یہ کون ہے جو ملک کو بدنام کر رہا ہے؟

پہلے ہی پاکستان پر دہشت گردی کا دھبہ لگا ہوا ہے۔ اوپر سے دن دہاڑے وفاقی دارالحکومت میں راستے بند کیے جا رہے ہیں! وہ بھی اسلام آباد کے عین دل میں!! ایک طرف پنج ستارہ ہوٹل ہے جہاں غیرملکی ٹھہرتے ہیں! دوسری طرف ڈپلومیٹک انکلیو ہے جہاں سفارت خانے ہیں۔ تیسری طرف مرکزی سیکرٹریٹ‘ سپریم کورٹ اور اہم وفاقی دفاتر ہیں۔ چوتھی طرف کنونشن سنٹر ہے۔ ہر طرف پولیس کھڑی ہے۔ ٹریفک رُکی ہوئی ہے۔ لوگ بے بس ہیں۔ تماشا لگا ہوا ہے!
یہ کس کے اونچے دماغ نے فیصلہ کیا ہے کہ کرکٹ ٹیموں کو اُس ہوٹل میں ٹھہرایا جائے جو وفاقی دارالحکومت کے عین قلب میں واقع ہے؟ اس سے زیادہ غیردانشمندانہ فیصلہ کیا ہو سکتا تھا۔ یہ ''غیر دانشمندانہ‘‘ کا لفظ تو مجبوراً لکھا ہے‘ جو لفظ لکھنا چاہتا تھا اس کی ایڈیٹر نے اجازت نہیں دینا تھی اور وہ لفظ آپ سمجھ گئے ہوں گے!! قربان جائیے اس عقل و دانش کے۔ جڑواں شہروں میں بیسیوں‘ درجنوں ایسے ٹھکانے ہیں جو مصروف شاہراہوں سے ہٹ کر واقع ہیں۔ مسلح افواج کے میس ہیں۔ محفوظ گوشوں میں واقع اور سکیورٹی سے آراستہ! بیسیوں محکموں کے گیسٹ ہاؤسز ہیں! پرائیویٹ مہمان خانے ہیں! ان میں سے کہیں بھی کھلاڑیوں کو ٹھہرایا جا سکتا تھا مگر چونکہ دنیا کو پیغام دینا تھا کہ ہمارے ملک میں ہماری اپنی ٹیمیں محفوظ نہیں اس لیے ایسی جگہ پر ٹھہرایا جہاں دنیا بھر کو یہ مبارک پیغام پہنچ سکے!! جس عالی دماغ نے بھی یہ فیصلہ کیا ہے اس کی دور اندیشی کو سلام!!
تادمِ تحریر ملک میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں! نگران حکومت نقارہ بجا کر کوچ کر چکی! نئے وزیراعظم حلف لے چکے مگر کابینہ ابھی تک وجود میں نہیں آئی۔ جس وقت یہ سطور لکھی جا رہی ہیں‘ صدر کی حلف برداری کی خبریں چل رہی ہیں۔ اس کے بعد کابینہ بنے گی۔ سو لمحۂ موجود میں حکومت کا کوئی وجود نہیں۔ ایسی صورتحال میں بیورو کریسی ملک چلاتی ہے اور اپنی مرضی سے چلاتی ہے۔ بیورو کریسی کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ عوام پر کیا گزرے گی اور بیرونِ ملک پاکستان کی شہرت کو کتنا دھچکا لگے گا! عوامی نمائندوں کے مقابلے میں افسر شاہی کی وقعت وہی ہے جو دس کے مقابلے میں دو یا تین کی ہے۔ عوامی نمائندہ چِٹا ان پڑھ ہو تب بھی عوام کی نبض پر اس کا ہاتھ ہوتا ہے۔ اس کے دن رات اپنے ووٹروں کے ساتھ گزرتے ہیں۔ تھانے میں کیا ہو رہا ہے؟ کچہری میں کیا چل رہا ہے؟ بازار کی کیا صورتحال ہے؟ عوامی نمائندے کو سب معلوم ہوتا ہے۔ اور بیورو کریسی؟؟ جس سطح پر بیورو کریسی فیصلے صادر کرتی ہے اس سطح کے بیورو کریٹ نے تو برسوں سے گھر کا سودا سلف ہی خود نہیں خریدا ہوتا! اسے کیا معلوم عام آدمی کس طرح زندگی بسر کر رہا ہے! وہ رات دن ماتحتوں کے حصار میں رہتا ہے۔ صبح آکر جیب سے کاغذ نکالتا ہے اور ماتحتوں کے سپرد کر دیتا ہے۔ یہ اس کے گھر کے کاموں والا کاغذ ہے۔ کاغذ جانیں اور ماتحت جانیں! اس کے گھر کی بجلی یا گیس یا فون یا پانی کا کوئی مسئلہ درپیش ہو تو سارے دفتر کی کیا‘ پورے محکمے کی دوڑیں لگ جاتی ہیں! اعلیٰ سطح کا بیورو کریٹ ایک ایسی دنیا میں رہتا ہے جس کا حقیقی دنیا سے دور کا تعلق بھی نہیں ہوتا! بس آنکھیں بند کیں اور حکم دے دیا کہ ٹیموں کو فلاں ہوٹل میں ٹھہراؤ اور راستے بند کر دو!
سکیورٹی کا تقاضا یہ ہے کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو کہ کھلاڑیوں کا قیام کہاں ہے؟ یہ کامن سینس کی بات ہے! حیرت ہے ساری دنیا کو بتایا جا رہا ہے کہ یہاں‘ اس ہوٹل میں کھلاڑی ٹھہرے ہوئے ہیں‘ اسی لیے ہم اس کے ارد گرد کی شاہراہوں کو بند کر دیتے ہیں۔ یعنی آ بیل مجھے مار! اس سے وہ آدمی یاد آرہا ہے جس نے بینک سے بھاری کیش نکلوایا‘ بیگ میں ڈالا‘ باہر نکل کر بیگ کو سینے سے بھینچ کر لگا لیا اور ساتھ ہی ادھر ادھر‘ دائیں بائیں بار بار یوں دیکھ رہا ہے کہ ہر دیکھنے والا جان جاتا ہے کہ یہ شخص بیگ میں کوئی قیمتی چیز لیے جا رہا ہے۔ یعنی ڈاکوؤں اور اٹھائی گیروں کے لیے دعوتِ عام ہے!! اب بھی آکر کوئی بیگ چھین نہیں رہا تو اس کا اپنا قصور ہے۔ بیگ کا مالک تو چھیننے والوں کو زبانِ حال سے بلاتا پھر رہا ہے!
صدیوں کے تجربوں کے بعد ترقی یافتہ ملک اس نتیجے پر پہنچے کہ شہر کا نظم و نسق چلانے کے لیے بیورو کریٹ نہیں بلکہ عوام کا منتخب کردہ میئر بہتر ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے صدیوں کی بادشاہت کے بعد معلوم ہوا کہ تخت نشینی کی جنگوں اور بھائیوں کو قتل کرنے کے بجائے حکمرانی کا فیصلہ ووٹوں سے کرایا جائے۔ میئر کو معلوم ہے کہ اس نے اگلا الیکشن لڑنا ہے اور یہ کہ اس کے سیاسی مخالف اسے مسلسل جانچ رہے ہیں اور ایک لحاظ سے نگرانی کر رہے ہیں۔ اس نگرانی کی وجہ سے میئر صراطِ مستقیم پر رہتا ہے۔ عوام سے اس کا براہِ راست رابطہ رہتا ہے۔ تعلق ہوتا ہے۔ کچھ عرصہ وفاقی دارالحکومت کو میئر نصیب ہوا تھا‘ بہت سے اس زمانے میں اچھے کام ہوئے۔ اس کے بعد سے پھر بیورو کریسی کی لمبی اندھیری رات کا راج ہے۔ شہر افسر شاہی کے تصرف میں ہے۔ ترقیاتی ادارے کا سربراہ ہے یا چیف کمشنر‘ یا دونوں مناصب ایک ہی افسر کے پاس ہیں‘ عوام سے رابطہ صفر ہے۔ عام شہری ملاقات تو کیا کرے گا‘ فون پر بات کرنا بھی ناممکن ہے۔ نوکر شاہی کو خول میں بند رہنے کی عادت ہے۔ کہاں وہ روایات کہ شہر کے والی بھیس بدل کر گلیوں بازاروں میں پھرتے تھے اور حالات سے فرسٹ ہینڈ آگاہی پاتے تھے!!
یقینا افسر شاہی میں فرشتہ صفت افراد بھی ہیں مگر آٹے میں نمک کے برابر! یہ اور بات کہ سیاسی مداخلت ایسے افسروں کو دلجمعی سے کام ہی نہیں کرنے دیتی! اس لکھنے والے کو وفاق‘ پنجاب اور خیبر پختونخوا‘ تینوں کی بیورو کریسی کا تجربہ ہے اور عمیق مشاہدہ بھی! سچ یہ ہے کہ خیبر پختونخوا میں بیوروکریسی کے دروازے عام لوگوں کے لیے کھلے ہوتے ہیں۔ افسر وہاں پہنچ سے باہر نہیں ہوتے! میں نے بڑے بڑے افسروں کو اپنے ڈرائیور کا کھانا اندر سے لاتے دیکھا ہے۔ ملازم ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں۔ پنجاب میں ڈی سی اور کمشنر تو دور کی بات ہے‘ پٹواری سے مل کر دکھا دیجیے! وفاقی دارالحکومت نزدیک تو پشاور کے ہے مگر بیورو کریسی کا رنگ ڈھنگ لاہور سے ملتا جلتا ہے! خیبر پختونخوا میں افسر فرنگی لباس بھی کم ہی پہنتے ہیں! ان کے اور عام آدمی کے لباس میں کوئی فرق نہیں۔ افسر انگریزی کا رعب جھاڑتے ہیں نہ اردو بولتے ہیں۔ عام آدمی سے ٹھیک اسی کی زبان میں‘ اسی کے لہجے میں بات کرتے ہیں! قبائلی کلچر نے غلامانہ ذہنیت سے مات نہیں کھائی۔ افسروں کو احساسِ برتری ہے نہ عام آدمی کو احساسِ کم تری۔ ( یوں تو احساسِ برتری اصل میں احساسِ کمتری ہی ہوتا ہے!!)۔ علامہ اقبال کی نظم ''خوشحال خان کی وصیت‘‘ کے ایک شعر میں یہی نکتہ بیان کیا گیا ہے؛
مغل سے کسی طرح بھی کم نہیں
کہستاں کا یہ بچۂ ارجمند
جب تک وفاقی دارالحکومت نوکر شاہی کی بے نیاز‘ مست آمریت سے نجات نہیں پاتا‘ اس قسم کی حماقتیں ظاہر ہوتی رہیں گی۔ شہر کے قلب میں شاہراہیں بند ہوتی رہیں گی! بیرونی دنیا کو پیغام جاتا رہے گا کہ دہشت گردی کا خطرہ ہے۔ حسرت موہانی نے شاید ہمارے لیے ہی کہا تھا ؎
تابہ کجا ہوں دراز سلسلہ ہائے فریب
ضبط کی لوگوں میں تاب‘ دیکھیے کب تک رہے
حسرتِ آزاد پر جورِ غلامانِ وقت
ازرہِ بغض و عناد‘ دیکھیے‘ کب تک رہے

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں