جان فرانسس پرانا دوست ہے۔ میلبورن کے قیام کے دوران اس سے ضرور ملاقات ہوتی ہے۔ وہ اپنی دوسری بیگم کے ساتھ‘ جس کا تعلق چلی سے ہے‘ ہماری قیام گاہ کے قریب ہی رہتا ہے۔ دونوں میاں بیوی کے پوتوں‘ نواسوں کی کُل تعداد ایک درجن کے قریب ہے۔ اتوار کو ان کے گھر گویا میلے کا سماں ہوتا ہے۔ جان فرانسس بیس‘ پچیس برس نیوزی لینڈ میں ایک مجلے کا مدیر رہا۔ پھر اپنی جنم بھومی‘ آسٹریلیا واپس آ گیا۔ آج کل ڈاکیومنٹریز بنانے کا کام کر رہا ہے اور ساتھ صحافت بھی!!
ہماری طویل نشستیں ہوتی ہیں۔ کبھی کبھی ان نشستوں میں اس کے صحافی دوست بھی شامل ہوتے ہیں۔ ہم پاکستانی یہ سمجھتے ہیں کہ ان غیر ملکیوں اور غیر مسلموں کو اسلام کے بارے میں کچھ پتا نہیں!! مگر ایسا نہیں ہے۔ مجھے وہ امریکی سیاح نہیں بھولتا جس نے سالہا سال پہلے الحمرا (غرناطہ ) میں‘ شیروں کے اُن مجسموں (Court of Lions) کے قریب‘ جن کے دہانوں سے پانی کے فوارے ابل رہے تھے‘ مجھ سے پوچھا تھا کہ اسلام میں تو کسی جاندار کا مجسمہ بنانے کی اجازت نہیں‘ پھر اندلسی خلفا شیروں کے یہ مجسمے کیوں بنواتے رہے؟ جان فرانسس اور اس کے دوستوں کی معلومات بھی اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں اچھی خاصی ہیں۔ نہلے پر دہلا یہ ہوا کہ ان میں سے ایک صاحب کچھ عرصہ کراچی رہ آئے تھے۔ اُس دن ہم جان فرانسس کے گھر سے نکلے اور پیدل چلتے ہوئے برگنڈی سٹریٹ تک گئے۔ پھر ایک کیفے میں بیٹھے اور کافی کا آرڈر دیا۔ جان فرانسس یاد کرنے لگا کہ کچھ عرصہ پہلے جب ہم سب کافی پینے نکلے تو میرا روزہ تھا۔ اس پر گفتگو کا رُخ رمضان کی طرف مُڑ گیا۔ جو صاحب پاکستان رہ کر آئے تھے‘ مسکرا کر کہنے لگے ''مسٹر اظہار! ویسے ایک بات ہے! آپ لوگوں کا اسلام آسان بہت ہے!‘‘۔ اس کی یہ بات سنی تو ذہن میں اقبال کا شعر آگیا:
چو می گویم مسلمانم‘ بلرزم
کہ دانم مشکلاتِ لا الٰہ را
مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے کانپ اٹھتا ہوں کیونکہ اس راستے کی مشکلات سے آگاہ ہوں! مگر اسے شعر سنانے اور سمجھانے کے بجائے یہ پوچھا کہ ہمارا اسلام آسان کیسے ہے؟ کہنے لگا: تم لوگ رمضان میں جھوٹ‘ وعدہ خلافی‘ گالی گلوچ اور دیگر رذائل سے بچتے ہو۔ اس کا مطلب واضح ہے کہ رمضان کے علاوہ ان سے بچنے کی ضرورت نہیں۔ اگر سارا سال تم ان برائیوں سے بچتے رہو تو رمضان میں خصوصی تاکید کی کیا ضرورت ہے؟ تو پھر یہ آسان اسلام ہی تو ہے کہ جن برائیوں سے ہم مغربی ملکوں کے رہنے والے سال کے بارہ ماہ‘ ہفتے کے سات دن اور رات دن کے چوبیس گھنٹے احتراز کرتے ہیں‘ تم لوگ صرف ایک ماہ ان سے بچ کر جنت کے حقدار ہو جاتے ہو!
