ہے کوئی جو عبرت پکڑے

حامد کو یقین تھا کہ چوہدری بے گناہ ہے!
وہ ذاتی طور پر جانتا تھا کہ مقتول کو قتل چوہدری نے نہیں کیا۔ وہ اس کی بے گناہی کا عینی شاہد تھا۔ جس رات مقتول قتل ہوا‘ چوہدری اور حامد جائے واردات سے کئی سو کلومیٹر دور‘ ایک سرکاری ڈاک بنگلے میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ چوہدری سارا وقت اس کی آنکھوں کے سامنے رہا۔ ایک لمحے کے لیے بھی کمرے سے باہر نہیں گیا۔ یہ لوگ شکار کے لیے آئے تھے اور رات اس ڈاک بنگلے میں ٹھہرے تھے۔ صبح انہوں نے قتل کی خبر سنی۔ اب یہ سوئے اتفاق تھا کہ مقتول کے خاندان سے چوہدری کی پرانی دشمنی تھی۔ خدا ہی جانتا ہے کہ یہ سازش کس طرح کی گئی۔ قصہ مختصر‘ ایک سال کے بعد پولیس پکڑ کر چوہدری کو لے گئی۔ اُس پر اِس قتل کا الزام تھا۔ تجوریوں کے منہ کھل جائیں تو اس دنیا میں ناممکن ممکن ہو جاتا ہے۔ بہت ''ثقہ‘‘ قسم کے گواہ بھی میسر آ گئے۔ چوہدری کا خاندان دولت میں مقتول کے خاندان کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔ اس کے وکیلوں نے بہت زور لگایا۔ مگر طاقت جیت کر رہی۔ چوہدری کو سزائے موت ہو گئی۔ بدقسمتی یہ بھی ہوئی کہ ادھر چوہدری گرفتار ہوا‘ اُدھر حامد کو بیٹی کے علاج کے لیے امریکہ جانا پڑ گیا۔ وہاں حالات نے ایسی کروٹ لی اور زمانے نے زندگی کو ایسی مجبوریوں میں ڈالا کہ حامد واپس نہ آ سکا۔ تب دنیا وڈیو لنک سے آشنا نہ تھی۔ یوں وہ عدالت میں چوہدری کی بے گناہی کی گواہی دینے سے محروم رہا۔ مقتول کے خاندان کی بے پناہ دولت اور بلند روابط کے سامنے اُس کی گواہی ہو بھی جاتی تو کچھ نہ کر پاتی۔
امریکہ کی ایک سرد‘ بے رحم‘ برفانی صبح تھی جب حامد کو اطلاع ملی کہ چوہدری کی رحم کی اپیل مسترد کر دی گئی اور اب کسی بھی وقت پھانسی کا دن مقرر کیا جا سکتا ہے۔ چوہدری کے ساتھ اس کی دوستی اتنی پرانی تو نہ تھی مگر گہری ضرور تھی۔ اس کا دل بیٹھ گیا۔ کئی دن اسے ڈھنگ کی نیند آئی نہ بھوک لگی۔ دن جوں توں گزر جاتا مگر رات جاگتے اور کروٹیں لیتے گزرتی۔ اس سے زیادہ کسے معلوم تھا کہ یہ قتل چوہدری نے نہیں کیا تھا۔ بالآخر اس نے وطن واپس جانے کا فیصلہ کیا۔ وہ چوہدری سے موت کی اُس کوٹھڑی میں ملنا چاہتا تھا جس میں وہ زندگی کے آخری دن گزار رہا تھا۔
چند دن اجازت لینے میں گزر گئے۔ پھر ایک دن حامد چوہدری کے سامنے بیٹھا ہوا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ چوہدری موت کے خوف سے جسمانی طور پر کمزور پڑ گیا ہو گا مگر ایسا نہ تھا۔ چوہدری کی صحت ٹھیک تھی۔ وہ بہت حیران ہوا۔ چوہدری کے چہرے پر اطمینان کی جھلک تھی۔ اس نے اپنے رنج اور بے پناہ دکھ کا اظہار کیا مگر اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب چوہدری نے درد بھرے لہجے میں ایک عجیب بات کی۔ اس نے کہا: دوست! بظاہر میں بے گناہ ہوں۔ یہ قتل میں نے نہیں کیا۔ مگر سزا مجھے درست مل رہی ہے۔ حامد کا سر یہ سن کر جیسے گھوم ہی تو گیا۔ ''کیا کہہ رہے ہو چوہدری؟ آخر مطلب کیا ہے تمہارا؟ تم اس رات میرے ساتھ تھے۔ جائے قتل سے میلوں دور! ساری رات تم کمرے میں موجود رہے۔ یہ بھی ممکن نہ تھا کہ تم جا کر قتل کرتے اور صبح تک واپس بھی آ جاتے! پھر تم کیوں کہہ رہے ہو کہ سزا درست ہے؟‘‘۔ حامد کی بات سن کر اس کے چہرے پر ایک عجیب مسکراہٹ آئی۔ ایک بے بس‘ زرد‘ موت جیسی مسکراہٹ!! حامد تھرموس میں اس کے لیے اس کی پسندیدہ کافی لے کر گیا تھا۔ چوہدری نے کہا ''کافی پیالے میں ڈالو پھر میں تمہیں وہ داستان سناتا ہوں جس سے تم مکمل طور پر ناواقف ہو‘‘۔ دونوں نے کافی کے پیالے پکڑے ہوئے تھے اور فرش پر بیٹھے تھے۔ ان کی پیٹھیں دیوار کے ساتھ لگی تھیں! حامد نے کچھ تِگڑم لڑا کر اور چکر چلا کر زیادہ دیر چوہدری کے ساتھ رہنے کا بندو بست کیا ہوا تھا۔ اس نے بولنا شروع کیا:
