بُلھے شاہ! اساں مرنا ناہیں

وہ تو اچھا ہوا عزت رہ گئی! ورنہ ڈر تھا کہ وہ جو ہماری روایت ہے رُول آف لاء پر چلنے کی‘ جس کے لیے ہم دنیا میں مشہور ہیں‘ کہیں اس حوالے سے ہماری شہرت پر زد نہ پڑے!
وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے 2010ء میں جب توسیع دی تو عمران خان صاحب نے اس کی مخالفت کی۔ یہاں یہ وضاحت کر دوں کہ توسیع کو ہمارے سابق آقا اپنی زبان میں Extension کہتے ہیں۔ تو جب عمران خان صاحب نے اس کی مخالفت کی تو میرا تو دل ہی بیٹھ گیا۔ مجھے خان کا یہ اعتراض قطعاً پسند نہیں آیا تھا۔ ارے بھئی! جب ہم قانون کی پیروی کر رہے ہیں اور اپنے معروف اور مشہورِ زمانہ قواعد و ضوابط کے مطابق چل رہے ہیں تو آپ اعتراض کر کے ہمیں سیدھے راستے سے کیوں ہٹانا چاہتے ہیں؟ کچھ عرصہ گزرا تو عمران خان خود سریر آرائے سلطنت ہوئے۔ تب انہوں نے بھی 2019ء میں توسیع کا حکم دیا۔ تب مجھے یک گونہ اطمینان ہوا اور میں نے خدائے بزرگ و برتر کا شکر ادا کیا کہ وہ جو ہماری رول آف لاء پر چلنے کی روایت تھی‘ اسے خان نے برقرار رکھا۔ اس موقع پر ایک خوشگوار اتفاق یہ بھی ہوا کہ اپوزیشن نے‘ بشمول (ن) لیگ‘ خان کی حمایت کی اور توسیع دینے کی زبردست قانونی روایت کو زندہ رکھنے میں اپنا حصہ ڈالا!
اب جب نئے وزیراعظم نے‘ اللہ انہیں سلامت رکھے اور ان کے فیروزیٔ اقتدار کو عمرِ نوح عطا کرے‘ تخت و تاج سنبھالا تو مجھے ایک خدشہ لاحق ہوا۔ یہاں برسبیلِ تذکرہ وضاحت کرتا چلوں کہ یہ جو میں نے اوپر فیروزی کا لفظ استعمال کیا ہے تو اس سے مراد کامیابی اور ظفرمندی ہے۔ ہماری خواتین کی لغت میں فیروزی ایک رنگ کا نام ہے مثلاً جب وہ ملبوسات کی دکانوں میں جاتی ہیں‘ جہاں سیل کے مواقع پر انہیں آپس میں گتھم گتھا بھی ہو جانا پڑتا ہے‘ تو وہ سیلزمین کو کہتی ہیں ''بھیا! ذرا فیروزی رنگ کی پوشاک دکھاؤ!‘‘ یہ تناقض اس لیے پیدا ہوا کہ فیروزہ ایک قیمتی پتھر کا نام ہے۔ اس کے رنگ کو اُردو میں فیروزی رنگ کہا جانے لگا! عبد العزیز فطرت کا شعر یاد آ رہا ہے ؎
ہم نے پھر اقلیمِ غم تسخیر کی
اس خوشی میں جشنِ فیروزی رہے
یہاں جشنِ فیروزی سے مراد فتح کا جشن ہے!
تو نئے وزیراعظم کے اقتدار سنبھالنے کے بعد مجھے خدشہ لاحق ہوا کہ کہیں وہ رول آف لاء کو نظر انداز فرما کر بے ضابطگی پر نہ اُتر آئیں۔ دل میں یہ ڈر پیدا ہو گیا کہ‘ میرے منہ میں خاک‘ کہیں وہ اس صحت مند روایت کو توڑ نہ دیں۔ جب انہوں نے تین مارچ کو وزارتِ عظمیٰ کا چارج سنبھالا تو اسی وقت سے میں مضطرب اور بیقرار رہنے لگا۔ جیسے جیسے وقت گزرنے لگا میری حالت خراب سے خراب تر ہو نے لگی! پہلے گھنٹے اور پھر دن گننے لگا! انہیں تخت و تاج سنبھالے پورے تیرہ دن ہو گئے! میں نے منہ سر پیٹ لیا! غضب خدا کا دو ہفتے ہونے کو ہیں اور ابھی تک کسی کو توسیع نہیں دی! فشارِ خون بلند ہونے لگا۔ کمرے سے لاؤنج کی طرف جا رہا تھا کہ دھڑام سے گر پڑا۔ بس نیم بے ہوشی کی کیفیت تھی۔ بیٹی‘ بہو اور بیگم میرے ہاتھوں کو مَلنے بیٹھ گئیں۔ بیٹوں کو‘ جو دوسرے شہروں میں مقیم تھے‘ اطلاع دی گئی۔ کافی دیر بعد حالت سنبھلی۔ گھر والے ہسپتال لے جانے پر مُصر تھے مگر میں نے انکار کر دیا۔ مجھے معلوم تھا کہ طبیعت کی خرابی کا اصل سبب کیا ہے۔ اس عارضے کا علاج کسی ڈاکٹر‘ کسی طبیب‘ کسی پیر‘ کسی فقیر کے پاس نہیں تھا۔ مجھے صرف اور صرف وزیراعظم کا ایک اعلان شفا بخش سکتا تھا۔ رات بے چینی میں گزری۔ خبروں کے لیے بار بار چینل بدلتا۔ مگر دلی مقصود پورا نہیں ہو رہا تھا۔ پھر مجھے خواب آور گولی دے گئی اور میں نیند کی وادی میں اُتر گیا۔ خدا خدا کرکے اٹھارہ مار چ کی صبح ہوئی۔ بچوں نے اخبارات لا کر سامنے رکھ دیے۔ ہائیں! یا الٰہی! یہ کیا معجزہ ہو گیا۔ بالآخر جناب وزیراعظم نے توسیع عنایت کر دی تھی۔ بے اختیار میرے منہ سے وزیراعظم کے لیے تحسین و آفرین کے کلمات نکلے۔ ع
