باربرا ٹچ مین مشہور امریکی تاریخ دان تھی۔ 1989ء میں اس کا انتقال ہوا۔ اس کا نانا سلطنت عثمانیہ میں امریکی سفیر تھا۔ باربرا ٹچ مین نے تاریخ کی کتابیں اس انداز سے لکھیں کہ انہیں پڑھ کر عام قاری کو بھی تاریخ میں دلچسپی پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کا اسلوب ادبی ہے۔ The March of Folly (حماقتوں کی پریڈ) اس کی مشہور ترین تصنیف ہے۔ اس میں اس نے اپنا مشہور نظریہ پیش کیا ہے۔ نظریہ یہ ہے کہ عام آدمی اپنے کام سوچ سمجھ کر کرتا ہے۔ اس نے جو کام بھی سرانجام دینا ہو‘ مکان بنانا ہو‘ بچوں کی تعلیم اور شادیوں کے فرائض سرانجام دینے ہوں‘ فیکٹری لگانی ہو‘ ملازم بھرتی کرنے ہوں‘ ہر کام عقل مندی سے کرے گا۔ اس کے مقابلے میں حکومتوں کے کام احمقانہ ہوتے ہیں! اتنے احمقانہ کہ عام آدمی کو بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ حکومت کا یہ کام‘ یا یہ پالیسی غلط ہے اور اس کے نتائج مثبت نہیں نکلیں گے! اس نظریے کے حق میں باربرا نے تاریخ سے کئی مثالیں پیش کیں۔ مثلاً لکڑی کا وہ گھوڑا جو یونانی‘ ٹرائے کے شہر کی فصیل کے باہر رکھ گئے تھے۔ طویل محاصرے کے باوجود جب یونانی شہر کو فتح نہ کر سکے تو انہوں نے یہ چال چلی۔ لکڑی کے اس بڑے سے گھوڑے کے اندر مسلح سپاہی چھپے تھے۔ کئی لوگوں نے سٹی کونسل (یعنی حکومت) کو منع کیا کہ گھوڑا شہر کے اندر لے کر نہ جائیں۔ مگر حکومت نہ مانی۔ گھوڑا شہر کے اندر لے گئے۔ رات کو سپاہی گھوڑے سے باہر نکلے اور شہر کے دروازے کھول دیے۔ شہر پر یونانیوں نے قبضہ کر لیا۔ اس کے علاوہ بھی باربرا نے اس نظریے کے حق میں تاریخ سے کئی ثبوت پیش کیے ہیں۔
یہ نظریہ کہیں اور منطبق ہو نہ ہو‘ ہم پر ضرور منطبق ہو رہا ہے۔ پاکستانی حکومتیں (نظر آنے والی اور نظر نہ آنے والی بھی) پے درپے ایسے ایسے احمقانہ اقدامات کرتی رہی ہیں اور اتنی غلط پالیسیاں تشکیل دیتی رہی ہیں کہ خدا کی پناہ! ان غلط پالیسیوں اور ان احمقانہ اقدامات پر ایک پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ ہم صرف موجودہ حکومت کی‘ جس کو بنے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں‘ حماقتوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
ارسا (Indus River System Authority) کا ادارہ 1992ء میں پارلیمنٹ کے ایکٹ کے ذریعے وجود میں آیا تھا۔ اس کا کام دریائے سندھ کے آبی نظام کو صوبوں میں تقسیم کرنا ہے۔ ہر صوبے کی نمائندگی ایک ممبر کرتا ہے۔ فیصلہ ووٹ کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ ادارے کا چیئرمین باری باری ہر صوبے سے منتخب ہوتا ہے۔ کاکڑ نگران حکومت نے ایک آرڈیننس کا مسودہ صدرِ پاکستان کو بھیجا۔ یہ آرڈیننس ادارے میں بنیادی تبدیلیاں کرنا چاہتا تھا۔ چیئرمین کی تعیناتی کا اختیار وزیراعظم کو دیا جا رہا تھا۔ صوبوں کو بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا۔ اصولی طور پر نگران حکومت اس نوع کی بنیادی تبدیلیاں کرنے کی مُجاز ہی نہیں تھی۔ ایسے کام ایک منتخب حکومت ہی کر سکتی ہے۔ بہرطور صدرِ پاکستان نے اس مسودے کو منظور کرنے سے‘ بجا طور پر‘ انکار کر دیا۔ موجودہ وزیراعظم نے اس نامنظور آرڈیننس پر عمل کرتے ہوئے‘ پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک ریٹائرڈ بیورو کریٹ کو چیئرمین مقرر کر دیا۔ یہ ایک انتہائی غیر دانشمندانہ اقدام تھا اور ایک بچہ بھی سمجھ سکتا تھا کہ صوبے اس غیر متوازن حکم کو قبول نہیں کریں گے۔ یہی ہوا۔ سندھ نے پُرزور اعتراض کیا اور احتجاج بھی! اخبارات نے اس کے خلاف اداریے لکھے۔ بالآخر وزیراعظم کو یہ فیصلہ واپس لینا پڑا! ظاہر ہے سُبکی ہوئی! اب یہ وزیراعظم کا کام ہے کہ غور فرمائیں اس مشورے‘ یا تجویز کی پشت پر کون خیر خواہ تھے؟
دوسری مثال لیجیے۔ ذرا وفاقی کابینہ کی کمپوزیشن پر غور کیجیے۔ یہ اُنیس رکنی کابینہ ہے۔ انیس میں سے چودہ وزیر‘ جی ہاں چودہ! لاہور اور لاہور کے نواحی اضلاع (سیالکوٹ‘ نارووال‘ شیخوپورہ‘ حافظ آباد‘ گجرات) سے ہیں۔ ایک وزیر کے پی سے ہے۔ ایک بلوچستان سے اور ایک کراچی (ایم کیو ایم) سے ہے۔ دو جنوبی پنجاب سے ہیں! دوسرے لفظوں میں 73.6 فیصد لاہور اور نواحِ لاہور سے ہیں! باقی ملک کا حصہ 26.4 ہے۔ مغربی پنجاب (اٹک‘ میانوالی‘ چکوال‘ جہلم‘ راولپنڈی) کی نمائندگی صفر ہے۔ اسی طرح سندھ کی نمائندگی بھی صفر ہے۔ ایک سابق بیورو کریٹ کو وزیر بنایا گیا ہے جو غیر منتخب ہیں۔ یہ وہی صاحب ہیں جو نگران حکومت میں بھی شامل کیے گئے تھے مگر بعد میں الیکشن کمیشن کے حکم سے فارغ کر دیے گئے تھے۔ یہ بھی نواحِ لاہور سے تعلق رکھتے ہیں۔ اگر جناب وزیراعظم دور اندیشی سے کام لیتے اور وسعتِ نظر کو بروئے کار لاتے تو غیر منتخب شخص کو وزیر بنانا ہی تھا تو اندرونِ سندھ سے کسی کو بناتے!! اس اقدام سے کابینہ میں ایک خوبصورت اور صحت مند توازن پیدا ہو جاتا! مگر انہوں نے ذاتی وفاداری کو زیادہ اہمیت دی!
تیسری مثال! جناب اسحاق ڈار کو وزارتِ خارجہ کا قلمدان دیا گیا ہے۔ وہ ایک لائق اور محنتی شخص ہیں۔ ان کے پاس چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کی ڈگری ہے۔ ان کا سارا کیریئر مالیات (فنانس) سے متعلق رہا ہے۔ وزارتِ خارجہ کے حوالے سے ان کا کوئی ایکسپوژر نہیں ہے۔ کیا آپ کو معلوم ہے بھارت کا وزیر خارجہ کون ہے؟ ان صاحب کا نام جے شنکر ہے اور ان کا خارجہ امور کا تجربہ 47 برس پر محیط ہے۔ یہ بین الاقوامی تعلقات کے مضمون میں پی ایچ ڈی بھی ہیں۔ انہوں نے سری لنکا‘ ہنگری‘ جاپان‘ سنگاپور‘ چین اور امریکہ میں سفارتکاری کے فرائض سرانجام دیے۔ پھر فارن سیکرٹری رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست میں آئے۔ اب ممبر پارلیمنٹ ہیں اور پانچ سال سے وزیر خارجہ ہیں۔ باقی حساب کتاب آپ خود کر لیجیے کہ اس کالم نگار کا پوائنٹ کیا ہے؟ جناب اسحاق ڈار کی خدمات کے حوالے سے انہیں کابینہ میں لینا ہے تو ان کی مہارت اور تجربے کی مناسبت سے انہیں کوئی اکنامک منسٹری دینی چاہیے تھی۔ تجارت‘ پٹرولیم اور اکنامک افیئرز جیسی وزارتوں میں ان کے معاشی پس منظر سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ انہیں وزارتِ خارجہ میں لگانا ان کے ساتھ بھی زیادتی ہے اور خارجہ امور کے ساتھ بھی۔ ایسی تعیناتی کو نرم ترین الفاظ میں بھی Human Resource Misallocation ہی کہا جا سکتا ہے۔ یعنی افرادی قوت کا غلط استعمال۔ ہر فن کے ماہرین الگ ہوتے ہیں! مگر ہمارے ہاں معیار کچھ اور ہے۔ کیا عجب کل جلیل عباس جیلانی صاحب کو وزیر خزانہ لگا دیا جائے اور طارق فاطمی صاحب زراعت کے منسٹر لگے ہوئے ہوں!
اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ باربرا ٹچ مین کی تھیوری کیا ہے۔ حکمرانوں نے جب اپنے کاروبار اور اپنی فیکٹریوں میں افرادی قوت لگانی ہو تو بہترین افراد کا انتخاب کرتے ہیں۔ خوب چھان پھٹک کرتے ہیں۔ وہاں یہ پروڈکشن کے ماہر کو مارکیٹنگ میں کبھی نہیں لگائیں گے! مارکیٹنگ کے ماہر کو مارکیٹنگ ہی میں لگائیں گے۔ ان کے بچوں اور پوتوں کو بھی بخوبی علم ہے کہ کون سا آدمی کاروبار میں کہاں لگانا ہے! رہی حکومت! رہا ملک! رہی ریاست!! تو جسے نوازنا ہو اسے کہیں بھی لگا دیجیے۔ نقصان ہو گا تو ملک کا ہو گا۔ ذاتی نقصان تو نہیں ہو گا! وہ لطیفہ نما واقعہ آپ نے سنا ہی ہو گا۔ نہ جانے پٹیالہ کی ریاست تھی کہ کوئی اور ریاست‘ وزیر خزانہ چھٹی پر گئے تو ان کا چارج چیف میڈیکل افسر کو دے دیا گیا۔ وزیر خزانہ چھٹی سے واپس آئے تو چیف انجینئر کی پوسٹ خالی تھی‘ انہیں وہاں تعینات کر دیا گیا! ہم بھی کچھ ایسے ہی ہیں۔ ہمالیہ کو بحر الکاہل کے درمیان دکھاتے ہیں۔ برازیل کو ایشیا کے ماتھے کا جھومر بتاتے ہیں!! ہمارے کوتوال نابینا ہیں۔ لکنت زدہ کو ہم داستان گو مقرر کرتے ہیں!