''یہ تمہاری اور میری دوستی سے بہت پہلے کی بات ہے۔ میری شادی ایک بہت امیر خاندان میں ہوئی۔ یہ لوگ ملکی صنعت میں ممتاز مقام رکھتے تھے۔ ان کے کئی کارخانے تھے اور ملکی برآمدات میں وافر حصہ ڈالتے تھے۔ اس خاندان میں شادی ہوئی تو یوں سمجھو میری قسمت نے پلٹا کھایا اور میں زمین سے ساتویں آسمان پر پہنچ گیا۔ گاڑیوں کی ریل پیل‘ رہنے کے لیے محل‘ بٹالین در بٹالین خُدّام‘ دنیا بھر کی سیر وتفریح ! آج سوئٹزرلینڈ میں ہیں تو کل لاس اینجلس میں اور پرسوں جاپان میں! میری گویا پانچوں گھی میں تھیں اور سر کڑاہی میں! تاہم یہ سب کچھ میرے نظامِ انہضام سے بہت زیادہ تھا۔ جلد ہی میں آپے سے باہر ہو گیا اور معقولیت کی حدیں پار کر لیں۔ میری سمت غلط ہو گئی۔ معاملہ شراب نوشی سے شروع ہوا اور منشیات تک جا پہنچا۔ مگر سسرال کے پاس دولت بے انتہا تھی۔ بے احتیاطیوں پر پردے ڈالے جاتے رہے۔ وفادار ملازم میرا بھرم نہ ٹوٹنے دیتے۔
یہ ایک عجیب دن تھا۔ میرا موڈ نہ جانے کیوں اُس دن صبح ہی سے خراب تھا۔ میں نے شام کے بجائے اس دن صبح ہی شراب پی لی۔ اس سے بھی اطمینان نہ ہوا تو نشہ دو آتشہ کرنے کا بھی انتظام کر لیا۔ پھر میں نے پجارو نکالی۔ ملازم پیچھے بھاگے مگر میں ان کے آنے سے پہلے ہی باہر سڑک پر تھا۔ میں نے شاہراہوں پر گاڑی دوڑانا شروع کی۔ دولت کا نشہ! شراب کا نشہ! پھر نشہ در نشہ! میں زمین پر نہ تھا‘ بادلوں پر تھا۔ ایک گاڑی کو میری پجارو نے ٹکر ماری۔ رکنے کے بجائے میں نے گاڑی کی رفتار تیز کر دی۔ اب میں ہوا میں اُڑ رہا تھا۔ سامنے موٹر سائیکل پر ایک بوڑھا آ رہا تھا۔ پیچھے ایک لڑکی بیٹھی تھی۔ میری پجارو کے سامنے ان کی حیثیت ہی کیا تھی۔ دونوں کئی فٹ اوپر ہوا میں اچھلے اور زمین پر آن گرے۔ ان کے بچنے کا امکان صفر تھا۔ میں نے رفتار مزید تیز کی۔ تین چار موٹر سائیکل اور پھڑ کائے۔ مرے نہیں تو زخمی خوب ہوئے ہوں گے۔ کوئی عام شہری ہوتا تو فوراً گرفتار ہو جاتا اور ٹیسٹ کے بعد نشے میں ہونا بھی ثابت ہو جاتا مگر میں تو شہزادہ تھا۔ پولیس جیب کی گھڑی تھی اور قانون ہاتھ کی چھڑی۔ پبلک نے رَولا بہت ڈالا لیکن میرا بال تک بیکا نہ ہوا۔ وکیلوں کو منہ مانگے پیسے دیے گئے اور وکیل تو جادوگر ہوتے ہیں۔ ان کا سحر کون توڑ سکتا ہے۔ دولت اور سٹیٹس نے مجھے بچا لیا۔ مگر اس کے بعد پتا نہیں کیا ہوا۔ بہت آہستگی کے ساتھ میرے سسرال کا بزنس الٹی گنتی گننے لگا! کوئی پُراسرار سی دیمک اندر ہی اندر اس ایمپائر کو کھانے لگی! چند برس میں ہم آسمان سے زمین پر آ گئے۔ اور میری حالت یہ ہوئی کہ جیسے ہی آنکھ لگتی وہ باریش بوڑھا اور اس کے پیچھے بیٹھی ہوئی لڑکی خواب میں آجاتے اور عجیب سی نظروں سے مجھے دیکھنے لگتے۔ میں ان کی نظروں کی تاب نہ لاتے ہوئے چیخ اٹھتا۔ نیند ٹوٹ جاتی۔ جیسے جیسے جیسے وقت گزرتا گیا‘ ڈراؤنے خوابوں کا سلسلہ بڑھتا گیا۔ ڈاکٹروں نے بہت سر مارا مگر وہ کیا کر سکتے تھے۔ بیماری تو میرے ضمیر کے اندر تھی۔ جب مجھے اس قتل کے جرم میں پکڑا گیا جو میں نے نہیں کیا تھا تو میں نے آرام کا سانس لیا۔ مجھے دو اور دو چار کی طرح یقین ہو گیا کہ قدرت کے انصاف کا وقت آ گیا ہے۔ پھانسی کی سزا مجھے درست مل رہی ہے۔ کاش! اُس وقت میں دولت کا سہارا نہ لیتا اور اپنے آپ کو ایک عام خطاکار کی طرح قانون کے حوالے کر دیتا‘‘۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں