جہاز میں بیٹھا تو ہانگ کانگ یاد آ گیا۔
یہ کچھ برس پہلے کی بات ہے۔ ہانگ کانگ سے کراچی جانا تھا۔ سامنے ایئر پورٹ پر جہاز کھڑے تھے۔ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد ایک اُڑتا تھا تو ایک اور آجاتا تھا۔ سارے جہازوں کے ساتھ جیٹ برِج لگے تھے۔ جیٹ برِج اس سرنگ نما راستے کو کہا جاتا ہے جس سے گزر کر جہاز میں بیٹھتے ہیں۔ یہ نہ ہو تو ٹرمینل سے بس میں بٹھاتے ہیں یا پیدل چل کر جہاز کے پاس پہنچتے ہیں اور سیڑھیاں چڑھ کر جہاز میں سوار ہوتے ہیں۔ ہانگ کانگ ایئر پورٹ پر ہر جہاز جیٹ برِج کے ساتھ لگا ہوا تھا۔ ہم پاکستان جانے والے مسافر سامنے کھڑے ہوئے جہازوں کو دیکھ کر سوچ رہے تھے کہ انہی میں سے ایک جہاز کراچی جانے والا ہے۔ بس اعلان ہو گا اور ہم جیٹ برِج سے ہوتے ہوئے جہاز کے اندر چلے جائیں گے‘ مگر جب اعلان ہوا تو ہمیں ایک بس میں بٹھایا گیا۔ یہ بس کافی دیر تک چلتی رہی۔ ایئر پورٹ کے آخری ویران کونے میں پہنچے تو ہمیں بس سے اُتارا گیا۔ تھوڑی دور تک پیدل چلے۔ پھر جہاز سے لگی سیڑھیاں چڑھ کر جہاز میں داخل ہوئے۔ یہ سلوک کسی اور کے ساتھ نہیں ہوا۔ صرف ہم پاکستانی اس کے مستحق ٹھہرائے گئے!
جہاز میں بیٹھتے ہی ہانگ کانگ میں پاکستانیوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا یہی سلوک یاد آ گیا۔ اسلام آباد سے بنکاک تک غیرملکی ایئر لائن نے جو جہاز مخصوص کیا تھا وہ خان روڈ سروس کی بس یاد دلاتا تھا۔ دنیا بھر میں اس سے زیادہ چھوٹی اور تنگ سیٹیں کسی جہاز کی نہ ہوں گی۔ ہانگ کانگ والوں کی طرح اس ایئر لائن کو بھی معلوم تھا کہ پاکستان کے ساتھ کیسا برتاؤ کرنا ہے اور ایسا برتاؤ پاکستان ہی کے ساتھ کرنا ہے! بقول ناصر کاظمی:
کتنی مردم شناس ہے دنیا
منحرف بے حیا ہمی سے ہوئی
بنکاک سے آگے جو جہاز ملا وہ اسی ایئر لائن کا تھا اور باغ و بہار تھا۔ کھلی آرام دہ نشستیں اور جہاز کی ہر شے چمکتی ہوئی‘ نئی نویلی سی!! ساری دنیا کو معلوم ہے کہ پاکستانیوں کے ساتھ کیسا سلوک کرنا ہے۔ جب پاکستان کی اپنی ریاست اور اپنی حکومت پاکستانیوں کے ساتھ سوتیلی ماں والا سلوک کرے تو دوسروں کو کیا پڑی ہے کہ حسنِ سلوک کا معاملہ کریں۔ آج کل سوشل میڈیا پر لکھا جاتا ہے کہ ''جن لوگوں کو گھر میں دوسری بار سالن کوئی نہیں دیتا وہ بھی سیاست اور مذہب پر لیکچر دیتے پھرتے ہیں‘‘۔ ہمارا بھی یہی حال ہے۔ ہمارے اپنے حکمران ہم عوام کے وجود ہی کو تسلیم نہیں کرتے تو بیرونی ممالک‘ ان کے ادارے اورکمپنیاں ہمیں کیا گھاس ڈالیں گی؟ ہمارے حکمران کھرب پتی ہیں۔ سچ یہ ہے کہ کھربوں کی دولت سے بھی بہت آگے نکل چکے ہیں۔ ان کے اصل مستقر (Bases) بیرونِ ملک ہیں۔ اس ملک سے ان کی صرف ایک ہی دلچسپی ہے‘ اقتدار! صرف اقتدار!! اقتدار نہ ہو تو یہاں رہ ہی نہیں سکتے جیسے مچھلی پانی کے بغیر نہیں رہ سکتی! اقتدار کے بغیر تڑپتے ہیں۔ خاک پر لوٹتے ہیں اور اگر اور کوئی راستہ نہ ہو تو کسی دوسرے ملک ہی کے راستے فرار ہو کر لندن جا پہنچتے ہیں! ان کی دنیا ہی اور ہے۔ یہ جو حکمران جماعتیں ہیں‘ یہ جو باری باری حکومت میں آتی ہیں‘ مسلم لیگ (ن)‘ پی پی پی‘ تحریک انصاف‘ جے یو آئی‘ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے ان میں سے عوام کے ساتھ کس کا تعلق ہے؟ کیا آپ نے ان جماعتوں کے سربراہان کو‘ ان خاندانوں کے معزز اراکین کو‘ کبھی بازار میں سودا سلف لیتے دیکھا ہے؟ کیا کبھی یہ آپ کو ان ہسپتالوں میں نظر آئے ہیں جہاں آپ اور آپ کے اہلِ خانہ دھکے کھاتے ہیں؟ کیا ان کے بچے‘ پوتے پوتیاں‘ نواسے نواسیاں ان تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں جہاں آپ کے اور ہمارے بچے پڑھتے ہیں؟ کیا ان کے گھروں میں لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے؟ یہ جس پاکستان میں رہتے ہیں اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں اور جس پاکستان میں ہم آپ گزر بسر کر رہے ہیں‘ اس کے قریب سے بھی یہ کبھی نہیں گزرے!
پاکستانیوں کو غیرملکی ایئر لائنیں کیوں نہ خوار کریں اور پاکستانیوں کے پاسپورٹ کی غیرملکی ہوائی اڈوں پر کیوں نہ تذلیل ہو جب پاکستان کے حکمران خود پاکستانی عوام کو کیڑے مکوڑے سمجھیں؟ کیاکبھی کسی حکمران نے‘ کسی منتخب ایوان نے‘ اُن غریبوں کے لیے آواز اٹھائی ہے جو بڑے لوگوں کی گاڑیوں کے نیچے آکر کچلے جاتے ہیں؟ کوئٹہ کے اُس سپاہی کو تو چھوڑ دیجیے جسے ایک سردار نے یوں کچلا جیسے وہ چیونٹی ہو۔ ریاست نے چُوں بھی نہیں کی! ان چار خاک نشینوں کو بھی بھول جائیے جنہیں ایک طاقتور بی بی کی گاڑی نے دارالحکومت میں ہلاک کر دیا۔ یہ تو ماضی کی خونریزیاں ہیں! صرف ان ظالمانہ وارداتوں کو دیکھیے جو آج کل ہو رہی ہیں! دارالحکومت کی شاہراہ پر جس طاقتور لڑکی نے دو نوجوانوں کو مار دیا اس کے خلاف کیا ہوا؟ حادثے میں استعمال ہونے والی گاڑی تو پولیس کے قبضے سے بھی چھین لی گئی تھی! اور دو دن پہلے کراچی میں ایک بوڑھے کو اور اس کی جواں سال بیٹی کو جس طاقتور خاتون نے موت کے گھاٹ اتار دیا اور کچھ کو زخمی کر دیا‘ کس کی ہمت ہے کہ اسے پکڑے اور مقتولوں اور زخمیوں کو انصاف دلوائے؟ یہ ہیں ہمارے حکمران جن کی آنکھوں کے سامنے آئے دن پاکستانی شہری بلیوں چوہوں کی طرح مارے جا رہے ہیں اور گاجر مولی کی طرح کاٹے جا رہے ہیں مگر انہیں احساسِ فرض ہے نہ انہیں رحم آتا ہے! یہ انسان کیا فرات کے کنارے مرنے والے اس کتے سے بھی کم حیثیت ہیں جس کی فکر میں دنیا کے طاقتور ترین حکمران کی راتوں کی نیند اُڑ جاتی تھی؟؟ جس ملک میں انسانوں کی جان محفوظ نہ ہو وہ ملک‘ ملک نہیں‘ بُچڑ خانہ ہوتا ہے‘ جہاں آدم کے بیٹوں اور بیٹیوں کی ہڈیاں کھائی‘ چوسی اور بھنبھوڑی جاتی ہیں!! خدا کی پناہ!! منہ زور طبقہ قانون کے چہرے پر رات دن طمانچے رسید کر رہا ہے اور اس طبقے کے کانوں میں اس طمانچے کی آواز موسیقی کا رَس گھول رہی ہے!!
ان حکمرانوں سے کوئی پوچھے کہ جن ملکوں میں ان کے بچے پولو اور گالف کھیلتے ہیں اور جہاں ان کے محل‘ اپارٹمنٹ اور جائیدادیں ہیں‘ کیا اُن ملکوں میں بھی انصاف کا ایسا ہی نظام ہے؟ یہ ہمیں کیوں کہتے ہیں کہ یہ ملک ترقی کرے گا؟ کیا کسی ترقی یافتہ ملک میں طاقتور افراد قانون اور پولیس سے بچ سکتے ہیں؟ کیا کوئی ایک بھی ایسا ترقی یافتہ ملک اس زمین پر ہے جہاں قاتل انگلیوں سے فتح کے نشان بناتے ہوں اور ہسپتالوں میں فائیو سٹار زندگی گزارتے ہوں؟؟ کیا اس ملک میں کوئی ظاہر جعفر کبھی تختۂ دار پر لٹکا ہے؟ آخر ہر بڑے خانوادے کے مجرم مرد پر اور ہر بڑے خاندان کی مجرم عورت پر نفسیاتی مرض کی چھتری کیوں تان دی جاتی ہے؟ جب تک یہ صورتحال بدلتی نہیں‘ اس ملک کے عام شہریوں کو غیرملکی ایئر لائنیں خوار کرتی رہیں گی! اس ملک کے پاسپورٹ کی بے توقیری جاری رہے گی! شاہراہوں پر متکبر امرا عوام کو کچلتے رہیں گے! جب تک سیاسی پارٹیوں کے مالکان‘ عوام کے بازاروں‘ عوام کے ہسپتالوں اور عوام کے سکولوں سے کوسوں دور رہیں گے یہ پاکستان دو پاکستانوں میں بٹا رہے گا! ایک سسکتا پاکستان! ایک چہکتا پاکستان! ایک طاقتور پاکستان! ایک کم حیثیت پاکستان! پارلیمنٹ کی عمارت کو چوہوں کی دستبرد سے بچانے کے لیے لاکھوں روپے مختص کیے جا رہے ہیں! سوال یہ ہے کہ نظامِ انصاف کو کون کتر رہا ہے؟؟