کروڑوں افراد میں سے ایک آواز اُٹھی! صرف ایک آواز!
یہ تنہا آواز معروف ٹی وی ڈرامہ ایکٹریس سارہ خان کی ہے۔ کراچی میں جو باپ بیٹی گاڑی کے نیچے کچل دیے گئے ہیں‘ اس حوالے سے سارہ خان نے کہا ہے کہ جو صنعتی ایمپائر ملزمہ کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے اس کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے! بنیادی حقوق کے نام پر بڑی بڑی تنظیمیں بنی ہوئی ہیں‘ مگر اس جرأت مند پکار کا کریڈٹ ایک اداکارہ کی قسمت میں لکھا تھا:
کامل اس فرقۂ زُہاد سے اٹھا نہ کوئی
کچھ ہوئے تو یہی رندانِ قدح خوار ہوئے
مہذب معاشروں میں پُرامن احتجاج روزمرہ کا معمول ہے۔ بائیکاٹ اسی پُرامن احتجاج کا حصہ ہے۔ جب مروجہ نظام مایوس کر دے تو امن اور قانون کے دائرے میں رہ کر احتجاج کیا جاتا ہے۔ جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے اس کے خلاف یورپ اور امریکہ میں لوگ احتجاج ہی تو کر رہے ہیں۔ ہمارے احتجاج کے برعکس وہاں کے احتجاج میں املاک جلائی جاتی ہیں نہ بسیں! راہ گیروں کے لیے راستے اور گاڑیوں کے لیے ٹریفک بھی بند نہیں کی جاتی!
احتجاج تو ہمارے ہاں بھی ہوتے ہیں۔ دھرنے بھی دیے جاتے ہیں‘ مگر ان کا عوام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ان احتجاجی جلوسوں‘ جلسوں اور دھرنوں کی پشت پر مذہبی تنظیمیں یا سیاسی جماعتیں ہوتی ہیں۔ یا کچھ اور قوتیں! عوام سے یعنی سول سوسائٹی سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ عوام میں اتنا شعور ہے نہ ہمت کہ خود احتجاج کریں! شاید دو تین سال پہلے کی بات ہے۔ رمضان میں کچھ باہمت افراد نے مہم چلائی کہ پھلوں کا بائیکاٹ کیا جائے۔ نہیں معلوم یہ بائیکاٹ کس درجے کا ہوا۔ (ہم نے اور ہمارے گھر والوں نے بہرحال بائیکاٹ کیا تھا) ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر شہر میں صارفین کی انجمن ہو۔ جیسے ہی کسی آئٹم کی قیمت نامعقول حد تک زیادہ ہو جائے تو یہ انجمن بائیکاٹ کی کال دے اور صارفین اس کال پر لبیک کہہ کر بائیکاٹ کردیں!
مگر اوپر اشارہ کیا گیا ہے کہ اتنا شعور ہم میں نہیں ہے۔ ایک مثال دیکھیے۔ ہر عید سے پہلے ملبوسات اور جوتوں کی قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں۔ خاص کر بچوں کے حوالے سے۔ اس کی وجہ معاشی نہیں ہوتی۔ منڈی کی طاقتیں (مارکیٹ فورسز) اس بڑھاوے میں کردار نہیں ادا کرتیں بلکہ ایسا فقط تاجروں کی لالچ اور چیرہ دستی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اگر ایک سال بچوں کے لیے عید پر نئے ملبوسات اور جوتے نہ خریدے جائیں تو اس جوابی کارروائی سے تاجروں کی اصلاح ہو سکتی ہے مگر اس کے لیے اعلیٰ درجے کا شہری شعور اور ایک خاص معاشرتی رویہ چاہیے! صارفین کو اپنی طاقت کا احساس نہیں۔ وہ چاہیں تو بائیکاٹ کرکے ان بے رحم تاجروں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ صارفین کے بغیر کاروباری سرگرمیوں کی کوئی حیثیت نہیں۔ صفر سے بھی کم حیثیت ہے!