پھر تم محرم کے دس دن شہادتِ حسینؓ کا ذکر کرتے ہو اور عزاداری کرتے ہو۔ مگر باقی گیارہ مہینے یزیدیت میں گزارتے ہو۔ اسوۂ حسینؓ تمہیں عملی زندگی کے معاملات میں یاد نہیں رہتا۔ اُس زمانے میں حکمران بیعت لیتا تھا۔ آج کا حکمران ووٹ مانگتا ہے۔ تم محرم کے دس دن رو رو کر یاد کرتے ہو کہ امام نے سر کٹا دیا‘ گھر لُٹا دیا مگر ایک فاسق کی‘ ایک خائن کی‘ ایک غیر مستحق کی بیعت نہیں کی۔ مگر خود ہر خائن‘ ہر کذّاب‘ ہر دروغ گو‘ ہر فاسق کو ووٹ دیتے ہو۔ اگر تم حسینی ہوتے تو تمہاری اسمبلیوں میں ارب پتی اور ٹیکس چور نہ بیٹھے ہوتے۔ تو پھر تمہارا اسلام اس حوالے سے بھی آسان ہی ٹھہرا کہ دس دن حسینؓ کے ساتھ اور باقی سارا سال یزید اور یزیدیوں کے ساتھ!! پھر تم سال میں ایک بار میلاد النبی مناتے ہو۔ جلوس نکالتے ہو۔ جلسے کرتے ہو۔ تمہارے مذہبی رہنما سیرتِ طیبہ پر تقریریں کرتے ہیں۔ مٹھائیاں اور پکوان بٹتے ہیں۔ مگر میلاد کے موقع کے سوا تمہیں سیرتِ رسول کبھی یاد نہیں آتی! تمہارے پیغمبر تین دن ایک جگہ کھڑے رہے کہ انتظار کرنے کا وعدہ کیا تھا مگر تمہارے ہاں تو وعدہ ایفا کرنے کا کوئی تصور ہی نہیں۔ تم تو انفرادی سطح پر بھی وعدہ خلاف ہو اور قومی سطح پر بھی! تمہاری کابینہ کے اجلاسوں سے لے کر‘ ٹرینوں اور ہوائی جہازوں کے اوقات تک‘ ہر شے وعدہ خلافی سے بھری ہوئی ہے۔ تم لوگ‘ جہاں بھی پہنچنا ہو‘ مقررہ وقت کے گھنٹوں بعد پہنچتے ہو اور جرم کے احساس تک سے عاری ہوتے ہو۔ تمہارا کوئی منصوبہ وقت پر اختتام پذیر نہیں ہوتا یہاں تک کہ تین‘ چار کلو میٹر لمبی شاہراہ بھی تعمیر کرنی ہو تو اس کی تکمیل کے لیے بھی مقررہ مدت میں تین تین‘ چار چار بار توسیع کرنا پڑتی ہے۔ تمہارے رسول تاجر تھے۔ تجارت میں ان کی بے مثال دیانت دیکھ کر ہی انہیں شادی کی پیشکش کی گئی تھی۔ مگر افسوس! تمہارے تاجروں کی بددیانتی ضرب المثل بن چکی ہے۔ تمہارے کروڑوں کے سودے خود تمہارے عرب بھائیوں نے سمندر میں گرا دیے۔ تم کپاس برآمد کرتے ہو تو اس میں پتھر ڈالتے ہو اور مشروم برآمد کرو تو اس میں چھرے رکھ دیتے ہو۔ دنیا میں تم پر اعتبار کوئی نہیں کرتا۔ جھوٹ تمہارا اوڑھنا بچھونا ہے۔ تم بچے کو سب سے پہلی تربیت جھوٹ بولنے کی دیتے ہو۔ تمہارے ہاں ہر شخص جھوٹ بولتا ہے اور اسے جھوٹ سمجھتا ہی نہیں۔ اولاد والدین سے‘ والدین اولاد سے‘ آجر مزدور سے‘ مزدور آجر سے‘ حکمران عوام سے اور عوام حکمران سے‘ غرض سب ایک دوسرے سے جھوٹ بولتے ہیں۔ ذہنی طور پر اتنے گل سڑ چکے ہو کہ بیٹی پیدا ہونے پر بیوی کو پیٹتے ہو یا طلاق دے دیتے ہو اور بیٹی کی پیدائش پر موت تمہارے مسٹروں اور ملاؤں سب کو پڑ جاتی ہے۔ اور طُرفہ تماشا یہ ہے کہ تم پاکستانی‘ اس سب کچھ کے باوجود دنیا میں اسلام کے سب سے بڑے ٹھیکیدار بھی ہو۔ تم پوری دنیا کوکیا‘ ایک دوسرے کو بھی کافر گردانتے ہو۔ عزائم تمہارے ساتویں آسمان سے بلند تر ہیں۔ لال قلعہ ہو یا وائٹ ہاؤس‘ جھنڈا ہر جگہ تم نے اپنا لہرانا ہے۔ دنیا کی مذہبی قیادت تم نے خود ہی اپنے سپرد کر رکھی ہے اور حالت یہ ہے کہ تمہارے پاسپورٹ سے لے کر تمہاری کرنسی تک‘ ہر شے کی وقعت پست ترین سطح پر ہے۔ المیہ یہ ہے کہ یہ سارے کرتوت تم مسلمانوں کے ہیں مگر بد نام اسلام ہو رہا ہے!
میں ان سارے حقائق کا کیا جواب دیتا۔ خیر‘ یہ بحث ختم ہو گئی۔ ہم نے کافی پی۔ بسکٹ کھائے۔ جان نے مجھے میری قیام گاہ پر ڈراپ کیا۔ صبح کو'' یزید‘‘ کے سیکرٹری کا فون آیاکہ'' خلیفہ‘‘ نے طلب کیا ہے۔ میں نے سیکرٹری سے کہا کہ کتنی بار کہا ہے کہ محرم کے پہلے عشرے میں رابطہ نہ کیا کرو‘ سیکرٹری نے معذرت کی۔ ساتھ ہی بتایا کہ'' یزید‘‘ ایک ہزار میل لمبی شاہراہ کا ٹھیکہ مجھے دینا چاہتا ہے۔ بس کمیشن کے طور پر ایک ارب روپے'' یزید‘‘ کو دینے ہوں گے۔ میں نے اسے کہا کہ'' خلیفہ‘‘ کو ملنے آؤں گا مگر رات دیر سے۔ شام کو محفل میرے ہی گھر پر منعقد ہوئی۔ آلِ رسول پر کیے گئے مصائب کا حال سن کر میرے آنسو تھمتے ہی نہیں تھے۔ دو بار ہچکی بندھ گئی۔ محفل کے اختتام پر عشائیے کا اہتمام بھی میری طرف سے ہی تھا۔ رات کو دو بجے جب گلیاں سنسان تھیں‘ اور فرشتوں کے علاوہ کوئی نہیں دیکھ رہا تھا‘ میں'' یزید‘‘ کے محل میں حاضر ہوا۔ اسے جھک کر ملا۔ ہاتھ چومے۔ اسے ایک ارب روپے کا چیک پیشگی پیش کیا۔ اس کے ایک پیشکار نے ٹھیکے کا نوٹیفکیشن میرے حوالے کیا۔ پیشکار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جب میں نے کچھ پوچھنے کی کوشش کی تو اس نے کہا: تسلی رکھو! ٹھیکے کا علم پبلک کو نہیں ہونے دیا جائے گا۔