یار ارشد ندیم! یہ تم نے کیا کیا؟
اگر ہمیں ہارٹ اٹیک ہو جاتا تو؟ ہم تو خوشیوں کے عادی ہی نہیں! ہم نے تو برسوں سے کیا‘ دہائیوں سے کوئی خوشی نہیں دیکھی! مثنوی رومی میں حکایت بیان کی گئی ہے کہ خاکروب عطر فروشوں کے بازار میں چلا گیا تھا اور بے ہوش ہو گیا تھا۔ تم تو ہمیں عطر فروشوں کے بازار میں لے گئے! ہمیں تو خوشبو لگائے ہوئے‘ خوشبو سونگھے ہوئے‘ زمانے ہو چکے تھے! ہم تو چیتھڑوں کے عادی تھے۔ تم نے ہمیں ریشمی پوشاک پہنا دی!
اور یہ قومی اسمبلی میں تم نے کیا کرا دیا۔ وہ تو اکھاڑہ تھا۔ وہاں تو سر پھٹول کے مناظر ہوا کرتے تھے۔ وہاں تو فریقین تیر برساتے تھے۔ توپیں چلاتے تھے۔ ایک دوسرے کو للکارتے تھے۔ تم نے حزبِ اختلاف اور حزبِ اقتدار کو اکٹھا کر دیا۔ تم وہ عظیم لمحہ لے کر آئے جس میں سارا ایوان تمہاری دی ہوئی مسرت منانے میں متحد تھا۔ تمہاری کامیابی نے ہمیں یاد دلایا کہ وطن کی عزت میں‘ وطن کی خوشی میں سب شریک ہیں۔ تم نے ہمیں وہ لمحہ دیا جب کوئی مسلم لیگ تھی نہ تحریک انصاف‘ نہ پی پی پی۔ کوئی سندھی تھا نہ پنجابی نہ پختون نہ بلوچ نہ بلتستانی نہ کشمیری! بلکہ سب پاکستانی تھے! صرف اور صرف پاکستانی!!
تم نے اس حقیقت کو اجاگر کیا کہ بڑا آدمی بننے کے لیے بڑے گھر میں پیدا ہونا ضروری نہیں! تم ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ ایک عام سے گھر میں! مٹی اور اینٹوں سے بنے ہوئے نیم پختہ گھر میں پلے بڑھے! تم ناشتہ کرنے کے لیے ڈائننگ روم میں بچھے ہوئے ٹیبل پر نہیں بیٹھتے تھے! بٹلر تمہارے گلاس میں جوس نہیں انڈیلتا تھا۔ تمہیں سکول لے جانے کے لیے جہازی سائز کی کار کیا‘ چھوٹی گاڑی بھی نہیں میسر تھی! تم تو ماں کے پاس‘ فرشِ زمین پر بچھی ہوئی چٹائی پر بیٹھ کر ناشتہ کرتے تھے۔ پھر پیدل سکول جاتے تھے۔ ایسا سکول جو صرف ہماری بستیوں اور قریوں میں ہوتا ہے‘ شہروں میں نہیں! تمہارا باپ ایم این اے تھا نہ جرنیل‘ سی ایس پی تھا نہ وزیر‘ فیوڈل تھا نہ ٹائیکون! سیٹھ تھا نہ شیخ الاسلام! تمہاری کوئی لابی تھی نہ پی آر! سلام ہے تمہاری ماں کو جس نے ماتھے کے اوپر تک دوپٹے سے سر ڈھانپا ہوا تھا! جس کے مقدس ہاتھوں سے پکی ہوئی روٹیوں اور اینٹوں کے بنے ہوئے چولہے پر پکائے گئے سالن سے تم نشوونما پاتے رہے! تمہاری عظیم ماں نے ثابت کر دیا کہ ملک کو ہیرے جیسا بیٹا دینے کے لیے ''بیگم صاحبہ‘‘ کہلانا لازم نہیں! دن اور رات فیس بُک پر گزارنا ضروری نہیں! گُچی کا ہینڈ بیگ لٹکانا اور اونچے برانڈ کا چشمہ پہننا کافی نہیں! برانڈڈ ملبوسات کی دکانوں میں‘ سیل کے مواقع پر دوسری عورتوں سے گتھم گتھا ہونے سے اولاد کامران اور ظفریاب نہیں ہوتی! اکل حلال کھلا کر اچھی تربیت دینے سے بچے وطن کا اثاثہ بنتے ہیں اور اپنی دھرتی کا‘ اپنی مٹی کا قرض چکاتے ہیں! تم لندن میں پولو کھیلے نہ ابوظہبی میں گالف! تمہارے باپ کا لندن میں فلیٹ تھا نہ دبئی میں محل! تمہارا باپ ایک مزدور ہے! تم نے ثابت کر دیا کہ کچھ لوگ وطن کو کھانے اور چوسنے والے ہیں اور کچھ وطن پر اپنا خون پسینہ نچھاور کرنے والے! کچھ وطن کو دینے والے ہیں اور کچھ وطن سے چھیننے والے! کچھ اثاثہ ہیں اور کچھ بوجھ! کچھ وطن کی آنکھیں نیچی کرتے ہیں اور کچھ کی وجہ سے وطن کا سر فخر سے بلند ہوتا ہے!
کامل اس فرقۂ زہّاد میں اُٹھا نہ کوئی
کچھ ہوئے تو یہی رندانِ قدح خوار ہوئے
اور ڈر ہے کہ تم کہیں ہماری عادتیں نہ خراب کر دو! ہم تو بڑی اور عظیم شخصیتوں کے اُن بیٹوں کے عادی ہیں جو خواتین کو موت کے گھاٹ اتار کر زندانوں میں بیٹھے ہیں اور اُس رہائی کے منتظر ہیں جو یقینی ہے! ہم تو ان نوجوانوں کے عادی ہیں جو پیدائش سے پہلے ہی ارب پتی ہو تے ہیں اور ہوش سنبھالتے ہی ایوانوں میں پہنچ جاتے ہیں! ہم تو اُن شاہ رخوں کے عادی ہیں جو قتل کر کے انگلیوں سے فتح کا نشان بناتے ہیں! تم نے ہمیں بتایا کہ فتح کا نشان بنانے کیلئے عالمی میدان میں مقابلہ کر کے سونے کا تمغہ جیتنا پڑتا ہے!
اور یہ تعلیمی ادارے جو طبقاتی امتیاز کی علامت ہیں‘ جن میں امرا کے بچے پڑھتے ہیں‘ جن کے کلاس روم ایئر کنڈیشنڈ ہیں‘ جن کی فیسیں لاکھوں کروڑوں میں ہیں‘ انہوں نے کتنے ارشد ندیم پیدا کیے ہیں؟ ہاں وہاں سے حکمران ضرور نکلتے ہیں۔ یہ حکمران اپنے‘ اپنے خاندان کے اور اپنے متعدد محلات کے اخراجات قومی خزانے سے پورے کرتے ہیں۔ جائدادوں میں اضافے کرتے ہیں۔ بادشاہوں کی سی زندگی گزارتے ہیں۔ اور آخر میں وہاں جا پہنچتے ہیں جہاں حکمرانی کا نشان تک نہیں ملتا۔
ارشد ندیم میاں چنوں کا ہے۔ یہ جو میاں چنوں جیسی ہزاروں بستیاں گلگت سے لے کر حیدرآباد تک اور کوئٹہ سے لے کر قصور تک پھیلی ہوئی ہیں‘ بنیادی سہولتوں سے محروم‘ دھول میں لپٹی ہوئی‘ کہیں پانی نہیں ہے تو کہیں بجلی نہیں‘ سڑکیں ٹوٹی ہوئیں‘ سکولوں کی چھتیں ہیں تو دیواریں نہیں اور دیواریں ہیں تو اساتذہ نہیں‘ جہاں پینے کا صاف پانی ہے نہ ماسٹر صاحب کے لیے سالم کرسی! جہاں ہسپتال ہیں نہ دواؤں کی دکانیں! ارشد ندیم جیسے موتی انہی خاک اڑاتی بستیوں میں گرد وغبار میں چھپے پڑے ہیں! اے اہلِ اقتدار! اے صاحبانِ اختیار! ان گرد آلود قریوں پر توجہ دو! ان موتیوں کو سنبھالو! یہی وطن کا سب سے قیمتی سرمایہ ہیں! اس ملک میں صرف لاہور‘ اسلام آباد‘ کراچی‘ پشاور اور کوئٹہ نہیں ہیں۔ اس ملک میں ہزاروں بستیاں بہترین افرادی قوت سے بھری ہوئی ہیں! ان بستیوں میں ملک کے بہترین دماغ ہیں اور بلند ترین آئی کیو ہیں! ان نظر انداز شدہ بستیوں میں کئی سائنسدان‘ کئی ڈاکٹر کئی کھلاڑی‘ کئی انجینئر چھپے ہوئے ہیں جو اس ملک کا نام آسمانوں تک لے جا سکتے ہیں مگر افسوس! صد افسوس! ہمارے اربابِ اختیار کاپاکستان صرف نصف درجن شہروں تک محدود ہے! کون سا حکمران‘ وفاقی یا صوبائی‘ کبھی کسی گاؤں کے سرکاری سکول کو دیکھنے گیا ہے؟
اور ہاں! یار ارشد ندیم! دست بستہ گزارش ہے کہ بھول کر بھی سیاست کے خارزار میں قدم نہ دھرنا! قدرت نے جو عزت بخشی ہے اسے قائم رکھنا! آج تم پورے ملک کی اور اُن تمام پاکستانیوں کی جو کرۂ ارض پر پھیلے ہوئے ہیں‘ آنکھوں کا تارا ہو! بے شمار آنکھوں سے تمہاری بے مثال کامیابی پر خوشی کے آنسو چھلکے ہیں! اپنے شیدائیوں کے دلوں کو ٹھیس نہ پہنچانا‘ اس لیے کہ سیاست کی بے رحم قینچی سب سے پہلے محبت کو کاٹتی ہے۔ سیاست اتحاد کو پارہ پارہ کرتی ہے اور پھر یہ ہر کسی کے بس کی بات بھی نہیں! ہم سیاست کے سوراخ سے ایک بار ڈسے جا چکے ہیں اور دوسری بار ڈسے جانا عقلمندی نہیں! ہم ایک ہیرے کو سیاست کے کیچڑ سے آلودہ کر چکے ہیں! اگر وہ ہیرا سیاست کی بھینٹ نہ چڑھتا تو اس وقت تک ملک اعلیٰ درجے کی یونیورسٹیوں سے بھر چکا ہوتا اور شہر شہر ہی نہیں‘ قصبے قصبے بھی ہسپتال بن چکے ہوتے! تم نے ملک کی بہت بڑی خدمت کی ہے! دعا ہے کہ جب تک تم ریٹائر نہیں ہوتے‘ طلائی تمغے جیتتے رہو اور پاکستان کا سبز پرچم افق افق لہراتے رہو۔ اور جب ریٹائر ہو جاؤ تو ان گرد اڑاتی بستیوں اور قریوں میں اپنے جیسے ہیروں کو تلاش کر کے انہیں تراشنے کا کام کرو! ٹیلنٹ رکھنے والے نوجوانوں کو ڈھونڈو اور ان کی رہنمائی کرو! ایک جوہرِقابل ہی دوسرے جوہرِ قابل کو پہچان سکتا ہے!!