غور کیجیے کہ جب کوئٹہ میں ٹریفک کی ڈیوٹی دینے والے اہلکار حاجی عطااللہ کو ایک با اثر آدمی نے گاڑی کے نیچے دے کر کچل ڈالا اور پھر وہ آدمی انگلیوں سے فتح کا نشان بناتا ہوا پتلی گلی سے نہیں‘ سب کے سامنے قانون کے شکنجے سے نکل گیا تو عوام کا کیا ردِ عمل تھا؟ عوام کا یعنی سول سوسائٹی کا ردِعمل مجہول تھا اور سخت مایوس کن! اسی طرح ایک طاقتور بی بی سے تعلق رکھنے والی گاڑی نے اسلام آباد میں چار نوجوانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ایک اور بڑے صاحب کی صاحبزادی نے بھی دو یا تین سال پہلے رات کو دو غریب‘ جوان‘ محنت کشوں کو کچل دیا۔ اس کیس میں تو طاقت کا استعمال اس قدر پُر زور تھا کہ پولیس والوں کی تحویل سے گاڑی تک نکال لی گئی۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ان اور ایسے تمام معاملات میں مروجہ نظام‘ انصاف دینے سے یا انصاف حاصل کرنے سے یکسر قاصر رہا ہے۔ اگر ہم عوام میں شہری شعور ہوتا تو ہم احتجاج کرتے۔ پُرامن احتجاج! جلوس نکالتے۔ جلسے کرتے۔ سوشل میڈیا پر قیامت برپا کر دیتے! طاقتوروں کو جتا دیتے کہ ہم زندہ ہیں! مر نہیں گئے!! مگر ایسا نہیں ہوا۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ انصاف دلوانے کے لیے فرشتے آسمان سے نہیں اتریں گے۔ یہ کام ہم عوام ہی کو کرنا پڑے گا۔ اس کے لیے پُرامن جدو جہد کرنا ہو گی۔ مسئلے کو یعنی ناانصافی کو عوام کے ذہنوں میں زندہ رکھنا ہو گا۔ خواہ جتنا عرصہ بھی لگ جائے۔ ایران کے ملک الشعرا بہار نے حکایت بیان کی ہے کہ ایک چشمہ پہاڑ سے پھوٹا اور بہنے لگ گیا۔ راستے میں ایک بڑا پتھر رکاوٹ بن گیا۔ چشمے نے اس سے راستہ مانگا مگر پتھر نے ٹکا سا جواب دیا۔ چشمے نے ہمت نہ ہاری۔ مسلسل کوشش کرتا رہا۔ کھودتا رہا اور کاٹتا رہا اور بالآخر راستہ بنا لیا۔ شکیب جلالی نے بھی کہا تھا کہ:
کیا کہوں دیدۂ تر! یہ تو مرا چہرا ہے
سنگ کٹ جاتے ہیں بارش کی جہاں دھار گرے
احتجاج‘ پُر امن احتجاج اور مسلسل احتجاج واحد راستہ ہے۔ ثابت قدمی کو بڑی سے بڑی طاقت بھی شکست نہیں دے سکتی۔ امریکہ کے مقبول کولڈ ڈرنک کا صرف ایک نئے فارمولے کی مدد سے ذائقہ بدلا گیا تھا۔ بائیکاٹ اور احتجاج نے اتنی بڑی عظیم الجثہ‘ طاقتور کمپنی کو چند دن میں فیصلہ واپس لینے پر مجبور کر دیا۔ ہم نہ جانے کس مٹی سے بنے ہیں! آج کی خبر ہے کہ اسلام آباد تا لاہور موٹر وے کا ٹول ٹیکس ایک مرتبہ پھر بڑھا دیا گیا ہے۔ اب یہ 1210 روپے کر دیا گیا ہے۔ متعلقہ اتھارٹی نے جو گھٹنا مسافروں کے گلے پر رکھا ہوا ہے اسے مسلسل دبا رہی ہے تا کہ گلے کی رگوں پر زور پڑے اور سانس لینے میں دقت ہو۔ جس رفتار سے یہ ٹول ٹیکس بڑھ رہا ہے‘ اس رفتار سے دوسری اشیا کی قیمتیں نہیں بڑھ رہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ صرف رونے اور کُڑھنے سے متعلقہ حکام کا دل پسیج جائے گا۔ آپ شدید غلط فہمی کا شکار ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ مسافروں کی کوئی باڈی‘ کوئی تنظیم ہونی چاہیے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ تنظیم یا کوئی اور‘ یاد دلائے کہ ایک متبادل راستہ جی ٹی روڈ موجود ہے۔ صرف چار پانچ دن کی تکلیف برداشت کی جائے۔ موٹر وے کا بائیکاٹ کیا جائے۔ دو دن میں ہوش ٹھکانے آجائیں گے۔ یہ بائیکاٹ سو فیصد قانونی حدود کے اندر ہو گا۔ قانون کی رو سے موٹر وے چھوڑ کر جی ٹی روڑ پر سفر کرنا کوئی جرم نہیں!! اخباروں اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے اس بائیکاٹ کا اعلان کیا جا سکتا ہے۔ چند باہمت افراد کا مختصر سا گروہ یہ کام کر سکتا ہے۔ جہاں جہاں اور جب جب عوام کا کردار صارف کا ہوتا ہے‘ یوں سمجھیے کہ اصل طاقت عوام کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ ملبوسات اور جوتے ایک عید پر نہ خریدنا‘ کسی موقع پر ٹماٹر اور کسی موقع پر مرغی نہ خریدنا اور ضرورت پڑے تو لاہور موٹر وے کے بجائے جی ٹی روڈ سے جانا‘ یہ سب وہ طاقتور ہتھیار ہیں جو تاجروں کے ہاتھ میں ہیں نہ نیشنل ہائی وے کے اختیار میں! یہ ہتھیار‘ یہ اختیار صرف اور صرف صارفین کے ہاتھ میں ہے۔ ہاں اس کے لیے شعور‘ باخبری اور آگہی لازم ہے! اب ہمیں اس کہانی سے باہر آنا ہو گا جس میں بادشاہ کے حکم سے دریا پار کرنے والوں کو کوڑے مارے جاتے تھے اور لوگوں نے مطالبہ کیا تھا کہ کوڑے مارنے کے لیے سپاہیوں کی تعداد بڑھائی جائے تاکہ کوڑے کھانے کے لیے زیادہ انتظار نہ کرنا پڑے! بہت کوڑے کھائے جا چکے۔ بہت اطاعت ہو چکی۔ اب دریا پار کرنے کے لیے متبادل راستہ تلاش کرنا ہو گا۔
اُٹھو وگرنہ حشر نہیں ہو گا پھر کبھی!!