سردار سلیم حیدر خان صوبہ پنجاب کے پہلے (غیر فوجی) گورنر ہیں جن کا تعلق ضلع اٹک سے ہے۔ اس سے پہلے‘ پنڈی گھیب (ضلع اٹک) سے تعلق رکھنے والے جنرل اقبال خان بھی‘ جولائی 1993ء سے مارچ 1994ء تک گورنر رہے مگر وہ سیاستدان نہ تھے۔ سردار سلیم حیدر سیاسی کارکن ہیں۔ اپنی پارٹی (پی پی پی) سے ہمیشہ وفاداری نبھائی۔ پیپلز پارٹی سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ مجھے بھی ہے! مگر اس پارٹی کے اس وصف کو ضرور سراہنا چاہیے کہ یہ اپنے پرانے کارکنوں کو عزت دیتی ہے۔ سردار سلیم حیدر خان کو جب گورنر بنانے کی بات ہوئی تو پارٹی کے اندر بہت سے لوگ چونکے! چہ میگوئیاں ہوئیں! پنجاب کا گورنر؟ فتح جنگ سے؟ مگر پارٹی کی قیادت نے اپنا فیصلہ بر قرار رکھا۔ اس سے یاد آ رہا ہے کہ جب‘ بہت عرصہ پہلے‘ میری تعیناتی پی او ایف بورڈ‘ واہ‘ کے ممبر فنانس اور مالی مشیر کے طور پر ہوئی تو جو صاحب میرے پیشرو تھے اور جن سے مجھے چارج لینا تھا اور جن کا تعلق بِہار سے تھا‘ بہت پریشان ہوئے کہ یہ فتح جنگ قسم کے لوگ تو واہ میں ڈرائیور اور زیادہ سے زیادہ کلرک لگتے ہیں‘ یہ بورڈ کے ممبر اور مالی مشیر کیسے لگ سکتے ہیں؟
سردار سلیم حیدر خان صاحب کے گاؤں کا نام ڈُھرنال ہے۔ یہ فتح جنگ اور کھوڑ کے درمیان‘ شاہراہ کے مشرقی کنارے پر آباد ہے۔ میرا گاؤں (جھنڈیال) اسی شاہراہ کے مغربی طرف واقع ہے اور ڈھرنال کا پڑوسی گاؤں ہے کہ درمیان میں اور کوئی گاؤں نہیں پڑتا۔
1998ء میں جب میری والدہ ماجدہ کی وفات ہوئی تو سردار سلیم حیدر خان‘ تعزیت کے لیے پُھوہڑی پر تشریف لائے تھے۔ ہمارے خاندان کی ایک شاخ ڈُھرنال میں موجود ہے مگر بزرگوں کے بعد اس سے رابطہ ختم ہو گیا۔ سردار سلیم حیدر خان صاحب نوجوان نہیں‘ مگر جوان ضرور ہیں۔ ہو سکتا ہے ان کے علم میں نہ ہو کہ اس فقیر کے دادا جان تقریباً 50برس جھنڈیال میں بیٹھ کر درس وتدریس کا کام کرتے رہے۔ وہ فقہ اور فارسی ادب پڑھانے کے لیے مشہور تھے۔ پورے برصغیر سے طلبہ ان کے ہاں آتے تھے یہاں تک کہ بنگال‘ آسام‘ کشمیر اور کابل سے بھی۔ ایک وقت ایسا بھی تھا کہ طلبہ کی تعداد اڑھائی سو تھی۔ طلبہ کا قبرستان الگ تھا جو آج بھی پرانے آثار کی طرح موجود ہے۔ تحصیل فتح جنگ میں اور بھی کئی مدارس تھے۔ یہ علاقہ علم و ادب کے حوالے سے ماضی میں ہمیشہ زرخیز رہا ہے۔ خواتین کی تعلیم میں بھی‘ ایک زمانے میں‘ دوسرے کئی علاقوں سے آگے تھا۔ گورنر صاحب نے حال ہی میں حکم دیا ہے کہ ضلع اٹک کے ہر تحصیل ہیڈ کوارٹر میں تینوں بڑی یونیورسٹیوں کے کیمپس کھولے جائیں۔ یہ اقدام انقلابی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ اٹک کا ضلع‘ تختِ لاہور سے دور ہونے کی وجہ سے بہت سی سہولتوں سے محروم چلا آ رہا ہے۔ لاہور میں واقع ''پنجاب پبلک سروس کمیشن‘‘ کی بے نیاز نگاہیں اس ضلع پر کم ہی پڑتی رہی ہیں۔
