صدقے جاؤں مگر کام نہ آؤں

پیپلز پارٹی سے کبھی بھی مناسبت اور مطابقت نہیں رہی۔ مگر ایک کریڈٹ اسے ضرور جاتا ہے۔ اس نے مذہبی کارڈ کبھی نہیں کھیلا! پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) نے تو اس ضمن میں ساری حدیں پار کر دی ہیں۔ حدیں پار کرنے کی تفصیلات بتانے کو جی تو چاہتا ہے مگر دل نہیں مانتا کہ بقول میر ؎
کھنچیں میر تجھ ہی سے یہ خواریاں
نہ بھائی ہماری تو قدرت نہیں!!
رہی وہ جماعتیں جو مذہب کے نام پر بنی ہیں‘ وہ تو مذہب کو سیاست کے لیے استعمال کر ہی رہی ہیں! بلکہ مسلک کے نام پر تشکیل شدہ جماعتیں بھی میدان میں ہیں! گویا سب اسلام کی خدمت کررہی ہیں اور زیادہ خدمت کرنے کے لیے اقتدار میں آنا چاہتی ہیں!
ہم پاکستانی اسلام کے ساتھ کس قدر مخلص ہیں اس کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ رمضان کی آمد پر ہمارے تاجر بھائی (سوائے تاجرانِ کتب کے) قیمتوں کو آسمان پر لے جاتے ہیں! غیرمسلم ملکوں میں کرسمس پر سیلیں لگتی ہیں اور اب تو رمضان اور عید پر بھی ان ملکوں میں قیمتیں کم کر دی جاتی ہیں۔ مگر ہمارے ملک میں‘ جہاں لوگ مذہب کے اس قدر دلدادہ ہیں کہ برقع پر عربی رسم الخط میں حلوے کا لفظ بھی نظر آجائے تو برقع پوش کو جان کے لالے پڑ جاتے ہیں‘ رمضان اور عید پر ناجائز نفع خوری انتہا کو پہنچ جاتی ہے۔ ایک ہفتے میں وفاقی دارالحکومت میں سبزیوں کی قیمت میں فی کلو ستر روپے سے زیادہ کا اضافہ کیا گیا۔ لاہور میں لہسن آٹھ سو روپے کلو تک جا پہنچا! طرفہ تماشا یہ ہوا کہ برسرِ اقتدار جماعت کے ایک سرکردہ رہنما نے دہائی دی ہے کہ رمضان کے آنے سے پہلے ذخیرہ اندوز متحرک ہو گئے اور یہ کہ بازاروں میں ڈاکو بیٹھے ہوئے ہیں! اس پر ایک پرانا لطیفہ یاد آگیا جو مولانا احتشام الحق تھانوی مرحوم نے تقریر کرتے ہوئے سنایا تھا۔ مغلوں کے دورِ زوال کی بات ہے۔ ایک شہزادے کی ساری پرورش حرم سرا کے اندر ہوئی۔ یہاں تک کہ شہزادیوں‘ کنیزوں اور خواجہ سراؤں کے درمیان ہی وہ جوان ہوا۔ ایک دن محل میں سانپ آگھسا۔ جہاں عورتوں نے شور مچایا کہ کسی مرد کو بلاؤ تو وہاں شہزادہ بھی کہہ رہا تھا کہ کسی مرد کو بلاؤ! جہاں عام آدمی رو رو کر فریاد کر رہا ہے کہ بازاروں میں ڈاکو بیٹھے ہوئے ہیں‘ وہاں اگر حکومتی عمائدین بھی یہی کہہ رہے ہوں تو لطیفہ تو بنتا ہے! ارے بھئی! حکومت آپ کی ہے۔ آپ ڈاکوؤں‘ ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع کھانے والوں کو پکڑیے! اس کام کے لیے تو آپ کو امریکہ کی‘ یا مقتدرہ کی اجازت کی ضرورت نہیں! حکومت کا سب سے بڑا فریضہ بھی یہی ہے کہ عوام کی بنیادی ضروریات کی فراہمی کو یقینی بنائے! ہر سال یہی تماشا ہوتا ہے! ادھر رمضان کی آمد ہوئی اُدھر قیمتیں آسمان تک پہنچ گئیں۔ عید سے پہلے بچوں کے ملبوسات اور جوتوں کی قیمتیں جس سفاکی اور سنگدلی سے بڑھائی جاتی ہیں اس پر بد دعائیں نہ دی جائیں تو کیا کیا جائے! آخر ہم کیسے مسلمان ہیں؟ ایک طرف شہد سے لے کر نہاری تک‘ ہر شے کے برانڈ کو مذہب کا ٹچ دیتے ہیں‘ دوسری طرف مسلمانوں ہی کا خون چوستے ہیں! گویا مذہب سے ہماری محبت محض دکھاوے کی ہے۔ زندگی ہم نے اپنی مرضی کے مطابق بسر کرنی ہے۔ یعنی صدقے جاؤں مگر کام نہ آؤں!! ہم لوگ مجموعۂ اضداد ہیں! اتنی بلندی اور اتنی پستی کہ دوسرے دیکھ کر عبرت پکڑیں! سوال یہ ہے کہ حکومت کا کیا کردار ہے؟ کیا حکومت صرف ٹک ٹک دیدم‘ دم نہ کشیدم پر عمل کرنے کے لیے ہے؟ روایت ہے کہ سعودی بادشاہ عبد العزیز بن سعود کو معلوم ہوا کہ کچھ نانبائی روٹی کا وزن کم کر دیتے ہیں۔ بھیس بدل کر تنور پر گئے۔ روٹی خریدی۔ وزن کرایا۔ وزن کم تھا! وہیں نانبائی کو تنور میں ڈالنے کا حکم دیا۔ اس کے بعد روٹی کا وزن کبھی کم نہ ہوا۔ معلوم نہیں یہ روایت کہاں تک درست ہے! مگر یہ طے ہے کہ قانون شکنی انسانی سرشت میں داخل ہے اور اس کا علاج سزاہے۔ ایسی سزا جس کا جسمانی یا مالی یا سماجی درد محسوس ہو!
سنگا پور پہلے ملا ئیشیا کا حصہ تھا۔ الگ ہوا۔ ترقی میں ملا ئیشیا سے آگے نکل گیا۔ ایک وجہ‘ اس ترقی کی‘ قانون کا بے رحمانہ نفاذ بھی ہے۔ سنگا پور کے باشندے بارڈر پار کرکے ملائیشیا پہنچتے ہیں تو قانون توڑ کر انہیں مزہ آتا ہے کیونکہ ملائیشیا میں سزائیں سخت نہیں! ٹریفک کی خلاف ورزی کی مثال لے لیجیے۔ ہمارے ملک میں چالان ہو جائے تو جرمانہ مضحکہ خیز حد تک کم ہے۔ مجرم اسے مذاق سمجھتے ہیں۔ آسٹریلیا میں ایک خاتون گاڑی چلا رہی تھی۔ اس کا چھوٹا بچہ پچھلی نشست پر کارسیٹ میں بیٹھا ہوا تھا۔ اسے بیلٹ لگی ہوئی تھی۔ ہاتھ سے اس نے بیلٹ کا وہ حصہ جو کندھے پر تھا‘ نیچے کر دیا۔ ٹریفک والے نے روک لیا اور ماں کو بتایا کہ خلاف ورزی ہوئی ہے۔ ماں کا عذر معقول تھا کہ وہ گاڑی چلا رہی تھی اور مُڑ کر پیچھے نہیں دیکھ سکتی تھی۔ مگر ٹریفک والے کی دلیل تھی کہ خلاف ورزی بہر طور ہوئی ہے۔ اس نے چار سو ڈالر کا جرمانہ کیا جو وہاں کے لحاظ سے بھی ایک خطیر رقم ہے! ہم سب جانتے ہیں کہ علاء الدین خلجی کے زمانے میں کم تولنے کی بیماری عام ہو گئی تھی۔ اس نے قانون بنایا کہ کم تولنے والے کے جسم سے گوشت کاٹ کر وزن کی کمی پوری کی جائے گی! کچھ لوگوں کو سزا دی گئی۔ اس کے بعد کس کی ہمت تھی کہ خلاف ورزی کرتا! شیر شاہ سوری کا کڑا حکم تھا کہ لشکر جہاں پڑاؤ ڈالے گا‘ فصل کو ہاتھ تک نہیں لگائے گا۔ ایک سپاہی نے خلاف ورزی کی تو اس کا کان کاٹ کر اسے لشکر میں پھرایا گیا تاکہ دوسرے لشکری عبرت پکڑیں! حکومت چاہے تو کیا نہیں ہو سکتا۔ نیت درست ہو تو راستے کئی نکل آتے ہیں۔ رمضان سے پہلے کی قیمتیں ہر دکان کے باہر بورڈ پر درج ہونی چاہئیں اور رمضان کے دوران کی بھی! یہ پولیس‘ جو ہزاروں کی تعداد میں اشرافیہ کے محلات پر پہرے دے رہی ہے‘ اسے وہاں سے ہٹا کر بازاروں میں تعینات کیا جائے جو قیمتوں پر کڑی نظر رکھے! مجسٹریٹ موقع پر موجود ہو جو وہیں‘ اسی وقت سزا دے اور سزا بھی ایسی کہ دوسرے دیکھ کر عبرت پڑیں!
بیچارے صارفین‘ سوشل میڈیا پر بائیکاٹ کی ترغیب دیتے رہتے ہیں مگر بائیکاٹ مسئلے کا حل نہیں! ٹوپی بڑی ہو تو سر نہیں کاٹا جاتا بلکہ ٹوپی چھوٹی کی جاتی ہے۔ مہنگائی تاجر کرے اور بائیکاٹ صارف کرے! کیا اس سے بہتر یہ نہیں کہ مہنگائی کو اس کے وقوع سے پہلے روکا جائے!
غور کیجیے! جتنی من مانی ہمارے ملک میں تاجر برادری کر رہی ہے‘ اتنی من مانی کوئی دوسرا طبقہ کر رہا ہے نہ کر سکتا ہے! ٹیکس یہ چوری کرتے ہیں۔ ٹیکس اہلکاروں کو کرپشن پر یہ لگاتے ہیں۔ اوقات ان کے حد سے زیادہ غیرمنطقی ہیں۔ ظہر کے بعد بازار کھلتے ہیں اور نصف شب تک توانائی کے پرخچے اڑا تے ہیں۔ تجاوزات کے یہ مجرم ہیں! رسید‘ بِن مانگے یہ نہیں دیتے! خریدا ہوا مال یہ واپس نہیں لیتے! بعض تو تبدیل تک نہیں کرتے! رمضان آئے تو ظلم کی انتہا کر دیتے ہیں! فوج سے لے کر بیوروکریسی تک‘ سیاست دانوں سے لے کر گھروں میں بیٹھی ہوئی خواتین تک‘ ہر فرد‘ ہر طبقہ‘ کسی نہ کسی قانون کا پابند ہے۔ صرف تاجر ہیں جو کسی زمینی یا آسمانی قانون کو خاطر میں نہیں لاتے! قانون ایک کو پکڑے تو کوّوں کی طرح سب اکٹھے ہو جاتے ہیں! گاہک جو‘ ان کے رزق کا باعث بنتا ہے‘ اُسی گاہک کی عزت نہیں کرتے! بعض کا سلوک تو بے حد کھردرا ہوتا ہے! صحیح معنوں میں اگر کوئی طبقہ مادر پدر آزاد ہے تو تاجروں کا طبقہ ہے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں