بوڑھا چینی قلاش تھا۔ پوشاک میسر نہ پیٹ بھر کر روٹی۔ پھر بھی بادشاہ اس پر رشک کرتے۔ اس لیے کہ اس کے پاس ایک ایسا سفید گھوڑا تھا جو اُس وقت کی ساری دنیا میں بے مثال تھا۔ گھوڑا کیا تھا بادل کا سفید ٹکڑا تھا۔ چلتا نہیں تھا تیرتا تھا۔ بادشاہ نے منہ مانگی قیمت دینے کی بات کی۔ زمین جائداد بھی دینے کے لیے تیار تھا مگر بوڑھے نے ہمیشہ ایک ہی بات کی کہ گھوڑا اس کا فیملی ممبر ہے۔ بیچنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ ایک صبح بوڑھے نے دیکھا کہ گھوڑا غائب ہے۔ اب گاؤں کے لوگوں نے لعن طعن کی کہ جب دولت اور جاگیریں مل رہی تھیں اُس وقت گھوڑا بیچ دیتا۔ بدقسمتی کہ گھوڑا چوری ہو گیا۔ بوڑھے نے جواب دیا کہ بات اتنی سی ہے کہ گھوڑا موجود نہیں۔ اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ بدقسمتی ہے۔ کچھ ہفتے گزرے تھے کہ گھوڑا واپس آ گیا اور وہ اکیلا نہیں تھا۔ ا س کے ساتھ بارہ خوبصورت جنگلی گھوڑے تھے۔ اب گاؤں کے لوگ مبارک دینے آئے اور کہنے لگے یہ تو خوش قسمتی ہے۔ بوڑھا ہنسا اور کہنے لگا: سچ صرف یہ ہے کہ گھوڑا چلا گیا تھا‘ واپس آیا تو ساتھ بارہ گھوڑوں کو لے کر آیا۔ یہ ایک جزو ہے‘ کُل نہیں۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ یہ خوش بختی ہے یا بدقسمتی! بوڑھے کا ایک بیٹا تھا‘ نوجوان اور خوبصورت۔ بوڑھے کی گویا اس میں جان اٹکی ہوئی تھی۔ بیٹے نے جنگلی گھوڑوں کو سدھانا شروع کر دیا۔ ایک دن ایک اَتھرے گھوڑے نے اسے زمین پر پھینک دیا۔ اس کی ٹانگ کی ہڈی تین جگہ سے ٹوٹ گئی۔ اب لوگ آئے افسوس کرنے۔ انہوں نے بوڑھے کو کہا: تم بے سہارا ہو گئے۔ تمہاری قسمت خراب ہے۔ بوڑھے نے وہی جواب دیا کہ حقیقت صرف یہ ہے کہ میرے بیٹے کی ٹانگ فریکچر ہو گئی ہے‘ آگے کیا ہو گا ہمیں نہیں معلوم! اس اثنا میں بوڑھے کے ملک پر دشمن نے حملہ کر دیا۔ جنگ چھڑ گئی۔ ملک پر جبری بھرتی کا قانون نافذ کر دیا گیا۔ سرکاری کارندے گاؤں میں بھی آئے اور تمام جوان مردوں کو پکڑ کر لے گئے۔ گاؤں میں کہرام مچ گیا۔ بوڑھے باپ اور مائیں رونے لگ گئیں۔ کچھ نوجوانوں نے چھپنے کی کوشش کی مگر پکڑے گئے۔ بوڑھے کا بیٹا بچ گیا کیونکہ اس کی ٹانگ ٹوٹی ہوئی تھی۔ وہ چل ہی نہیں سکتا تھا۔ اب گاؤں کے لوگوں نے بوڑھے کو خوش قسمت قرار دیا مگر بوڑھے نے کہا کہ خوش قسمتی یا بدقسمتی کا فیصلہ اس مرحلے پر نہیں کیا جا سکتا۔
یہ کہانی اشفاق احمد نے لکھی ہے۔ انہیں ابن انشا نے سنائی تھی۔ میری رہنمائی اس کہانی تک جناب عامر ہاشم خاکوانی نے کی ہے۔
بنگلہ دیش کے واقعات پر یہ جو بھانت بھانت کی بولیاں بولی جا رہی ہیں‘ یہ سب قبل از وقت کی بیکار باتیں ہیں! خاص طور پر جو لوگ چاہتے ہیں کہ پاکستان میں بھی ایسا ہو‘ انہیں خدا کا خوف کرنا چاہیے۔ وہاں سینکڑوں افراد مارے گئے ہیں۔ پولیس نے کام کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ چیف جسٹس اور مرکزی بینک کا سربراہ مستعفی ہو گئے ہیں۔ ملک میں انارکی ہے۔ خدا نہ کرے پاکستان میں ایسی قتل و غارت ہو۔
سوال یہ ہے کہ جو کچھ ہوا‘ کیا بنگلہ دیش کے لیے اچھا ہے یا برا؟ اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ہی رائے دی جا سکے گی۔ 1975ء میں شیخ مجیب الرحمان کو سارے خاندان سمیت قتل کر دیا گیا سوائے حسینہ اور ان کی بہن ریحانہ کے‘ جو ملک سے باہر تھیں۔ کیا اُس وقت کوئی سوچ سکتا تھا کہ اسی مجیب الرحمان کی بیٹی پندرہ سال تک متواتر ملک پر حکومت کرے گی؟ مگر یہ انہونی ہو کر رہی۔ جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ شیخ حسینہ واجد کی کہانی ختم ہو گئی ہے‘ انہیں بوڑھے چینی کی بات یاد کرنی چاہیے۔ کل مجیب الرحمان مارا گیا۔ اس کی بیٹی وزیراعظم بن گئی۔ آج بیٹی ہٹا دی گئی۔ کل کون جانے اس کا بیٹا آ جائے۔ بیٹے کی اس بات میں وزن ہے کہ حسینہ نے استعفیٰ نہیں دیا۔کل معاملہ عدالت میں گیا تو کیا ہو گا؟
بنگالی ایک جذباتی قوم ہے۔ ان کی نفسیات ہجوم گردی سے عبارت ہے۔ مغربی پاکستان اور پاکستان کی وفاقی حکومت نے ان کے ساتھ چوبیس برس تک اتنی ناانصافیاں کیں کہ من حیث القوم وہ چڑچڑے اور سفاک ہو چکے ہیں۔ رہی سہی کسر مارچ 1971ء کے آرمی ایکشن نے نکال دی۔ یوں بھی کہاوت ہے کہ ایک بنگالی مظاہرہ کرتا ہے‘ دو ہو جائیں تو تحریک برپا کر دیتے ہیں اور تین ہوں تو وہ ہجوم بن جاتا ہے۔ احراریوں کے بارے میں بھی اسی قسم کی بات کی جاتی تھی کہ احراری تعداد میں تین ہوں اور ان کے پاس آٹھ آنے ہوں تو اگلی صبح وہ تحریک چلا دیں گے۔ موجودہ پاکستان اور بنگلہ دیش کی سماجی اور سیاسی حرکیات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ نفسیات بھی الگ الگ ہیں۔ بنگلہ دیش ایک لسانی اور نسلی اکائی پر مشتمل ہے جبکہ پاکستان میں کئی زبانیں ہیں اور کئی نسلیں! کئی صوبے ہیں! جس طرح بنگالی سڑکوں پر آئے‘ مشکل ہے کہ پاکستانی نکلیں۔ بجلی کے بل جس طرح آ رہے ہیں‘ نکلنا ہوتا تو اس موقع پر نکل آتے۔
نوبیل انعام یافتہ محمد یونس نے نئی حکومت کی سربراہی قبول کر کے غلطی کی ہے۔ وہ کانٹوں بھری سیج پر بیٹھ گئے ہیں۔ آنے والے دنوں میں وہ ایک متنازع شخصیت بن جائیں گے۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ان کی مخالفت نہ ہو۔ وہ لائق انسان ہیں مگر ملک کے سیاسی پُرپیچ راستوں سے ناواقف ہیں۔ انہیں حکومت چلانے کا پہلے سے تجربہ نہیں۔ بینک چلانے اور ملک چلانے میں بہت فرق ہے۔ پھر‘ بنگلہ دیش کی معیشت بھی پہلے جتنی طاقتور نہیں رہی۔ چھبیس چھبیس سال کے سٹوڈنٹس کو کابینہ میں لے کر جھگڑوں کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ اللہ کرے کہ اس عاشقی میں عزتِ سادات قائم رہے۔ اسی لیے عقل مند لوگوں نے ترپن سال پہلے کہا تھا کہ بے وقوفو! شیخ مجیب الرحمان کو حکومت دے دو۔ ایک آدھ سال ہی میں بنگالی ان سے ناراض ہو جائیں گے۔ عوامی لیگ آج بھی ایک سیاسی حقیت ہے۔ بہت جلد جب بنگلہ دیشی غیظ وغضب کی حالت سے نکل آئیں گے اور جب گرد بیٹھ جائے گی تو سوچیں گے کہ انہیں الگ ملک دلانے میں اہم ترین کردار تو شیخ مجیب ہی کا تھا۔ ورنہ بابائے قوم کون ہو گا؟ کچھ بزرجمہر بنگلہ دیش کے ان واقعات کو عرب بہار سے تشبیہ دے رہیں۔ عرب بہار کے جو پھول مصر‘ لیبیا اور شام میں کِھلے ہیں‘ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ یاد رکھنا چاہیے کہ انارکی ایک ایسی ماں ہے جس نے کبھی تندرست بچہ جنم نہیں دیا!
شیخ حسینہ واجد میں عقل ہوتی اور مستقبل بینی کی صلاحیت‘ تو دس سال حکومت کرنے کے بعد ریٹائر ہو جاتیں اور عزت سے ڈھاکہ میں زندگی گزارتیں۔ مگر ایسا کرنے کے لیے بڑا دل اور اس سے بھی بڑادماغ چاہیے اور یہ دونوں چیزیں نیلسن منڈیلا میں تھیں۔ اس نے اقتدار کو وقت پر خیرباد کہہ دیا اور بے پناہ عزت پائی۔ کسی نے پوچھا: ادب کن سے سیکھا؟ جواب ملا: بے ادبوں سے کہ جو کچھ بے ادب کرتے رہے‘ اس سے اجتناب کیا گیا۔ ہمارے حکمرانوں کو اُن کاموں کی فہرست بنانی چاہیے جو حسینہ واجد نے کیے اور جن کی وجہ سے لوگ بپھر گئے۔ پھر حکمرانوں کو ان تمام کاموں سے اجتناب کرنا چاہیے۔ ورنہ ایسے کاموں کا انجام وہی ہو گا جو ہوا ہے اور ہوتا آیا ہے!!!! نوشتۂ دیوار وقت پر پڑھ لینا چاہیے!!!