جمیل قمر پرانے دوست ہیں۔ ملازمت ایسی تھی کہ ملک ملک کا پانی پیا۔ چاڈ (افریقہ) میں تھے تو وہاں سے خاص سوغات لائے۔ تتلی کے پروں سے ترتیب دی ہوئی تصویر! ریٹائرمنٹ کے بعد کینیڈا میں مقیم ہیں۔ جب معلوم ہوا کہ شو ہارن جمع کرنے کا فضول شوق ہے تو کینیڈا سے شو ہارن بھی بھیجا۔ کالم پڑھنے کا شوق تعلق کا سبب بنا۔ پندرہ سال پہلے میں نے اپنے پوتے کے ہجر میں ایک کالم لکھا ''ٹُر گیا ماہیا‘‘۔ یہ کالم بس ان کے دل میں اُتر گیا۔ جوان بیٹے سے ہمیشہ کی مفارقت کا صدمہ جھیلا۔ اب اُس کے بچوں کو سینے سے چمٹائے بیٹھے ہیں۔ شعر بہت اچھے کہتے ہیں ؎
اپنی عزت مجھے پیاری تھی سو خاموش رہا
میں نے ہمسائے کے بچے کو نصیحت نہیں کی
خدا کی اس زمیں پر سب کا حق یکساں نہیں ہونا
جو بے گھر ہیں انہوں نے بے گھری کے ساتھ رہنا ہے
چند روز پہلے انہوں نے فون کیاکہ ہر بدھ کو کچھ ہم خیال‘ سینئر حضرات مل بیٹھتے ہیں۔ یہ مجلس آرائی جسمانی نہیں بلکہ آن لائن ہوتی ہے اس ہفتہ وار محفل کے تمام ارکان‘ سرد وگرم چشیدہ‘ جہاندیدہ اور اپنے اپنے شعبے کے ماہر ہیں۔ وکالت‘ اکاؤنٹس‘ آئی ٹی‘ صحافت‘ مینجمنٹ اور کئی دیگر میدانوں کے شہسوار! حافظہ کمزور نہ ہوتا تو سب حضرات کے اسمائے گرامی لکھتا۔ شاعروں کا حافظہ یوں بھی‘ غیر شاعروں کے مطابق‘ ضعیف ہی ہوتا ہے۔ بہت بڑے شاعر جناب ظفر اقبال نے تو اعتراف ہی کر لیا ؎
ظفرؔ ضعفِ دماغ اب اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گا
کہ جاتا ہوں وہاں اور واپس آنا بھول جاتا ہوں
جمیل قمر صاحب نے فرمائش کی کہ میں بھی اس مجلس میں حاضری دوں۔ چنانچہ ان کے حکم کی تعمیل میں اس بار حاضری دی۔ مجلس میں زیادہ حضرات تو کینیڈا ہی سے تھے مگر کچھ امریکہ‘ آسٹریلیا‘ برطانیہ اور پاکستان سے بھی تھے۔ یہ انٹرنیٹ بھی ایک طلسم ہے۔ کفار نے کیا کیا چیزیں بنا ڈالی ہیں۔ دنیا کے جس کونے میں بھی ہیں‘ مل بیٹھ سکتے ہیں۔ کانفرنس میں شریک ہو سکتے ہیں۔ لیکچر دے اور سُن سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ مریض ڈاکٹروں سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ نئی کتاب آئی ہے تو چند منٹوں بعد آپ اسے حاصل کر کے پڑھ سکتے ہیں۔ گھر بیٹھے دنیا بھر سے کسی بھی شے کی خریداری کر سکتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ کراچی سے نکلنے والا مشہور انگریزی روزنامہ اسلام آباد میں شام کو پہنچتا تھا۔ اب بٹن دبا کر آپ نہ صرف پاکستان کے‘ بلکہ امریکہ‘ برطانیہ‘ بھارت‘ اسرائیل اور ساری دنیا کے اخبارات پڑھ سکتے ہیں۔ یہ اور اس زمانے کی دیگر ایجادات اور دریافتیں غیر مسلموں کی ہیں۔ اب یہ نہ سمجھیے گا کہ ہم مسلمان اور پاکستانی ان لوگوں سے پیچھے ہیں۔ہم تو ان سب غیر مسلموں سے زیادہ لائق ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم ابھی مصروف ہیں۔ ہم ابھی یہ طے کر رہے ہیں کہ ہم میں سے درست مسلمان کون سے ہیں اور نادرست کون سے ؟ پہلے ان مسلمانوں کو ختم تو کر لیں جو ہمارے خیال میں نادرست ہیں۔ ابھی ہم پاکستان‘ افغانستان‘ شام‘ عراق‘ یمن‘ لیبیا‘ صومالیہ میں مسلمانوں کی صفائی میں مصروف ہیں۔ چوہے نے ہاتھی کے بچے سے عمر پوچھی تھی۔ ہاتھی کے بچے نے کہا: دو سال۔ اب ہاتھی کے بچے نے عمر پوچھی تو چوہے نے کہا کہ ہوں تو میں بھی دو سال کا مگر ذرا بیمار رہا ہوں۔ ہم بھی اہلِ مغرب سے کم لائق نہیں‘ بس ذرا زیادہ اہم امور میں مصروف ہیں ورنہ ایسی ایجادات اور دریافتیں ہمارے لیے کیا مشکل ہیں۔
یہ لکھنے والا ان لوگوں میں سے ہے جو پاکستانی تارکینِ وطن کے مسائل پر بہت غور کرتے ہیں اور اپنی استطاعت کے مطابق اس حوالے سے لکھتے ہیں اور بولتے بھی ہیں۔ جن حضرات کے ساتھ یہ آن لائن نشست ہو رہی تھی‘ ان سے زیادہ تارکینِ وطن کے مسائل کو کون جان سکتا تھا۔ ان کا پس منظر پاکستان کا تھا اور زندگی کا معتد بہ حصہ انہوں نے دیارِ غیر میں بسر کیا تھا۔ ان کی زندگیاں متنوع نوعیت کے تجربات وحوادث پر مشتمل تھیں۔ گویا ان میں سے ہر شخص پر سعدی کا یہ شعر صادق آتا تھا ؎
تمتع ز ہر گوشۂ یافتم ؍ ہر خرمنی خوشۂ یافتم
دنیا کے کونے کونے سے استفادہ کیا اور ہر خرمن سے خوشہ اُٹھایا۔
وہی چبھتا ہوا سوال کہ کیا تارکینِ وطن‘ آخری تجزیے میں‘ خوش ہیں ؟ اپنی معروضات پیش کرنے کے بعد ان ثقہ حضرات سے‘ صرف استفادہ کرنے کے لیے پوچھا کہ کیا آپ حضرات کی پیشانیوں پر کبھی عرقِ انفعال کے قطرے چمکے کہ کیوں وطن چھوڑا؟ کیا کبھی پچھتائے کہ کیوں اجنبی سرزمینوں پر آن بسے؟ کیا اعزّہ و اقارب‘ دوست احباب یاد آتے ہیں؟ میری توقع کے بالکل برعکس کسی نے بھی پچھتاوے کا اظہار نہیں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ انٹرنیٹ‘ فون‘ وغیرہ کی سہولتوں نے بہت حد تک جدائی کی شدت کو کم کر دیا ہے۔ وہ جو فراق کا عفریت تھا اس کے خونیں دانت وڈیو کال کی وجہ سے کند ہو گئے ہیں۔ مگر ایک بات انہوں نے ایسی کی جو ہم اہلِ پاکستان کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو پاکستان کے حالات ہیں‘ ان کے پیشِ نظر خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ پاکستان سے نکل آئے۔ یہاں دیارِ غیر میں امن ہے‘ جان مال محفوظ ہے۔ پولیس سے ڈر نہیں لگتا بلکہ اسے دیکھ کر اطمینان ہوتا ہے۔ یہاں جمہوری حکومتیں ہیں! اصل جمہوری حکومتیں! ایسی نام نہاد جعلی جمہوریتیں نہیں کہ فیصلے کہیں اور ہو رہے ہوں۔ ان ملکوں میں پارلیمنٹس طاقتور ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ان سب حضرات کو ان ملکوں میں ٹاپ کلاس ملازمتیں صرف میرٹ پرملیں۔ یہاں ان کے پاس کوئی سفارش نہیں تھی۔ ان کی آئندہ نسلوں کو بھی ان کا حق میرٹ پر مل رہا ہے۔
اس جواب کے مضمرات کیا ہیں؟ سرفہرست یہ ہے کہ اس صور تحال کے پیش نظر پاکستان میں Reverse Brain Drain کا کوئی امکان نہیں۔ یعنی ہمارے ماہرین جو بیرونِ ملک مقیم ہیں‘ وہ پاکستان واپس نہیں آئیں گے۔ بھارت کئی دہائیوں سے Reverse Brain Drain کے ثمرات سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ بھارت سے باہر بھی بہت لوگ جا رہے ہیں مگر وہ معاشرے کی کریم نہیں۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد باہر جا رہے ہیں۔ سب سے بڑی وجہ میرٹ کُشی ہے اور دوست نوازی (کرونی ازم)۔ اس کی بے شمار مثالیں ہیں۔ نوکر شاہی کا ایک رکن‘ جو ماڈل ٹاؤن فیم ہے‘ پہلے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں سفیر بنا کر بھیجا گیا حالانکہ موصوف کا تعلق ٹریڈ سے دور دور کا نہیں تھا۔ اب انہی صاحب کو ایک بار پھر بیرونِ ملک پوسٹنگ سے نوازا گیا ہے اور ورلڈ بینک کی پُرکشش تعیناتی دی گئی ہے۔ یہ تو (ن) لیگ کی ''سخاوت‘‘ کی صرف ایک مثال ہے۔ پیپلز پارٹی بھی ماشاء اللہ اس ضمن میں پیچھے نہیں۔ 2008ء میں جب ان کی حکومت آئی تو ''پسندیدہ‘‘ افراد جو دس دس‘ بارہ بارہ سال سے بھاگے ہوئے تھے‘ واپس آئے۔ مؤثر بہ ماضی بحال ہوئے۔ یعنی جو طویل عرصہ باہر گزارا تھا اس کی تنخواہیں لیں۔ کوئی وزیراعظم کا سیکرٹری لگ گیا تو کوئی صدر کا۔ یہاں سے فارغ ہوئے تو کسی کو ایشیائی بینک میں منصب دیا گیا تو کسی کو پانچ سال کی مزید افسری یہیں مل گئی۔ یہ حکمران ''اپنا بندہ‘‘ کے چکر سے کبھی نہیں نکل سکتے۔ پاکستان میں بدترین کرونی ازم ہے اور مکروہ ترین میرٹ کُشی۔ تارکینِ وطن اس جہنم میں واپس کیوں آئیں؟ اور جو لائق افراد ملک میں موجود ہیں‘ وہ بھی باہر نہ جائیں تو کیا کریں؟ ؎
بھاگ مسافر میرے وطن سے‘ میرے چمن سے بھاگ
اوپر اوپر پھول کھلے ہیں‘ بھیتر بھیتر آگ