منیر صاحب روم کے پاکستانی سفارت خانے میں تعینات تھے۔ وہ بہت بڑے افسر نہ تھے مگر ایک تو ان کے کام کی نوعیت اہم تھی‘ دوسرے وہ اخلاق کے بہت اچھے تھے۔ سفارت خانے کے سب لوگ‘ سفیر سے لے کر ڈرائیور تک‘ ان کا احترام کرتے تھے۔ مجھے چند ماہ کے لیے اٹلی میں رہنا تھا۔ یہ تقریباً 40 سال پہلے کی بات ہے۔ روم پہنچ کر دوسرے دن میں نے اپنے سفارت خانے میں رپورٹ کیا۔ قیام کے اخراجات اطالوی حکومت نے ادا کرنے تھے اور یہ کام سفارت خانے کی وساطت سے طے پانا تھا اس لیے میں کئی دن سفارت خانے جاتا رہا۔ سفیر صاحب نے کہا کہ آپ منیر صاحب ہی سے رابطہ رکھیں‘ وہی سارا کام کریں گے۔
منیر صاحب سے پہلے دن ہی دوستی ہو گئی۔ وہ نرم گفتار تھے اور خوش اخلاق! کئی بار اپنے گھر لے گئے جو انہیں سفارت خانے کی طرف سے ملا ہوا تھا۔ میں ہوٹل میں رہ رہا تھا۔ انہوں نے اصرار کیا کہ میں ان کے گھر قیام کروں مگر میں نے معذرت کی۔ یہ اور بات کہ دن ان کے ساتھ‘ ان کے دفتر ہی میں گزرتا تھا۔ ان دنوں پاکستان میں چینی کی شدید قلت تھی۔ دو تین کلو چینی کے لیے بھی لوگ دھکے کھاتے پھرتے تھے۔ ایک دن منیر صاحب نے ایک ڈبہ دکھایا کہ اس میں ایک کلو چینی ہے اور ایسے ڈبے جتنے چاہیں بازار سے لے سکتے ہیں۔ مجھے اطالویوں پر رشک آیا۔ ان کا بیٹا تھا‘ تین چار سال کا‘ میرے بڑے بیٹے جتنا‘ اور بیٹی دس بارہ برس کی تھی۔ ایک شام سفارت خانے کے ایک افسر کے گھر دعوت تھی جس میں بہت سے پاکستانی مدعو تھے۔ منیر صاحب نے اصرار کیا اور مجھے ساتھ لے کر گئے۔ الغرض منیر صاحب کا برتاؤ انتہائی مشفقانہ اور دوستانہ تھا۔
مالی مسائل طے ہو گئے تو میں نیپلز (اطالوی میں ناپُلی) چلا گیا جہاں یہ عرصہ مجھے گزارنا تھا اور جو روم سے تین گھنٹوں کی مسافت پر تھا۔ نیپلز‘ روم اور میلان کے بعد اٹلی کا تیسرا بڑا شہر ہے۔ یہ دنیا کے ان قدیم ترین شہروں میں سے ہے جو مسلسل آباد چلے آ رہے ہیں۔ اس کی بنیاد قبل از مسیح میں یونانیوں نے رکھی تھی۔ یہ شہر قلعوں اور محلات کے لیے مشہور ہے۔ پِزا‘ جو آج پوری دنیا کا مقبول اور محبوب کھانا ہے‘ نیپلز ہی میں ایجاد ہوا تھا۔ یہ جو مشہور پِزا مارگریٹا ہے‘ یہ ملکہ مارگریٹا کے نام پر ہے جو اٹلی کی ملکہ تھی۔ یہ پِزا 1889ء میں بنا تھا۔ ملکہ نیپلز آئی تو والیٔ شہر نے اس کے لیے بہترین باورچی سے تین اقسام کے پِزا بنوائے۔ تینوں میں سے جو اسے پسند آیا اس کا نام ملکہ ہی کے نام پر مار گریٹا پڑ گیا۔ سمندری خوراک کے لیے بھی نیپلز مشہور ہے۔
نیپلز بد قسمتی سے زلزلوں کی آماجگاہ ہے۔ ارد گرد کا سارا علاقہ فالٹ لائن کے عین اوپر ہے۔ ستر عیسوی (70ء) کے لگ بھگ پومپی آئی نامی شہر میں بہت بڑا زلزلہ آیا تھا اور شہر لاوے کے نیچے دفن ہو گیا تھا۔ یہ پومپی آئی نیپلز کے قریب ہی ہے۔ اس علاقے میں کئی خوابیدہ آتش فشاں پہاڑ ہیں جو بیدار ہوتے ہیں تو تباہی لاتے ہیں۔ مجھے بھی یہاں زلزلے کا تجربہ ہوا۔ نومبر کی ایک سرد‘ ٹھٹھرتی شام تھی۔ میں اور میرا پاکستانی ( پختون) رُوم میٹ کھانا کھا رہے تھے۔ ہمارا اپارٹمنٹ ایک کثیر المنزلہ عمارت کی تیسری منزل پر تھا۔ اچانک ہم نے دیکھا کہ فرش پر گڑھا سا پڑ گیا۔ میرے ساتھی کے منہ سے نکلا ''زلزلہ‘‘۔ ہم باہر کی طرف بھاگے۔ اور سیڑھیاں اترتے باہر گلی میں پہنچے۔ تمام لوگ اُس کھلے میدان کا رُخ کر رہے تھے جو قریب ہی تھا۔ ہم وہاں پہنچے تو میدان لوگوں سے بھر چکا تھا۔ یہ علاقہ جدید تھا اور اونچی عمارات پر مشتمل۔ یہ عمارات زلزلے سے بچاؤ کے لیے جدید ترین تکنیک سے بنائی گئی تھیں اور ان میں لچک تھی۔ اسی لیے گرنے سے بچ گئیں۔ جاپان میں بھی ایسی ہی عمارتیں بنائی جاتی ہیں۔ زلزلے کا مرکز صرف 28 میل دور تھا۔ ارد گرد کی بستیوں میں تباہی بہت ہوئی تھی۔ ہم اور دوسرے لوگ رات بھر اس میدان میں رہے۔ ہم ایشیائی اور افریقی تو چند گھنٹوں کے بعد زمین پر بیٹھ گئے۔ اطالوی مرد اور عورتیں صبح تک کھڑے ہی رہے۔ درخت کاٹے گئے اور میدان کے درمیان میں ساری رات آگ جلائی گئی۔
صبح ہوئی تو زلزلے کی وجہ سے شہر ازمنۂ وسطیٰ میں پہنچ چکا تھا۔ بجلی‘ ٹیلی فون‘ ٹرانسپورٹ اور دیگر سروسز تلپٹ ہو چکی تھیں۔ میں نے سوچا روم چلا جاؤں۔ خوش قسمتی سے روم جانے کی ٹرین مل گئی۔ سفارت خانے میں منیر صاحب کے پاس گیا۔ بہت تپاک سے پیش آئے۔ تسلی دی‘ کہنے لگے: چھٹی تو شام کو ہو گی آپ کو میں گھر چھوڑ آتا ہوں۔ میں نے کہا: مجھے گھر کا راستہ معلوم ہے۔ میں بس میں بیٹھا اور ان کے گھر پہنچ گیا۔ گھر والے منتظر تھے۔ کھانا کھایا۔ پاکستانی سٹائل کی چائے پی۔ جان میں جان آئی۔ تین چار دن منیر صاحب کے گھر میں رہا۔ یوں لگا جیسے اپنا ہی گھر ہو! سادگی‘ پیار‘ خلوص‘ بچوں کی چہل پہل! پاکستانی چپاتیاں اور پاکستانی سالن! چوتھے دن نیپلز واپس چلا گیا۔ معطل سروسز بحال ہو چکی تھیں۔ زندگی معمول پر آگئی تھی۔ یہ اور بات کہ زلزلے کے جھٹکے (آفٹر شاکس) کئی ہفتے آتے رہے۔ ہم اوور کوٹ پہن کر سوتے کہ کسی بھی وقت باہر نکل سکیں۔ ایک رات باہر موسلا دھار بارش تھی۔ زلزلے کے جھٹکے شروع ہوئے‘ کافی تیز اور ٹھیک ٹھاک جھٹکے تھے۔ ہم نے اللہ کا نام لے کر فیصلہ کیا کہ باہر بارش اور شدید سردی میں جانے سے بہتر ہے کمرے ہی میں رہیں۔ اللہ نے کرم کیا اور جھٹکے ختم ہو گئے۔
واپس پاکستان پہنچ کر منیر صاحب کا پتا کرتا رہا۔ روم میں ان کی مدتِ ملازمت باقی تھی۔ پھر وہ واپس آگئے۔ کچھ تھوڑی بہت بچت‘ جو باہر رہ کر کر سکے تھے‘ اس سے سیکٹر جی نائن میں‘ کراچی کمپنی کے نزدیک‘ ایک چھوٹا سا گھر انہوں نے بنوا لیا۔ کچھ عرصہ ہماری ملاقاتیں جاری رہیں۔ پھر وہی ہوا جو ہوتا ہے۔ میں زمانے کی تہہ در تہہ گردشوں میں پھنس گیا۔ کبھی سفر! کبھی قیام کی مصروفیات۔ کبھی ملک کے اندر! کبھی باہر! نوکری! بچے! گھر کے کام! والدین کی صحت کے مسائل۔ گاؤں۔ شاعری کی لت اور بہت سی دیگر مصروفیات اور ذمہ داریاں! منیر صاحب سے رابطہ ٹوٹ گیا اور ایسا ٹوٹا کہ پھر ملنا ہی نہ ہوا۔
اب جب خود نوشت لکھنا شروع کی تو کئی ابواب لکھ چکنے کے بعد قلم اٹلی کے قیام پر پہنچا۔ خطوط جو وہاں سے گھر والوں کو لکھتا رہا‘ محفوظ تھے۔ انہیں نکالا اور 40 برس بعد پڑھنا شروع کیے۔ منیر صاحب کا ذکر کئی خطوں میں تھا۔ ان کی یاد آئی اور شدت سے آئی۔ ایک صبح گاڑی میں بیٹھا اور اس گلی میں جا پہنچا جہاں ان کا گھر تھا۔ تین چار گھروں سے پتا کیا۔ یہ لوگ انہیں نہیں جانتے تھے۔ ایک گھرمیں گھنٹی دی تو ساتھ والے گھر سے ایک معمر خاتون نمودار ہوئیں۔ کہنے لگیں: یہ لوگ کہیں گئے ہوئے ہیں۔ پوچھا :کیا یہاں‘ ارد گرد‘ کوئی منیر صاحب رہتے ہیں جو وزارتِ خارجہ میں کام کرتے تھے؟ بولیں‘ اسی گھر میں رہتے تھے۔ گزشتہ سال انتقال کر گئے!
لوٹ کر گھر پہنچا تو زبان گنگ تھی۔ ٹانگوں میں جیسے جان نہیں تھی۔ کسی سے بات کیے بغیر کمرے میں گیا اور لیٹ گیا۔ کاش ان سے رابطہ نہ ٹوٹتا۔ کاش ہم ملتے رہتے۔ کاش ان کے آخری دنوں میں مَیں ان کا خیال رکھتا جیسے غریب الوطنی میں انہوں نے میرا خیال رکھا تھا! منیر نیازی نے کہا تھا ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں! ہم ہمیشہ دیر کر دیتے ہیں! آخر ہم ہمیشہ دیر کیوں کر دیتے ہیں؟؟