جناب عمر ایوب کی خدمت میں ایک مخلصانہ مشورہ

خواجہ محمد صفدر مرحوم‘ پاکستان کے تیسرے آمرِ مطلق ضیاالحق کے ساتھیوں میں سے تھے۔ اُس عہد کی مجلس شوریٰ جنرل صاحب کی جیب کی گھڑی اور ہاتھ کی چھڑی تھی اور خواجہ صفدر اس مجلس شوریٰ کے چیئرمین تھے۔ خواجہ صفدر کے صاحبزادے خواجہ آصف اپنے والد کے قول و فعل کے ذمہ دار نہیں۔ (اور کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گی اور اگر کوئی بوجھ والی جان اپنے بوجھ کی طرف کسی کو بلائے گی تو اس کے بوجھ میں سے کچھ بھی نہیں اٹھایا جائے گا‘ اگرچہ قریبی رشتہ دار ہو۔ القرآن ) اس کے باوجود انہوں نے اپنے والد مرحوم کے اُس دور کے حوالے سے معافی مانگی جس کے دوران وہ جنرل ضیا کے ساتھ تھے۔
عمر ایوب صاحب نے کہا ہے کہ مارشل لاء ان کے دادا نے نہیں‘ اسکندر مرزا نے لگایا تھا۔ یہ وہی بات ہے جو ہمارے گاؤں کے ایک صوبیدار صاحب کے بیٹے نے کی تھی! صوبیدار صاحب کو ملازمت کے دوران گھر کے لیے بَیٹ مین ملا ہوا تھا‘ جو فوج میں ملا کرتا ہے۔ بیٹا ان کا چھوٹا تھا۔ گُڑ بہت کھاتا تھا۔ صوبیدار صاحب نے بچے کو سختی سے منع کیا کہ گُڑ نہ کھائے۔ ایک دن چھٹی کر کے گھر آئے تو بچہ مزے سے گڑ کھا رہا تھا۔ باپ نے ڈانٹا تو کہنے لگا: چاچے (یعنی بیٹ مین) کو ماریں‘ اس نے دیا ہے۔ عمر ایوب صاحب نے بھی سارا ملبہ اسکندر مرزا پر گرا دیا۔ جیسے فیلڈ مارشل صاحب بچے تھے۔ تو کیا یہ بھی اسکندر مرزا نے کہا تھا کہ انہیں ملک بدر کر کے خود صدر کا عہدہ سنبھال لیں؟ پھر دس سال تک مطلق العنان حکمران بن کر حکومت کریں اور جاتے وقت اپنے بنائے ہوئے آئین کو خود ہی روند کر اقتدار قومی اسمبلی کے سپیکر کے حوالے کرنے کے بجائے ایک اور جرنیل کو دے جائیں؟
تاریخ کسی کی حمایت کرتی ہے نہ مخالفت! وہ تو جو کچھ ہوا ہے‘ اسے بلا کم و کاست بیان کرتی ہے۔ تاریخ کو اس بات کی بھی پروا نہیں کہ کون کس کا دادا تھا‘ کون کس کا پوتا ہے اور کون کس کا فرزند ہے! کچھ لوگ اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ کوئی ایسا کام نہ کریں جس کی وجہ سے ان کی آئندہ نسلوں کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے!! جنرل صاحب نے یقینا معاملے کے اس پہلو پر غور نہیں کیا ہو گا۔ جو کچھ انہوں نے مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ کیا‘ وہی انہیں تاریخ میں سیاہ صفحات دلانے کے لیے کافی ہے۔ مذہبی جماعتوں کو ان کے خلاف اکسایا۔ یہاں تک کہ انہیں غدار قرار دیا۔ الیکشن میں دھاندلی کرائی۔ کراچی سے انہیں شکست نہ دلوا سکے تو اہلِ کراچی کو سزا دی گئی۔ ایوب خان کے صاحبزادے گوہر ایوب کی قیادت میں اردو سپیکنگ کمیونٹی پر حملے کیے گئے۔ غالباً یہ پہلا پٹھان مہاجر فساد تھا جو اُس وقت کی حکومت نے کرایا! مگر اس معاملے کو بھی چھوڑ دیجیے۔ ایوب خان کی فردِ عمل میں سب سے بڑا جرم مشرقی پاکستان کی علیحدگی ہے۔ جو واقعہ بھی رونما ہو‘ اس کی وجوہ دو حصوں میں منقسم ہوتی ہیں۔ ایک فوری وجہ ہوتی ہے۔ دوسری اصل وجہ ہوتی ہے۔ جو کچھ یحییٰ خان‘ بھٹو اور مجیب الرحمان نے 1970-71ء میں کیا‘ وہ فوری وجہ تھی۔ اصل وجوہ وہ تھیں جو ایوب خان کی دس سالہ آمریت میں پروان چڑھیں۔ یہ کالم نگار 1967ء میں ڈھاکہ یونیورسٹی میں بطور طالب علم داخل ہوا اور 1970ء تک وہیں رہا۔ اصل سوال جو مغربی پاکستانیوں سے پوچھا جاتا تھا‘ یہ تھا کہ جرنیلی دورِ حکومت کب تک رہے گا؟ ایوب خان کے جانے کے آثار مکمل طور پر مفقود تھے۔ دس سال ہونے کو تھے اور اقتدار سے ان کا جی نہیں بھرا تھا۔ انتقالِ اقتدار کا کوئی امکان تھا نہ طریق کار! کون جانشین ہو گا؟ مشرقی پاکستان یہ سوال پوچھتا تھا۔ وہ یہ سوال پوچھنے کا حقدار تھا۔ اس کی آبادی زیادہ تھی۔ اس کا حصہ فارن ایکسچینج کمانے میں زیادہ تھا۔ مگر اسے مکمل طور پر نظر انداز کیا جا رہا تھا۔ دارالحکومت بھی وہاں نہیں تھا۔ مشرقی پاکستان کی گورنری کبھی جنرل اعظم خان کو ملی اور کبھی غلام فاروق کو۔ کتنے مشرقی پاکستانی‘ مغربی پاکستان کے گورنر لگائے گئے؟ ایک بنگالی کو گورنر لگایا بھی تو منعم خان جیسے Non-entity کو‘ جو انتہا درجے کا Nincompoop تھا اور جس سے مشرقی پاکستانی نفرت کرتے تھے۔ عسکری آمریت کے خلاف مشرقی پاکستان میں لاوا دس سال پکتا رہا۔ عوام کے ذہنوں میں! اہلِ دانش (intelligentsia) کے ذہنوں میں! طلبہ اور طالبات کے ذہنوں میں! پورے ملک میں اس سوال کا جواب‘ کہ مشرقی پاکستان سے کب کوئی صدر بنے گا؟ صرف اور صرف ایک شخص کے پاس تھا اور وہ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان تھے! تاریخ کے جس صفحے پر یہ سوال لکھا ہے‘ وہ صفحہ سیاہ رنگ کا ہے۔اُس صفحے پر فیلڈ مارشل صاحب کی تصویر ہے۔ اس صفحے کے حاشیے پر ڈھاکہ یونیورسٹی کے ان اساتذہ اور طلبہ کی لاشوں کی تصویریں ہیں جو پچیس مارچ 1971ء کے ایکشن میں بے دریغ اور بلا تخصیص مارے گئے۔
دس سال تک آمر مطلق رہنے والے فیلڈ مارشل صاحب نے اقتدار اُس وقت چھوڑا جب‘ ایک مقبولِ عام روایت کی رُو سے‘ انہوں نے طفلانِ شہر کو ایک جانور کے حوالے سے بار بار وہ نعرہ لگاتے سنا جسے یہاں لکھنا ممکن نہیں! رخصت ہوتے وقت انہوں نے اُس جمہوریت کے تابوت میں آخری کیل گاڑی جس کے سینے میں وہ پورے دس سال تک خنجر گھونپتے رہے۔ انہوں نے اقتدار ایک اور مغربی پاکستانی جرنیل کے ہاتھ میں دے دیا۔ مشرقی پاکستان سے دشمنی کی یہ انتہا تھی۔
یہ ایک شام تھی! ایسی شام جو آج بھی یاد آتی ہے تو روح کی گہرائیوں سے ہچکیوں کی آواز سنائی دیتی ہے۔ میں ڈھاکہ یونیورسٹی کی لائبریری میں بیٹھا تھا۔ یہ پاکستان کی واحد لائبریری تھی جو ہفتے کے سات دن‘ چوبیس گھنٹے کھلی رہتی تھی۔ باہر تیز ہوا چل رہی تھی۔ لائبریری کے شیشوں سے املی اور کھجور کے جھومتے درخت نظر آ رہے تھے۔ یہ مارچ 1969ء کے آخری دن تھے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان جاتے ہوئے تختِ آمریت پر جنرل یحییٰ کو بٹھا کر ان کے سر پر تاجِ شاہی رکھ چکے تھے۔ میرا بنگالی کلاس فیلو بھی پاس ہی بیٹھا نجانے کس وقت سے اکنامکس کے Notes بنا رہا تھا۔ اب یہ یاد نہیں اس نے کہا یا میری تجویز تھی کہ چائے پی آئیں۔ اسی دوران اس نے وہ سوال پوچھا جس کا جواب‘ سچی بات ہے‘ علیحدگی کے سوا کوئی نہ تھا ''دس سال ایک جرنیل حکمرانی کرتا رہا! اب ایک اور جرنیل آ گیا ہے۔ اظہار! مجھے بتاؤ! کبھی یہ منصب کسی مشرقی پاکستانی کو بھی ملے گا!‘‘ دل چاہا اسے گلے لگا لوں اور دھاڑیں مار مار کر روؤں! مگر وہ بھی نہ ہو سکا! ایک دلگیر خاموشی کے سوا میرے دریدہ دامن میں کچھ نہ تھا!
اس سب میں عمر ایوب کا کوئی قصور نہیں! ان کی تو پیدائش ہی 1970ء کی ہے۔ تو وہ ناکردہ گناہوں کا بوجھ کیوں اٹھا رہے ہیں؟ خاندان کے بزرگوں کا احترام واجب ہے۔ اس پہلو سے ہم ان کے دادا جان کا پورا احترام کرتے ہیں۔ ہر شخص کو کرنا چاہیے۔ مگر ہمارا اُن کی خدمت میں پُرخلوص مشورہ ہے کہ محترم دادا جان کی دس سالہ آمریت اور جاتے ہوئے آئین کی افسوسناک خلاف ورزی پر قوم سے معافی مانگ لیں۔ بظاہر مشکل کام ہے مگر دل کڑا کر کے یہ کام کر دکھائیں۔ ایسا کرنے سے ان کے دل کو جو اطمینان نصیب ہو گا وہ تو ہو گا مگر قوم کی نظروں میں ان کا قد بہت بڑا ہو جائے گا۔ وہ ایک بڑے رہنما کے طور پر ابھریں گے! محترم اعجاز الحق صاحب کے لیے بھی مضمون واحد ہے!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں