ہم نے کرکٹ ڈپلومیسی بھی دیکھی اور مینگو (آم) ڈپلومیسی بھی دیکھ لی۔ اب ''اولمپک ڈپلومیسی‘‘ بھی آزما لی جائے تو کیا مضائقہ ہے؟
مینگو ڈپلومیسی تو ایک عام سی بات تھی اور شاید ہے۔ یہاں کا انور رٹول اور سفید چونسہ وہاں جاتا ہو گا اور وہاں کا الفانسو ہمارے بڑے لوگوں کے گھروں میں لینڈ کرتا ہو گا۔ رہی کرکٹ ڈپلومیسی تو جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف نے اس کے ذریعے کوشش کی کہ تعلقات سرد مہری سے اُتر کر نارمل سطح پر آ جائیں! مگر یہ ساری ڈپلومیسیاں حکمرانوں کے درمیان تھیں‘ ان کا عوام سے کوئی تعلق نہ تھا! پاکستانی عوام سے نہ بھارتی عوام سے!
تین چار جنگیں ہو چکیں! سال ہا سال سے تجارتی مقاطعہ ہے۔ اس مقاطعہ کا رمق بھر فائدہ مقبوضہ کشمیر کو ہوا نہ ہمیں! یوں بھی تجارت کا فائدہ پاکستان کو زیادہ ہو گا کیونکہ اسے بھارت جیسی بڑی منڈی ملے گی اور بھارت کو چھوٹی!! تعلقات کی ویرانی کا یہ حال ہے کہ کتابیں اور رسالے بھی نہیں آ جا سکتے۔ اردو کے ایک نامور استاد کو کتاب بھیجی‘ سات ماہ کے بعد ملی۔ ہم سب جانتے ہیں کہ بھارت میں کتابیں زیادہ شائع ہوتی ہیں۔ اس پابندی کا زیادہ نقصان پاکستان کے پڑھے لکھے لوگوں کو ہے۔ مثال کے طور پر ابو الفضل کی تصنیف ''اکبر نامہ‘‘ اُس زمانے کا ایک انسائیکلو پیڈیا ہے جو برصغیر کا بہت بڑا تاریخی‘ علمی‘ ادبی اور ثقافتی سرمایہ ہے۔ بھارت نے اسے اس طرح شائع کیا ہے کہ ایک صفحے پر فارسی متن ہے اور سامنے والے صفحے پر انگریزی ترجمہ! پہلے دو حصے کسی نہ کسی طرح پاکستان میں پہنچ گئے۔ اس کے بعد مکمل پابندی کی وجہ سے بقیہ حصے نہیں پہنچ رہے۔ اسی طرح ابراہام ایرالی اور ولیم ڈالرمپل کی کتابیں بھی‘ جو ہمارے ہاں بہت مقبول ہیں‘ نہیں آ رہیں! 2013ء میں بھارت میں نوّے ہزار کتابیں شائع ہوئیں۔ (اس تعداد میں صرف پہلے ایڈیشن شامل ہیں!) اس میں سے 24 فیصد یعنی 21 ہزار 600 کتابیں انگریزی کی ہیں! پاکستان کے اعداد وشمار ایک سال پہلے کے ہیں‘ یعنی 2012ء کے۔ اُس سال پاکستان میں چھپنے والی کتابوں کی تعداد 3811 تھی جس میں 868 انگریزی زبان میں اور باقی اردو میں تھیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حمل ونقل کی بندش سے نقصان پاکستان کو ہو رہا ہے‘ بھارت کو نہیں! ہو سکتا ہے آپ کے ذہن میں یہ پوائنٹ آئے کہ انگریزی کتابیں یورپ اور امریکہ سے بھی تو منگوائی جا سکتی ہیں مگر آپ بھول رہے ہیں کہ ان کی ٹرانسپورٹیشن پر کئی گنا زیادہ اخراجات آتے ہیں جبکہ بھارت اور ہم ایک ہی گلی میں رہ رہے ہیں اور دروازے ساتھ ساتھ ہیں۔ ہر سال چھپنے والی کتابوں کا ذکر چھڑا ہے تو لگے ہاتھوں اپنا موازنہ ایران سے بھی کر لیجیے۔ آٹھ نو کروڑ کی آبادی والے ایران میں ہر سال ایک لاکھ سے زیادہ کتابیں شائع ہوتی ہیں!
حکومتوں کو دیکھ لیا۔ کیوں نہ اب عوام کو آزمایا جائے؟ دونوں طرف کے عوام کی غالب اکثریت تعلقات کو نارمل کرنے کے حق میں ہے۔ انتہا پسندوں کا معاملہ اور ہے اور انتہا پسند دونوں ملکوں میں موجود ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ملکی پالیسیاں انتہا پسندوں کی مرضی اور خواہش سے بنیں گی؟ ارشد نعیم کی والدہ نے کہا ہے کہ وہ نیرج چوپڑا اور اس کی ماں کو پاکستان آنے کی دعوت دے گی۔ اس سے پہلے نیرج کی ماں نے کہا تھا کہ جسے سونے کا تمغہ ملا ہے وہ بھی اس کا بیٹا ہے۔ یہ دو طرفہ جذبات جنوبی ایشیا کے صدیوں پرانے کلچر کے عین مطابق ہیں۔ یوں بھی تمام ماؤں کے جذبات یکساں ہوتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو اگر وزیراعظم پاکستان‘ نیرج چوپڑا اور اس کی والدہ کو پاکستانی عوام کی طرف سے پاکستان آنے کی دعوت دیں! اگر بھارتی حکومت انہیں پاکستان آنے کی اجازت نہیں دیتی تو دنیا بھر میں بھارت کی بدنامی ہو گی۔ اگر اجازت دے دیتی ہے اور نیرج چوپڑا اور اس کی ماں پاکستان کا دورہ کر لیتے ہیں تو یہ ایک بہت بڑا بریک تھرو ہو گا جس کا سہرا پاکستان کے سر ہو گا۔ یہ ایک سنگِ میل ہو گا جس کے بعد کھلاڑی دونوں ملکوں میں آ جا سکیں گے۔ کھلاڑیوں کے بعد تاجروں‘ ڈاکٹروں‘ طلبہ‘ اساتذہ اور دیگر شعبوں کے ماہرین کے لیے بھی راستے کھل سکتے ہیں! سچ یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں اتنے کمزور نہیں کہ راستے کھلنے سے انہیں نقصان پہنچ جائے۔ ابھی چند ماہ پہلے کراچی کی 19 سالہ عائشہ روشان کے دل کی پیوند کاری چنئی میں ہوئی ہے۔ وہ کئی سال سے دل کی بیماری میں مبتلا چلی آ رہی تھی۔ بالآخر بھارت ہی سے اس کے لیے دل کے عطیے کا انتظام ہوا۔ اس نازک‘ خطرناک اور بڑے آپریشن کے لیے مالی امداد کا انتظام بھی بھارت کی این جی او اور وہاں کے ڈاکٹروں نے کیا۔ بھارت سے دل کا علاج کرانے والے پاکستانیوں کی تعداد اچھی خاصی ہے۔ پیوند کاری کے لیے ایسے انسان کا دل نکالا جا سکتا ہے جو ابھی مرا نہ ہو لیکن اس کا دماغ ناکارہ ہو چکا ہو! پاکستان میں ابھی تک دل کی پیوندکاری نہیں ہوئی۔ مستقبل قریب میں لاہور میں اس سلسلے میں ایک کانفرنس ہو رہی ہے جس میں امریکہ کے پاکستانی ڈاکٹر بھی حصہ لے رہے ہیں۔ کانفرنس دل کی پیوندکاری کے مسئلے پر ہی غور کرے گی‘ تاہم مستقبل قریب میں پاکستان میں دل کی پیوند کاری شروع ہونے کا امکان کم ہی ہے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ جنوبی بھارت اس وقت آئی ٹی کے میدان میں بہت آگے ہے۔ یہ عملاً پوری دنیا میں آئی ٹی کا مرکز (Hub) بن چکا ہے۔ تعلقات نارمل ہونے کی صورت میں بے شمار پاکستانیوں کو وہاں کی کمپنیوں میں ملازمتیں مل سکتی ہیں۔ اس وقت پاکستانیوں کی بہت بڑی تعداد امریکی کمپنیوں کے لیے پاکستان میں رہ کر کام کر رہی ہے۔ پاکستان میں رہ کر بھارتی کمپنیوں کے لیے بھی کام کیا جا سکتا ہے۔ خود بھارت کو پاکستان کے آئی ٹی ماہرین سے فائدہ پہنچ سکتا ہے۔
دونوں ملک دشمنی کر کے دیکھ چکے۔ کوئی فائدہ نہیں ہوا! ہمیں نہ انہیں! بھارت دشمنی کے باوجود چین سے تجارت کیے جا رہا ہے۔ بھارت اور چین دونوں اپنے اپنے مؤقف پر قائم ہیں۔ دونوں کی باہمی تجارت میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔ 2015ء اور 2022ء کے درمیان چین اور بھارت کی دو طرفہ تجارت میں 90 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا۔ چین تائیوان کی الگ حیثیت کو کسی صورت تسلیم کرنے کو تیار نہیں مگر تجارت دونوں کی خوب پھل پھول رہی ہے۔ گزشتہ برس تائیوان نے چین کو 69 ارب ڈالرز کی مشینری اور الیکٹریکل سامان بیچا ہے۔ دنیا کسی اور ڈگر پر چل رہی ہے۔ زندہ رہنے اور عزت سے زندہ رہنے کے لیے جذبات کی نہیں‘ زنبیل میں درہم ودینار کی ضرورت ہے۔ چین نے ایک گولی چلائے بغیر پوری دنیا کو اپنی معاشی کالونی بنا لیا ہے۔ بھارت ہم سے کوسوں آگے نکل چکا ہے اور تیزی کے ساتھ مسلسل آگے بڑھ رہا ہے۔ سنگاپور‘ مکاؤ‘ تائیوان‘ ہانگ کانگ ہمارے ایک ایک ضلع کے برابر ہیں مگر جا کر دیکھیے‘ آنکھیں چندھیا جاتی ہیں اور دماغ چکرا جاتا ہے۔ تھائی لینڈ کے لوگ قد میں بالشت برابر ہیں مگر صرف بنکاک کے ہوائی اڈے سے ہر روز کروڑوں روپے کما رہے ہیں۔ ایئر پورٹ کے اندر ٹرینیں چل رہی ہیں۔ ہمیں نہ جانے کس کی بددعا ہے کہ ہم اپنے پیروں پر کھڑے ہی نہیں ہو رہے۔
انجم غریبِ شہر تھے‘ اب تک اسیر ہیں
سارے ضمانتوں پہ رہا کر دیے گئے