میں ان سطور کے ذریعے قابلِ احترام گورنر کی توجہ دو امور کی طرف مبذول کرنا چاہتا ہوں۔ اوّل یہ کہ ضلع اٹک کی پسماندگی کی جو بنیاد انگریز حکومت رکھ گئی تھی‘ وہ آج 76سال بعد بھی جوں کی توں قائم ہے۔ جیسا کہ ہر شخص جانتا ہے‘ 1857ء سے لے کر پہلی اور دوسری عالمی جنگوں تک‘ ضلع اٹک کی افرادی قوت نے انگریز سرکار کی بہت مدد کی۔ یہاں کے نوجوان یورپ‘ افریقہ‘ مڈل ایسٹ اور برما میں لڑے۔ جنگ کے اس ایندھن کی سپلائی کو جاری رکھنے کے لیے انگریز سرکار نے دو فیصلے کیے جو اُن کی استعمارانہ ذہنیت کے آئینہ دار تھے اور جو اس علاقے کے لیے حد سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوئے۔ ایک یہ کہ جب وسطی پنجاب میں نہری نظام قائم کیا گیا تو اٹک کے ضلع کو نہری نظام سے محروم رکھا گیا حالانکہ اگر جہلم‘ راوی اور چناب سے نہریں نکل سکتی تھیں تو دریائے سندھ کے مشرقی کنارے سے بھی نہریں نکالی جا سکتی تھیں۔ لیکن اگر فتح جنگ‘ پنڈی گھیب جنڈ اور فتح جنگ کے علاقے میں نہریں آ جاتیں تو اس سے زرعی آمدنی بڑھ جاتی۔ کسان خوشحال ہو جاتے اور نوجوان فوجی بھرتی سے گریز کرتے۔ مقصد انگریز سرکار کا یہ تھا کہ نوجوانوں کو فوجی بھرتی کے علاوہ اور کوئی آمدنی کا ذریعہ نہ ملے۔ چنانچہ اس ضلع کو آبپاشی کے ذرائع سے‘ یعنی نہروں سے‘ محروم رکھا گیا۔ دوسرا فیصلہ انگریز سرکار کا یہ تھا کہ اس ضلع کو صنعت سے بھی محروم رکھا جائے تاکہ نوجوانوں کو نوکری کے لیے فیکٹریاں اور کارخانے نظر نہ آئیں اور وہ فوج میں بھرتی کے لیے مجبور ہو جائیں۔ وہ تو بھلا ہو مسلح افواج کا کہ واہ‘ سنجوال اور کامرہ میں فیکٹریاں لگیں اور مقامی لوگوں کو کچھ ملازمتیں مل گئیں۔ لیکن سردار صاحب غور فرمائیں کہ ترنول سے فتح جنگ تک‘ فتح جنگ سے خوشحال گڑھ اور مکھڈ تک‘ اور فتح جنگ سے پنڈی گھیب تک کوئی کارخانہ‘ کوئی فیکٹری نہیں ہے۔ یہ فقیر جب پی او ایف واہ کا بورڈ ممبر اور مالی مشیر تھا تو کوشش کر رہا تھا کہ سُرلہ اور ڈُھرنال کے درمیانی علاقے میں ایک فیکٹری لگ جائے مگر ابھی بات چیت جاری تھی کہ وہاں سے تبادلہ کر دیا گیا۔ گورنر صاحب کی خدمت میں گزارش ہے کہ سرکاری محکمۂ صنعت اور نجی شعبہ‘ دونوں کو آمادہ فرمائیں کہ اس علاقے پر توجہ دیں اور صنعتیں لگائیں تاکہ مردوں اور عورتوں‘ دونوں کو روزگار مل سکے!
دوسری گزارش یہ ہے کہ اُس وقت کے ضلع ناظم سے میں نے‘ اپنے گاؤں کے وفد کے ہمراہ ملاقات کی تھی اور تین کاموں کی منظوری لی تھی۔ ایک گاؤں سے قبرستان تک پکی سڑک بنوانا‘ دوسرا لڑکوں کے پرائمری سکول کو مڈل تک کرانا اور تیسرا گاؤں میں سرکاری ڈسپنسری کا قیام!! پہلے دو کام تو ہو گئے تھے مگر تیسرا کام ابھی تک نہیں ہوا حالانکہ جھنڈیال کے سردار تاج خان نے اپنی چار کنال زمین حکومت پنجاب کے نام اُسی وقت کرا دی تھی۔ پندرہ برس سے یہ منظور شدہ ڈسپنسری نہیں قائم ہو رہی کیونکہ لاہور کی منہ زور بیورو کریسی کے لیے پنجاب کا یہ آخری مغربی ضلع کسی توجہ کا مستحق نہیں۔ سابق بیورو کریٹ ہونے کے باوجود میں اس کام کو کرانے میں ناکام رہا۔ صحافتی سطح پر بھی کوشش کی مگر مسئلہ حل نہ ہوا۔ ایک روایت یہ بھی پہنچی کہ اس غریب کی کالم نگاری سے کچھ بڑے لوگ ناخوش تھے چنانچہ غصہ پورے گاؤں پر نکالا گیا۔ بہرطور‘ آپ کی خدمت میں گزارش ہے کہ پنجاب کے محکمۂ مالیات کو حکم دیجیے کہ اس ڈسپنسری کے لیے مطلوبہ فنڈز مہیا کریں! زمین پہلے ہی حکومت کے نام کی جا چکی ہے۔ آپ اتفاق فرمائیں گے کہ جھنڈیال میں ڈسپنسری بنی تو اردگرد کے تمام گاؤں‘ (کِھدوال‘ میکی ڈھوک‘ دُھلیال‘ سِکھوال‘ سِدھریال) سب فائدہ اٹھا سکیں گے کیونکہ یہ ڈسپنسری ان تمام بستیوں کو نزدیک پڑے گی۔
ہم ضلع اٹک کے لوگ‘ خاص طور پر تحصیل فتح جنگ کے عوام‘ خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہماری مٹی کا ایک فرزند گورنر کے منصب پر فائز ہوا ہے۔ آپ یقینا پورے صوبے کے مفادات کے محافظ ہیں۔ انصاف یہ ہے کہ ضلع اٹک ترقیاتی منصوبوں میں‘ عام طور پر‘ نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ آپ خود گاؤں جاتے ہیں تو نوٹ کرتے ہوں گے کہ ''گلی‘‘ سے آگے سڑک کا برا حال ہے۔ تعلیمی اداروں کی بھی کمی ہے۔ خاص طور پر لڑکیوں کے لیے تعلیمی میدان میں آگے بڑھنے کے امکانات بہت کم ہیں۔ زراعت کے لیے صرف اور صرف بارش پر انحصار‘ صنعت کا فقدان‘ بستیوں کے درمیان پکی سڑکوں کا نہ ہونا‘ تعلیمی سہولتوں کی کمی‘ ان سب عوامل نے ضلع اٹک کو پسماندہ کر رکھا ہے۔ ہمیں امید ہی نہیں یقین ہے کہ آپ‘ اس سلسلے میں‘ ہر ممکن کوشش کریں گے!