گھمسان کی جنگ ہے۔ کشتوں کے پشتے لگ رہے ہیں۔ موضوع‘ بنیادی طور پر‘ قرادادِ مقاصد ہے۔ جناب وجاہت مسعود‘ جناب مجیب الرحمان شامی اور جناب خورشید ندیم میدان میں نبرد آزما ہیں۔ تینوں اصحاب علم و ادب‘ صحافت اور خطابت میں یکتائے روزگار ہیں۔ تینوں اردو لکھتے ہیں تواپنے اپنے انداز میں‘روشنیاں بکھیرتے جاتے ہیں! ان کے دیے ہوئے مصرع پر گرہ لگانا کم از کم مجھ جیسے نیم خواندہ کے بس کی بات نہیں۔ پھر بھی کچھ معروضات ایسی ہیں جو پیش ہونا چاہتی ہیں۔ میری مثال اُس شخص کی سی ہے جس کے تین بھائی عالم فاضل تھے اور وہ اَن پڑھ تھا۔ اس کا نام فتح محمد تھا۔ اَن پڑھ ہونے کی وجہ سے ''پھتّا‘‘ کہلواتا تھا۔ کسی شمار قطار میں نہ تھا۔ مگر بھائی تو تھا؛ چنانچہ جب بھائیوں کو گِنا جاتا تھا تو اس کا نام بھی ضرور ہوتا تھا۔ اس سے محاورہ ایجاد ہوا کہ ''پھَتّا وِچ بھراواں گَتّا‘‘۔ گَتّا ہماری لہندی پنجابی میں ''گننا‘‘ کا فعل مجہول ہے۔ یعنی پھَتا بھی بھائیوں میں گِنا جاتا ہے۔
قراردادِ مقاصد کو پچھتر سال ہو چکے ہیں۔ آج کے با شعور پاکستانی نوجوان کو اس سے غرض نہیں کہ قرارداد مقاصد غلط تھی یا صحیح ! پیش کرنی چاہیے تھی یا نہیں! پاس ہونی چاہیے تھی یا نہیں! اسے تو حتمی نتیجے ( End result) میں دلچسپی ہے۔ وہ تو Finished product کو دیکھنا چاہتا ہے۔ اس کا سوال یہ ہے کہ قراردادِ مقاصد سے ہمیں حاصل کیا ہوا؟ بہت سے دیگر قوانین اور آئینی شقوں کی طرح یہ قرارداد بھی صرف پاکستان ہی نے اپنائی۔ پچپن دیگر مسلم ممالک کو اس کی ضرورت نہ پیش آئی۔ ہم نے قرار دادِ مقاصد بھی پاس کر لی۔ اسے آئین کا جزو بھی بنا لیا۔ مذہب کی روایتی تعبیر بھی ہمارے پیش منظر پر چھائی ہوئی ہے۔ نام کے ساتھ بھی اسلامی جمہوریہ لگا ہے‘ مدارس کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے۔ مسجدیں بھی آباد ہیں۔ ہم میں سے اکثریت کا ظاہر بھی روایتی اسلام کے مطابق ہے! کیا اس سب کچھ کے بعد ہم ایک مثالی اسلامی ملک یا معاشرہ بن سکے؟ کیا دنیا میں ہماری دیانتداری کی مثالیں دی جاتی ہیں؟ حالت یہ ہے کہ ہم پر اعتبار کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں۔ پورنو گرافی سے لطف اندوز ہونے میں ہمارا‘ ایک سروے کی رُو سے‘ پہلا نمبر ہے! ایک کے بعد دوسری ریاست ہمارے شہریوں کے ویزے بند کرتی پھرتی ہے۔ کوئی ایسی خیانت نہیں جو ہم نے روا نہ رکھی ہو۔ ایفائے عہد‘ صدقِ مقال‘ اکلِ حلال کچھ بھی ہمارے پاس نہیں! ریڑھی والے سے لے کر ٹاپ تک ہم دروغ گوئی میں طاق ہیں! جہاں معصوم بچوں کو خالص دودھ نہ ملے اور دوائیاں جعلی ہوں‘ جہاں قدم قدم پر رشوت دے کر زندگی گزارنا پڑے وہاں آپ ایک قرارداد نہیں‘ سو قراردادوں کو آئین کا حصہ بنا دیں‘ قراردادیں قابلِ فخر نہیں ہوں گی! یہ درست ہے کہ قراردادِ مقاصد اس صورت حال کی ذمہ دار نہیں لیکن یہ بھی تو سچ ہے کہ وہ ہمیں اس صورت حال سے بچا بھی نہ سکی۔ قرار دادِ مقاصد کا ہمیں کوئی فائدہ نہ ہوا۔ مثالی مسلم ملک بننے کے لیے یہ قرارداد نہیں‘ کچھ اور اقدامات کی ضرورت تھی جو ریاست اٹھا سکی نہ کوئی حکومت! آج ہم دنیا میں اسلام کے حوالے سے نہیں‘ دہشت گردی کے حوالے سے جانے جاتے ہیں! ہماری شہرت بدنامی سے عبارت ہے۔ ہمار ی آستین پر سیالکوٹ میں مارے جانے والے سری لنکن کا خون لگا ہے۔ جڑانوالہ اور سرگودھا تو ہماری انتہاپسندی کی صرف دو مثالیں ہیں‘ ورنہ سچ یہ ہے کہ بیسیوں بار بین الاقوامی میڈیا میں سفاک خونریزی اور بربریت ہماری شناخت بن چکی ہے! (اس پر بھی غور فرما لیجیے کہ ملک کے کن طبقات نے ان واقعات کی مذمت نہیں کی؟) ہم تو یہی کہتے ہیں کہ اس میں قراردادِ مقاصد کا کوئی عمل دخل نہیں مگر قراردادِ مقاصد کی موجودگی میں یہ صورت حال ذہنوں میں سوالات اٹھاتی ہے۔ زبانوں کو سیا جا سکتا ہے‘ ذہنوں کو نہیں!!
آج کا طالب علم پوچھتا ہے کہ قراردادِ مقاصد قائداعظم کی وفات کے بعد ہی کیوں لائی گئی؟ ہم مسخ شدہ تاریخ کو اپنی خواہش کے رنگ کا کرتا پہنا کر پچھتر برسوں سے گلی گلی پھرا رہے ہیں! تاریخ کی نصابی کتابوں میں جوگندر ناتھ منڈل کا نام کیوں نہیں لکھا جا رہا؟ ہم آج کی نسل کو کیوں نہیں بتاتے کہ تقسیم سے پہلے 1946ء کی عبوری حکومت میں جوگندر ناتھ منڈل مسلم لیگ کی نمائندگی کر رہے تھے؟ آج کے پاکستانیوں کو کیوں نہیں بتایا جاتا کہ اسمبلی کے جس اوّلین اجلاس میں قائداعظم نے ملک کے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے حلف اٹھایا تھا‘ اس اجلاس کی صدارت جوگندر ناتھ منڈل نے کی تھی جو ملک کے پہلے وزیر قانون تھے۔ اُس طویل استعفے کو ہماری تاریخ کی کتابوں سے کیوں غائب کیا گیا ہے جو جوگندر ناتھ منڈل نے وزیراعظم کو پیش کیا تھا؟ پیر علی محمد راشدی کی تصنیف ''رودادِ چمن‘‘ جوگندر ناتھ منڈل سے‘ قائداعظم کی وفات کے بعد روا رکھے گئے شرمناک سلوک کی تفصیل بیان کرتی ہے۔ ایک طرف قائد کو ان پر اتنا اعتماد تھا کہ پہلے اجلاس کی صدارت ان سے کرائی‘ دوسری طرف ان کی وفات کے بعد اُن سے وہ سلوک روا رکھا گیا جس کی وجہ سے وہ واپس کلکتہ چلے گئے اور باقی عمر بھارتی ہندوؤں کے طعنے سنتے رہے۔ یہ ایک فرد کی داستان نہیں۔ یہ ایک خاص مائنڈ سیٹ کا آغاز تھا جس نے پاکستان کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ اس کا آغاز جوگندر ناتھ منڈل جیسی شخصیات کو رَد کرنے سے ہوا۔ آج یہ مائنڈ سیٹ اپنے نقطۂ عروج پر ہے جس کی جھلک بار بار دکھائی دیتی ہے۔ کبھی سیالکوٹ میں‘ کبھی جڑانوالہ اور سرگودھا میں! کبھی خوشاب کی تحصیل قائد آباد میں‘ جہاں بینک کا گارڈ بینک کے منیجر کو گولی سے مار دیتا ہے اور پورا شہر گارڈ کے اعزاز میں جلوس نکالتا ہے! ایسے بے شمار واقعات ہیں جن کے سرسری ذکر سے بھی کالم کی تنگ دامانی عاجز ہے! یہ تناور درخت اُس بیج کا نتیجہ ہے جو قائد کی وفات کے بعد بویا گیا تھا! بقول سعدی ؎
سرِ چشمہ شایَد گرفتن بہ بیل
چو پُر شد نشاید گذشتن بہ پیل
ابتدا میں پانی کے چشمے کو ایک بیلچے سے بھی بند کیا جا سکتا ہے مگر جب پانی سے بھر جائے تو ہاتھی پر سوار ہو کر بھی نہیں گزرا جائے گا۔
یہ جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے دو مسلمان پروفیسر ہیں جنہوں نے 2010ء سے ایک انڈیکس سسٹم شروع کیا جس سے وہ دنیا کے مسلمان اور غیر مسلم ممالک کو قرآن اور حیات پاک (ﷺ) کی کسوٹی پر ماپتے ہیں کہ کون کون سی حکومتیں ریاست کے قرآنی اصولوں پر چل رہی ہیں! یہ کسوٹی چار بڑے عوامل پر مشتمل ہے۔ 1: قرآن و سنت کے معاشی اصول۔ 2: قرآن و سنت کے قانون اور گورننس کے اصول۔ 3: قرآن و سنت کی رُو سے انسانی اور سیاسی حقوق۔ 4: قرآن و سنت کی رُو سے بین الاقوامی تعلقات۔ 2010ء سے لے کر 2022ء تک کوئی مسلمان ملک پہلے چالیس ملکوں میں نہیں آ سکا۔ 2022ء کے Islamicity Index کی رُو سے ڈنمارک پہلے نمبر پر ہے جہاں اسلامی تعلیمات‘ اقدار اور ادارے دکھائی دیتے ہیں۔ اس سے پہلے مسلسل چھ سال تک نیوزی لینڈ ٹاپ کرتا رہا۔ اس کے بعد نیدرلینڈز‘ سویڈن‘ سوئٹزرلینڈ‘ ناروے‘ آئس لینڈ اور آئرلینڈ کا نمبر آتا ہے۔ یو اے ای کا نمبر 48 ہے۔ انڈو نیشیا کا 62‘ سعودی عرب کا 90‘ اور پاکستان کا 136 ہے۔ یہ جو کروڑوں مسلمان مغربی ملکوں کو ہجرت کر گئے ہیں اور جو کروڑوں جانے کے لیے قطار میں کھڑے ہیں‘ ان کا دماغ خراب نہیں کہ وطن چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ یہاں فریقین قرار دادِ مقاصد میں الجھے ہوئے ہیں۔ اور کروڑوں مسلمان‘ انصاف اور مساوی مواقع کے حصول میں اُن ملکوں کو جا رہے ہیں جہاں کسی قرارداد کا جھگڑا نہیں۔ ع
سخن شناس نہ ای جان من! خطا این جاست