معروف و مقبول کالم نگار جناب جاوید چودھری نے اپنی ایک حالیہ تحریر میں ایک واقعہ بیان کیا ہے۔ بھٹو صاحب جب وزیر اعظم تھے‘ اُن کے ایک بہادر اے ڈی سی نے ایک خطرناک دھماکے میں اُن کی جان بچائی۔یہ اے ڈی سی فارن سروس میں جانا چاہتے تھے۔ جنرل ضیا نے بھٹو صاحب کا تختہ الٹ دیا۔مری میں دونوں کی ( نا خوشگوار) ملاقات ہوئی۔ جنرل نے اپنے سابق حکمران سے پوچھا: سر کوئی حکم ؟بھٹو صاحب نے کہا کہ ان کے دونوں اے ڈی سیز کو فارن سروس میں پوسٹ کر دیا جائے۔ دوسرے دن جنرل صاحب نے دونوں افسروں کو مسلح افواج سے فارن سروس منتقل کر دیا۔ ہم نے یہ واقعہ بہت اختصار سے بیان کیا ہے۔ اب ایک اور واقعہ سنیے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ بابائے قوم قائداعظم نے زندگی کے آخری ایام زیارت میں گزارے۔جو نرس اُن کی خدمت پر مامور تھی اس نے استدعا کی کہ اس کا تبادلہ فلاں جگہ کرا دیا جائے۔ قائداعظم نے جواب دیا کہ یہ محکمہ صحت کا کام ہے۔ وہ اس کے کام میں مداخلت نہیں کریں گے۔
یہ ہے فرق قائداعظم کے پاکستان میں اور ان کے بعد کے پاکستان میں! مسلح افواج کا سول سروسز میں دس فیصد حصہ ہے۔مگر اس کا ایک طریق کار‘ ایک سسٹم‘ ایک نظام ہے جو ظاہر ہے‘ عمل میں نہیں لایا جاتا۔ پھر یہ دس فیصد حصہ سول سروس کے تمام گروپوں میں ہے جن میں ریلوے‘ پوسٹل سروس‘ سیکشن افسر‘ کسٹم‘ انکم ٹیکس‘ آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس سروس‘ کامرس اینڈ ٹریڈ‘ اور انفارمیشن سروس سمیت سب گروپ شامل ہیں۔ ہوا یہ کہ مسلح افواج سے جو افسران سول سروس میں آئے وہ کم و بیش سب سفارش سے آئے اور آئے بھی ضلعی انتظامیہ میں‘ یا فارن سروس میں یا پولیس سروس میں۔ ضلعی انتظامیہ اور پولیس میں حکمرانی اور طاقت ہے۔ فارن سروس میں سیر و سیاحت کے مزے ہیں! اور آج تک مسلح افواج سے جو افسر اِن تینوں سروسز میں منتقل ہوئے وہ یا تو کسی نہ کسی صدر یا وزیر اعظم کے اے ڈی سی تھے یا کسی وزیر‘ کسی جرنیل‘ کسی بااثر خاندان کے چشم و چراغ!!شاید ہی کوئی ایسا فوجی افسر سول سروس کے ان شعبوں میں آیا ہو جو کسی عام گھرانے سے ہو‘ اے ڈی سی نہ رہا ہو‘ کسی وزیر یا جرنیل کا بیٹا یا داماد نہ ہو یا سیاسی اثر و رسوخ نہ رکھتا ہو! آپ کا کیا خیال ہے قائداعظم کا اے ڈی سی ان سے فرمائش کرتا کہ مجھے ضلعی انتظامیہ میں بھجوا دیجیے یا پولیس یا فارن سروس میں تو اُن کا کیا رد عمل ہوتا؟ آپ کو بھی معلوم ہے اور مجھے بھی! اُن کا جواب ہوتا کہ نوجوان! اس کا ایک طریق کار ہے۔ میں اس میں مداخلت نہیں کروں گا۔ ہم نے قائد کے پاکستان کے پرخچے اُڑا دیے! اسے بھنبھوڑ بھنبھوڑ کر کھایا‘ نوچا اور آج پاکستان ایک لاش کی صورت پڑا ہے۔ بھٹو صاحب کے اے ڈی سی‘ ضیا الحق کے اے ڈی سی‘ نواز شریف صاحب کے اے ڈی سی!سب نے فوج کو پشت دکھائی اور سر سبز چراگاہوں کی تلاش میں کہاں سے کہاں جا پہنچے! جو فوجی افسر اہلیت رکھتے تھے‘ جو شفاف مقابلے میں کامیاب ہوتے‘ انہیں نظر انداز کیا گیا۔ انہیں زیر غور آنے کا موقع ہی نہ دیا گیا۔
یہی حال بیرونِ ملک تعیناتیوں کا ہوا! سفارش‘ سفارش اور سفارش ہی واحد معیار تھا۔ جو ڈی سی اور ایس پی پنڈی‘ لاہور میں پوسٹ ہوتا ہے اس کے فرائض میں شامل ہے کہ ایئر پورٹ پر وزیر اعظم‘ صدر یا وزیر اعلیٰ کو رخصت بھی کرے اور استقبال بھی کرے۔ ان مواقع سے راستے نکالے گئے۔ بہت سے ان راستوں سے بیرونِ ملک تعینات ہوئے۔ کچھ وزیروں اور بااثر عمائدین کو سیڑھی بنا کر نکل گئے۔ کچھ سول سرونٹ دو دو تین تین بار بیرونِ ملک پوسٹ ہوئے۔ کچھ کو ایک بار بھی یہ موقع نہ ملا۔فارن کورسز کا بھی یہی حال رہا۔
ظلم کسے کہتے ہیں؟ کتابوں میں ظلم کی تعریف یوں کی گئی ہے ''وَضعُ الشَّی ئِ فِی غَیرِ مَحَلِّہ‘‘ یعنی کسی چیز کو وہاں رکھنا جہاں اس کی جگہ نہیں ہے۔ آپ میز پر بیٹھ جائیں گے اور کھانا کرسی پر رکھیں گے تو یہ ظلم ہو گا۔ اسی طرح اپنے پسندیدہ یا سفارشی فرد کو ایسی جگہ تعینات کرنا جس کا وہ اہل ہے نہ مستحق‘ ظلم ہے اور اس ظلم کا کل جواب دینا ہو گا۔ پاکستان میں یہ ظلم خوب خوب ہوا اور ہوئے جا رہا ہے۔ جس کو جتنا زیادہ موقع ملا‘ اُس نے اتنا ہی زیادہ ظلم کیا۔ جنرل ضیاء الحق نے اپنے پسندیدہ افسروں کو بیرونِ ملک نو نو‘ دس دس سال ایک ہی عہدے پر رکھا۔ ایک صاحب ان کے بہت منہ چڑھے تھے۔ ہر سال ان کی لمبی چوڑی دعوت کرتے تھے۔ ان کے قریبی عزیز کو پہلے سول سروس میں فِٹ کیا۔ اس پر تسلی نہ ہوئی تو اسے بیرونِ ملک تعینات کیا۔ جنرل پرویز مشرف نے اس ظلم کو انتہا پر پہنچا دیا۔ کسی کو پوسٹل کے محکمے کا سربراہ لگا دیا۔ اس کا اس سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اپنے ایک پسندیدہ شخص کو وفاقی تعلیم کا ڈی جی لگا دیا۔ پھر اسے پانچ بار توسیع دی۔جن کا حق تھا وہ عدالتوں میں جوتیاں چٹخا چٹخا کر‘ ریٹائر ہو گئے۔ ایک صاحب انجینئرنگ کے شعبے سے تعلق رکھتے تھے۔ ریٹائرمنٹ پر جنرل صاحب کو ملے۔ پوچھا: آج کل کیا کرہے ہو؟ کہا: تعلیم کے موضوع پر کچھ پڑھ رہا ہوں۔ بس! انہیں سول سروس کے ایک بہت بڑے تربیتی ادارے کا سربراہ بنا دیا۔ ایک جج صاحب کے ڈاکٹر صاحبزادے کو ایف آئی اے میں فکس کیا گیا۔ انڈونیشیا میں پاکستانی سفارت خانے کی عمارت کو بیچنے کا قصہ ہم سب نے کئی بار پڑھا اور سنا ہے۔ نام نہاد جمہوری حکومتوں میں بھی یہی کچھ ہوتا رہا۔ ایک سیاستدان کی بیٹی کو سی ایس ایس کیے بغیر بیرونِ ملک سفارتخانے میں لگا دیا گیا۔ ہمارے معزز ارکانِ پارلیمنٹ کی جیبیں ایسی سفارشی چٹوں سے بھری رہتی ہیں جن پر تعیناتیوں اور تبادلوں کی تفصیلات درج ہوتی ہیں۔ہر ایم این اے‘ ایم پی اے اپنے علاقے میں مرضی کے افسر ان چاہتا ہے اور اس کی یہ خواہش متعلقہ صوبے کا وزیر اعلیٰ‘خوشی سے‘ یا مجبوراً پوری کرتاہے۔
سنگا پور‘ جاپان‘ برطانیہ‘ آسٹریلیا‘ امریکہ‘ کینیڈا‘ فرانس وغیرہ میں ایسا نہیں ہوتا۔ وہاں کوئی حکمران کسی بھی معاملے کے دستوری اور قانونی طریق کار میں دخل نہیں دے سکتا۔ قائداعظم کا پاکستان بھی ایسا ہی تھا!ہر کام‘ ہر فرمان‘ قانون کے مطابق! تا کہ سسٹم مضبوط ہو‘ نظام مبنی بر انصاف ہو‘ اور ملک ترقی کرے۔ افسوس! قائد کا وہ پاکستان آج تاریخ کی کتابوں ہی میں دیکھا جا سکتا ہے۔جب تعیناتیوں‘ پوسٹنگ ٹرانسفر‘ اور ترقیوں میں سفارش کی بنیاد پر دھاندلی ہو‘ تو ہر شعبہ نااہلوں کے ہاتھ میں آجاتا ہے۔ملک نیچے چلا جاتا ہے۔نظام بر باد ہو جاتا ہے۔ ادارے‘ ادارے نہیں رہتے‘ مُردہ ڈھانچوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں میں حکمران ماٹھا بھی ہو تو ادارے اپنی مضبوطی کے سبب نظام کو پٹری سے نیچے نہیں اُترنے دیتے کیونکہ اداروں کی افرادی قوت میرٹ کی بنیاد پر لگائی جاتی ہے۔ اور ادارے کے کام میں اوپر سے مداخلت نہیں ہوتی۔ ہمارے ہاں ادارے کا سربراہ لائق ہو تب بھی نتیجہ صفر ہوتا ہے کیونکہ ادارے کا سربراہ سیاسی اور حکومتی مداخلت کے سامنے بے بس ہوتا ہے۔ بہت بہادر بنے گا اور انکار کر دے گا تو شام سے پہلے تبادلہ ہو جائے گا اور نیا آنے والا اپنے پیشرو کے انجام سے ڈرے گا۔ اداروں کی مشینری ( اہلکار + افسر ) بھی مداخلت کے بغیر کام نہیں کرتے۔ کچھ ہفتے پیشتر ایک وفاقی ادارے میں کام پڑا۔ معلوم ہوا پچاس ہزار روپے ''ریٹ‘‘ ہے۔ پوچھا: نہ دیں تو پھر ؟ بتایا گیا: کئی مہینے لگ جائیں گے۔
ادارے کے ایک بڑے افسر سے مداخلت کرائی تو ایک ہفتے میں ''ریٹ‘‘ کے بغیر کام ہوا۔ یہ ہے ہمارا پاکستان اور وہ تھا قائداعظم کا پاکستان!!