ایں کار از تو آید و مرداں چنیں کنند
جتنا شکر پروردگار کا ادا کیا جائے‘ کم ہے۔ میں نے شکرانے میں دو بکروں کا صدقہ دیا۔ خدا کا لاکھ لاکھ احسان ہے۔ قوموں کی برادری میں ہمارے وقار کو دھچکا نہیں لگا! ہم نے اپنی رول آف لاء پر چلنے کی روایت کو برقرار رکھا اور قانون کی پابندی کرتے ہوئے توسیع دے دی! زندہ اقوام کی یہی نشانی ہوتی ہے کہ وہ اپنے ماضی کی روایات کو تابندہ رکھتی ہیں۔ ہمارے ایک مردِ مومن مردِ حق تھے جو توسیع پر توسیع دیتے گئے۔ جب توسیع دیتے دیتے تھک گئے اور ہانپنے لگ گئے تو توسیع پر توسیع لینے والے صاحب کو کینیڈا تعینات کر دیا۔ کینیڈا کو اس جوہرِ قابل کی قدر کرنا نہ آئی۔ اندھا کیا جانے بسنت کی بہار! فضول قسم کے اعتراضات لگا کر تعیناتی قبول کرنے سے انکار کر دیا!
تفو بر تو اے چرخ گردوں تفو!!
اور اے عزیزانِ گرامی! سمجھنا چاہیے کہ توسیع محض ایک حکم نامہ نہیں ہوتا بلکہ بہت سے خوش آئند واقعات اور تبدیلیوں کا مبارک پیش خیمہ ہوتا ہے! اس سے ردِعمل کا ایک سلسلہ (Chain Reaction) پھوٹتا ہے جو خوشگوار حد تک پھیلتا چلا جاتا ہے۔ اہم ترین ردِعمل یہ ہوتا ہے کہ جس شخصیت کو توسیع دی جاتی ہے‘ اس کے نیچے کام کرنے والوں کا مورال بہت ہائی ہو جاتا ہے۔ ان کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہتا۔ وہ اپنے ساتھیوں سے بغل گیر ہو ہو کر ایک دوسرے کو مبارک دیتے ہیں۔ مٹھائیاں تقسیم کرتے ہیں۔ وجہ ظاہر ہے۔ جب توسیع دی جاتی ہے تو ماتحتوں کی ترقی کے نئے راستے کھلتے ہیں اور پرانے راستے کشادہ ہوتے ہیں! سارے سیٹ اَپ میں مسرت کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ نئے امکانات کے در وا ہوتے ہیں! یہ بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ جس شخصیت کو توسیع دی جاتی ہے اس کی قدر و منزلت اور عزت میں کروڑوں گنا اضافہ ہو جاتا ہے‘ اس کے نیچے کام کرنے والوں کے دلوں میں اس کے لیے محبت کے سوتے پھوٹ پڑتے ہیں۔ وہ اس کی صحت اور طوالتِ عمر کے لیے راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر دعائیں مانگتے ہیں!!
توسیع دینے کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ یہ اقدام ایک صحت مند نظیر کے طور پر کام کرتا ہے۔ اس سے دوسرے لوگوں کے دلوں میں بھی اُمید کے چراغ جل اٹھتے ہیں۔ انہیں بھی یقین ہو جاتا ہے کہ وہ بھی ناگزیر ہیں اور یہ کہ انہیں بھی توسیع مل سکتی ہے اور ملنی چاہیے۔ توسیع سے یہ مبارک خیال ذہنوں میں پختہ ہو جاتا ہے کہ ادارے نہیں‘ شخصیات اہم ہوتی ہیں! یہی ہماری بے مثال ترقی کا راز ہے جس پر جاپان سے لے کر امریکہ تک سب ممالک ہم پر رشک کرتے ہیں! حقیقت بھی یہی ہے کہ ادارے آنی جانی چیز ہیں۔ اداروں کی آخر اہمیت ہی کیا ہے! اصل سرمایہ تو شخصیات ہیں! وہ جو ایک جعلی قسم کا فضول محاورہ ہے کہ قبرستان ناگزیر لوگوں سے بھرے پڑے ہیں‘ تو وہ بالکل غلط محاورہ ہے۔ شخصیات کو آخری دم تک اداروں ہی میں رہنا چاہیے! کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کے جانے سے ادارے ختم ہو جائیں! ترقی یافتہ ممالک تو سوچ رہے ہیں کہ ملک الموت سے بھی توسیع کا تقاضا کرنا چاہیے اور کم از کم بھی ہزار یا پانچ سو سال کی توسیع کے لیے اپلائی کرنا چاہیے!
بلّھے شاہ! اساں مرنا ناہیں‘ گور پیا کوئی ہور

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں