضعف سے کام نہیں بنتا۔ کامیابی کے لیے قوت کی ضرورت ہے۔ حبیب جالب بھی اسی نتیجے پر پہنچے :
نہ گفتگو سے نہ وہ شاعری سے جائے گا
عصا اٹھاؤ کہ فرعون اسی سے جائے گا
فرعون کی شکلیں ہر عہد میں مختلف رہی ہیں! جناب موسیٰ کلیم اللہ یہ سبق سکھا گئے ہیں کہ فرعون جہاں بھی ہو‘ جس زمانے میں بھی ہو‘ جس صورت میں بھی ہو‘ علاقائی ہو یا بین الاقوامی ہو‘ جب تک اس کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑے نہیں ہو گے‘ فتح کا کوئی امکان نہیں ہو گا! غالب نے بھی تو یہی تلقین کی ہے :
عجز و نیاز سے تو نہ آیا وہ راہ پر
دامن کو آج اس کے حریفانہ کھینچئے
بعض اوقات منت سماجت‘ مذاکرات‘ دلائل‘ منطق‘ وظیفے‘ تعویذ کچھ بھی سود مند نہیں ہوتا! صرف ڈنڈا مدد کرتا ہے۔پنجابی میں مثال ہے :ڈنڈا پِیر اے وگڑیاں تگڑیاں دا۔علامہ نے بھی کہا ہے :
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
دوسری طرف یہی عصا پیری اور ناتوانی کی علامت ہے۔ مصحفی کے بقول تو دل سے آہ بھی خود نہیں اُٹھ سکتی جب تک کہ عصاکا سہارا نہ لے
اب دل سے بے عصا نہیں اٹھتی ہے آہ بھی
یاں تک تو ضعفِ قلب نے ہم کو بٹھا دیا
بڑھاپے پر مصحفیؔ کا ایک شعر بہت مشہور ہے :
بھلا درست اعضائے پِیر کیوں کر ہو
کہ جیسے رسّی سے ٹوٹا کواڑ باندھ دیا
نئی نسل کو کیا علم کہ کواڑ کیا ہوتا ہے اور جب وہ اکھڑتا ہے تو رسی سے جیسے باندھتے ہیں! مگر جو تصویر ریاض خیر آبادی نے کھینچی ہے‘ لاجواب ہے:
کمر سیدھی کرنے ذرا میکدے میں ؍ عصا ٹیکتے کیا ریاضؔ آ رہے ہیں
آج کے لٹریچر‘ خصوصاً شاعری کے شائقین کی زیادہ تعداد ریاض خیر آبادی کے نام ہی سے ناآشنا ہے۔ ریاض ایک عجیب و غریب شخصیت تھے۔ ساری زندگی شراب کو ہاتھ نہیں لگایا مگر شاعری شراب پر کی۔ اسی لیے انہیں ''خمریاتی شاعر‘‘ کہا جاتا ہے۔ شاعری میں جو تلازمے انہوں نے استعمال کیے ہیں سب کے ڈانڈے مے نوشی سے ملتے ہیں۔ جیسے دُختِ رز‘ سبو‘ ساقی‘ خم و ساغر!!
میرے مستقل قارئین جانتے ہیں کہ میرے مشاغل میں سے ایک مشغلہ شو ہارن جمع کرنا بھی ہے۔ لگتا ہے کہ اب عصا بھی جمع کرنے پڑیں گے۔مری مال روڈ کی دکانوں پر قسم قسم کیSticks مل جاتی ہیں مگر اب مری میں وہ ہنگامہ اور ہجوم رہتا ہے کہ مری نہ جانے میں زیادہ سکون اور تفریح ہے! بہر طور استعمال ہوں یا نہ ہوں‘ خوبصورت اور مختلف قسم کے عصا ہونے چاہئیں اور بہت سے ہونے چاہئیں!