تھک ہار کر میں ریاست کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔
اُس دن میں نے بیوی سے پراٹھے پکوائے۔ ساتھ انڈوں کا خاگینہ! یہ سب ایک کپڑے میں باندھ کر پوٹلی سی بنائی۔ ڈنڈا اٹھایا‘ گدھے پر بیٹھا اور چل پڑا۔ گاؤں والوں نے پوچھا: کہاں جا رہے ہو؟ میں نے بتایا: ریاست کی تلاش میں! ان میں سے ایک سیانا بولا:شمال کی طرف سفر کرو! دو دن رات مسلسل چلتے رہنا‘ تیسری رات تمہیں جنگل میں آئے گی‘ دریا کے کنارے شہتوت کا بڑا سا درخت نظر آئے گا۔ اس کے نیچے اینٹوں کا چبوترہ بنا ہوا ہے‘ اس چبوترے سے چارپائی کا کام لینا۔ صبح تمہیں ایک فقیر‘ اسی درخت کے نیچے ملے گا‘ اس سے مدد مانگنا۔ گدھے کے ہمراہ میں نے پہلے بھی بہت مہمات سر کی تھیں اس لیے مجھے یقین تھا کہ گم شدہ ریاست کو ڈھونڈ نکالوں گا۔ گاؤں سے باہر ندی تھی‘ اسے عبور کیا تو پتھریلی سی چڑھائی آ گئی۔ سامنے سے فیقا مستری آرہا تھا۔ اس کی بڑی ڈیمانڈ تھی۔ کمال کا کاریگر تھا۔ مکان تعمیر کرتا تو دیکھنے کے لائق ہوتا۔ اس نے پوچھا: کدھر کا ارادہ ہے؟ بتایا‘ ریاست کو ڈھونڈنے جا رہا ہوں۔ فیقا مستری میرے جواب پر ہنسنا شروع ہو گیا۔ پوچھا: اس میں دانت نکالنے والی کون سی بات ہے؟ اس پر وہ اور ہنسا اور کچھ کہے بغیر چلتا بنا۔ یہ عجیب بات ہوئی کہ جسے بھی راستے میں بتایا کہ ریاست کی تلاش ہے‘ وہ مرد یا عورت ہنسنا شروع ہو جاتی۔ ہنسنے کا سبب کوئی نہ بتاتا۔ دن کو میں سفر کرتا۔ رات جہاں بھی آتی‘ سو جاتا۔ آدھا پراٹھا کھاتا۔ گدھا گھاس چر لیتا۔ پانی ہم دونوں کسی دریا‘ ندی یا کنویں سے پی لیتے۔
دوسری رات گزارنے کے بعد‘ صبح سفر شروع کیا ہی تھا کہ جنگل شروع ہو گیا۔ سب سے پہلے شیر ملا۔ گدھے کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنے لگا۔ میں نے متنبہ کیا کہ گدھے کو کچھ نہ کہنا‘ ہم ایک ضروری کام سے جا رہے ہیں۔ شیر نے پوچھا: کون سا کام ؟ بتایا تو شیر بھی ہنسنے لگا۔ پاس سے ہاتھی گزر رہا تھا۔ شیر نے ہاتھی سے کہا: اس احمق کالم نگار کو دیکھو‘ یہ ریاست کی تلاش میں نکلا ہے۔ یہ سن کر ہاتھی نے بھی قہقہہ لگایا اور دونوں کچھ کہے بغیر چل دیے۔ سخت حیرت ہوئی کہ جنگل میں جو بھی ملا‘ زیبرا‘ تیندوا‘ زرافہ‘ لومڑی‘یہاں تک کہ سانپ بھی‘ جیسے ہی سنتا کہ ہم ریاست کی تلاش میں نکلے ہیں‘ تو ایک عجیب‘ تضحیک آمیز ہنسی ہنستا مگر ہنسنے کی وجہ نہ بتاتا۔ خیر ہم نے سفر جاری رکھا۔ شام ہوئی تو جیسا کہ گاؤں کے بُڈھے سیانے نے بتایا تھا‘ دریا نظر آیا۔ اس کے کنارے شہتوت کا درخت تھا جس کے نیچے اینٹوں سے بنا ایک پرانا‘ کھنڈر نما چبوترہ تھا۔ رات اس پر گزاری۔ صبح اٹھا‘ ادھر ادھر دیکھا تو واقعی درخت کی دوسری طرف ایک فقیر گدڑی اوڑھے بیٹھا تھا۔ عجیب ہیئت کذائی تھی اس کی۔ چہرے پر جگہ جگہ ابھار! بال لمبے‘ چیکٹ! مثنوی گلزار نسیم کا شعر یاد آگیا:
زنبورِ سیاہ خال اس کے
برگد کی جٹائیں بال اس کے
وہ دھوپ کی طرف منہ کیے‘ آنکھیں بند کر کے بیٹھا تھا۔ میں نے پاس جا کر کہا: بابا جی! کافی دیر کے بعد اس نے آنکھیں کھولیں اور میری طرف دیکھا۔ عرض کیا: مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ ریاست کو تلاش کرنے میں میری دستگیری فرمائیں گے۔ فقیر نے پھر آنکھیں بند کر لیں۔ کافی دیر کے بعد صرف اتنا کہا کہ فیض آباد پُل پر چلے جاؤ! میں نے شکریہ ادا کیا جس کا بابا جی نے کوئی جواب نہ دیا۔ خیر! میں گدھے پر سوار ہوا۔ اور منزلوں پر منزلیں مارتا‘ دارالحکومت کا رخ کیا۔ ابھی فیض آباد پُل بہت دور تھا کہ داروغوں کے ایک گروہ نے روک لیا۔ جب بتایا کہ فیض آباد پُل پر جانا ہے تو انہوں نے کہا پُل پر دھرنے والوں کا قبضہ ہے‘ تمام راستے بند ہیں۔ یہ سن کر میں نے گدھا داروغوں کے حوالے کیا اور مرتا مارتا‘ گھسٹتا‘ رینگتا پُل پر پہنچ گیا۔ ارے! یہ کیا! واقعی ریاست یہاں موجود تھی۔ مگر جو منظر میں نے دیکھا حیرت کی انتہا نہ رہی۔ ریاست دھرنے والوں کی مٹھی چاپی میں مصروف تھی۔ کبھی اُن کے سر پر مالش کرتی۔ کبھی ان کی ٹانگیں‘ پاؤں اور کاندھے دباتی‘ کبھی انہیں چائے اور شربت پیش کرتی! مجھ پر تو جیسے سکتہ طاری ہو گیا۔ ابھی میں صدمے ہی میں تھا کہ ریاست اٹھی‘ گھوڑے پر سوار ہوئی‘ ایڑ لگائی اور نظروں سے غائب ہو گئی۔ میں اُس وقت پیدل تھا۔ پیچھا کرنا ناممکن تھا۔ مگر گدھا پاس ہوتا تب بھی ریاست کے برق رفتار گھوڑے کا تعاقب کرنا میرے مسکین گدھے کی طاقت سے باہر تھا۔ مرتا کیا نہ کرتا‘ پھر گدھے پر بیٹھا اور کئی دن رات سفر میں گزارنے کے بعد‘ دریا کے کنارے‘ شہتوت کے پیڑ کے نیچے فقیر کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آج اس نے گدڑی اتاری ہوئی تھی اور جسم پر بھبوت مَلے بیٹھا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی کہا: آئی پی پیز۔ میں سمجھ گیا کہ فقیر کا اشارہ بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیوں کی طرف تھا۔ سو گدھے پر بیٹھا اور آئی پی پیز کا رخ کیا۔
آئی پی پیز کے محل کی کیا بات تھی۔ محل کیا تھا پورا قلعہ تھا۔ روشنیاں اتنی کہ آنکھیں خیرہ ہو رہی تھیں۔ نزدیک پہنچا تو عجیب منظر دیکھا۔ محل کے ارد گرد ہزاروں لاکھوں لاشیں بکھری ہوئی تھیں۔ بے شمار زخمی کراہ رہے تھے‘ کوئی پانی مانگ رہا تھا‘ کسی کے زخموں سے خون بہہ رہا تھا۔ معلوم ہوا یہ سب پاکستانی عوام تھے۔ محل کے پہریداروں سے پوچھا: کیا ریاست یہاں آئی ہے؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا اور ایک بہت بڑے ڈرائنگ روم میں لے گئے۔ وہاں آئی پی پیز بہت ہی خوبصورت صوفوں پر بیٹھے تھے۔ کوئی سگار پی رہا تھا‘ کوئی کافی! ہلکی ہلکی میوزک سے ماحول خاصا طلسمی لگ رہا تھا۔ مگر اگلا منظر جو دیکھا‘ روح فرسا تھا۔ ریاست آئی پی پیز کے سامنے دست بستہ‘ خادم کی طرح کھڑی تھی۔ اتنے میں آئی پی پیز نے ریاست کو بہت کھردرے لہجے میں حکم دیا کہ کھانا لگاؤ! ریاست کچن کی طرف جانے لگی تو میں اس کے پاس پہنچا۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا‘ ریاست نے سرگوشی میں کہا: محل کے باہر میرا انتظار کرو۔ یہاں صاحب لوگوں کے سامنے بات نہیں ہو سکتی۔ ریاست ایپرن باندھنے لگ گئی اور میں باہر نکل آیا۔ رات کو زخمی پاکستانی عوام کے ساتھ ہی لیٹا رہا۔ بدقسمتی سے صبح دیر سے آنکھ کھلی۔ معلوم ہوا ریاست پو پھٹے ہی جا چکی تھی!ایک بار پھر فقیر کی خدمت میں حاضر ہوا۔ فقیر مجھے دیکھ کر ہنسا اور کہنے لگا: ریاست کو افغان طالبان کے ہاں دیکھو اور سنو! یہ تمہارا آخری پھیرا ہے۔ اس کے بعد نہ آنا ورنہ پچھتاؤ گے۔ میرا تو جیسے دل ہی بیٹھ گیا۔
جوں توں کر کے طور خم بارڈر پار کیا۔ عجیب اہلکار تھے‘ گدھے کا پاسپورٹ بھی مانگ رہے تھے۔ قصہ کوتاہ‘ کابل پہنچ کر پوچھا کہ میری ریاست کہاں ہے۔ مجھے ایک خاص کمرے میں انتظار کرنے کو کہا گیا۔ اندر سے مجھے اپنی ریاست کی آواز سنائی دی۔ گڑ گڑاتے لہجے میں کہہ رہی تھی۔ جہاں پناہ! کرم کیجیے اور ہماری سرزمین پر حملے رکوائیے۔ پھر ریاست نے ایک اور درخواست کی کہ جو سامان کراچی بندرگاہ سے افغانستان آتا ہے‘ اس کے کچھ آئٹم واپس پاکستان سمگل کر دیے جاتے ہیں! ازراہ کرم یہ تو بند کرائیے۔ نہیں معلوم ریاست جن کی خدمت میں یہ عرض گزاریاں کر رہی تھی‘ ان کا کیا رد عمل تھا۔ ریاست باہر نکلی۔ میں اس کے ساتھ ہو لیا اور پوچھا کہ اس قدر گڑ گڑانے کی کیا ضرورت تھی‘ کراچی بندرگاہ تو تمہاری اپنی ہے‘ تم ان کی ٹرانزٹ ٹریڈ پر پابندی لگا کر اپنے مطالبات منوا سکتی ہو۔ بس! میرا اتنا کہنا تھا کہ ریاست غضبناک ہو گئی۔ مجھے گرفتار کرنے کا حکم دیا۔ بڑی مشکل سے بھاگ کر جان بچائی۔