تو کیا ہم غلام ہیں؟

چھ جوان ہمارے پرسوں شہید ہوئے۔ پہلی بار نہیں! شہادتوں پر شہادتیں ہو رہی ہیں! ہوتی جا رہی ہیں! اتنا جانی نقصان ہمارا تین جنگوں میں نہیں ہوا ہوگا جتنا اس غیر اعلانیہ جنگ میں ہوا ہے اور مسلسل ہو رہا ہے۔ آئے دن مغربی سرحد سے حملے ہو رہے ہیں۔ ہمارے افسر‘ ہمارے جوان خون میں نہا رہے ہیں۔ مائیں سینہ کوبی کر رہی ہیں۔ بچے یتیم ہو رہے ہیں۔ خواتین بیوہ ہو رہی ہیں۔ ہمارے بوڑھوں کے ہاتھوں سے ‘ ان کے سہارے ‘ ان کے جوان بیٹے چھینے جا رہے ہیں! ہم بے بس ہیں۔ ہم بظاہر ایٹمی طاقت ہیں مگر مار کھا رہے ہیں۔ کیا ہم اتنے کمزور ہیں کہ اپنا دفاع نہیں کر سکتے ؟ یا ہمیں دفاع کی اجازت نہیں! تو کیا ہم غلام ہیں؟
ہم ثبوت دے چکے ہیں کہ آپ کی سرزمین ہمارے خلاف استعمال ہو رہی ہے۔ پکے ثبوت! ناقابلِ تردید ثبوت! حملہ آور وہیں سے آتے ہیں! ان کی تربیت گاہیں وہاں ہیں۔ ان کے پاس جدید اسلحہ ہے جو اُن کے سرپرست انہیں دے رہے ہیں۔ پوری دنیا کو معلوم ہے کہ ہمارے خلاف کس کی سرزمین استعمال ہو رہی ہے ۔ بچے بچے کو پتا ہے کہ کون حملہ آوروں کی پیٹھ ٹھونک رہا ہے۔ مگر جب بتایا جاتا ہے‘ اور ثبوت کے ساتھ بتایا جاتا ہے تو وہ جو انگریزی میں کہتے ہیں: Lying through your teeth‘ تو سفید جھوٹ بولا جاتا ہے کہ نہیں! ہماری سرزمین تو کسی کے خلاف استعمال نہیں ہو رہی‘ نہ ہو سکتی ہے۔ یہ جواب سن کر ہم خاموش ہو جاتے ہیں! ہم اس سفید جھوٹ کو چیلنج نہیں کرتے۔ اتنے میں وہاں سے حملہ آور پھر آتے ہیں اور قتل وغارت کرتے ہیں۔ کیا ہم بے بس ہیں؟ یا ہمیں کچھ کرنے کی اجازت نہیں؟ تو کیا ہم غلام ہیں؟
ہماری معیشت تباہ ہو چکی ہے۔ پہلے لوٹ مار ہوتی تھی۔ ظاہر ہے پیداوار تو وہاں کبھی بھی نہیں تھی۔ بھوک ستاتی تو جتھے حملہ آور ہوتے۔ کبھی غزنوی! کبھی ابدالی! کبھی درانی! ہم نے سادہ لوحی کے سبب انہیں ہیرو قرار دیا۔ ورنہ یہ سارا ''جہاد‘‘ لوٹ مار کے لیے ہوتا تھا۔ دروازے تک اکھاڑ کر غزنی لے جائے گئے اور شہر کی فصیل میں نصب کیے گئے۔ پنجاب سے گندم کا اایک ایک دانہ لوٹ لیا جاتا تھا۔ یہ محاورہ تو ابھی تک لوگوں کو یاد ہے ''کھادا پیتا لاہے دا ‘ تے باقی احمد شاہے دا‘‘ یعنی جو کھا لو گے وہی تمہارا ہو گا‘ باقی احمد شاہ ابدالی لوٹ لے گا۔ حملوں کا زمانہ ختم ہوا تو سمگلنگ شروع ہو گئی۔ گندم‘ گھی‘ چینی‘ کپڑا‘ سیمنٹ‘ سب کچھ یہاں سے جاتا ہے۔ پاکستان صرف اپنے لیے نہیں کماتا اُن کے لیے بھی کماتا ہے۔ ڈالر سارا وہاں پہنچ گیا ہے۔ ہمارے نام نہاد معیشت دان کچھ بھی نہیں کر رہے۔ سمگلنگ کو بند کیا جاتا ہے نہ ڈالروں کی منتقلی کو۔ ہمارا ریٹ کہاں اور اُن کا ریٹ کہاں! کیا ہم ایکشن لینے سے ڈرتے ہیں؟ کیا ہم اصلاحی اقدامات نہیں کر سکتے! تو کیا ہم غلام ہیں؟
یہ ایک لینڈ لاکڈ ( Land locked) ملک ہے۔ کوئی بندرگاہ نہیں۔ یہ پاکستان ہے جو اپنی بندرگاہ سے چیزیں اٹھاتا ہے اور اُن کے دروازے تک پہنچاتا ہے۔ ساری زیادتیوں‘ سارے قتل وغارت کے باوجود ہم یہ خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔ احسان کیے جا رہے ہیں۔ شکر یہ تو دور کی بات ہے‘ الٹا آنکھیں دکھائی جا رہی ہیں۔ سارے مریض پاکستان کے ہسپتالوں میں آ رہے ہیں۔ پشاور سے لے کر لاہور تک تمام ہسپتالوں سے ان کے مریض فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ساری اکڑفوں کے باوجود اتنی لیاقت نہیں کہ اپنے ہسپتال ہی بنا لو! عورتوں کا پڑھنا لکھنا بند۔ مگر پاکستان میں اپنی خواتین لاتے ہیں تو لیڈی ڈاکٹروں کو دکھاتے ہیں! قول اور فعل کا عبرتناک تضاد!! سارے طالبعلم یہاں تعلیم حاصل کر رہے ہیں! دوسری طرف یہ ہمارے بچوں‘ ہمارے جوانوں کو مارے جا رہے ہیں! کیا ہم اتنے ڈرپوک ہیں کہ ان کے مریضوں اور ان کے طالب علموں کو روک نہیں پا رہے؟ یہ کہاں کی انسانی ہمدردی ہے کہ انہی کا ایک گروہ ہمارے جوانوں پر حملے کر رہا ہے۔ جو باڑ بنائی تھی‘ اسے توڑ رہا ہے‘ اور ہم ان کے مریضوں کا علاج کیے جا رہے ہیں اور ان کے سٹوڈنٹس کی پرورش کیے جا رہے ہیں۔ تو کیا ہم غلام ہیں؟
لاکھوں افراد اُس ملک کے یہاں رہ رہے ہیں۔ دہائیاں ہو گئیں یہاں رہتے ہوئے۔ کئی نسلیں یہیں پیدا ہوئیں۔ یہیں پلیں بڑھیں‘ جوان ہوئیں۔ یہاں کی مٹی‘ ہوا ‘پانی‘ چاندنی‘ دھوپ اور اناج سے تمتع پایا۔ جب اس ملک سے ہمارے ملک پر آگ اور لوہا برسایا جاتا ہے تو ہماری حکومتوں میں اتنا دم خم نہیں کہ اس بہت بڑی آبادی کو اس کے اپنے ملک میں واپس بھیجیں۔ کیا ایسا بھی ہوا ہے کہ جس گھر سے آپ پر گولیاں برسائی جا رہی ہوں آپ اُس گھر کے افراد کو اپنے گھر میں مہمان رکھیں؟ اب تو افغانستان میں تاریخ کی بہترین حکومت قائم ہے۔ اس حکومت میں عزتِ نفس کا مادہ بھی۔ اول تو اس حکومت کو خود ہی چاہیے تھا کہ اپنے لوگوں کو واپس لے جاتی۔ مگر یہ عجیب حکومت ہے جو ایک طرف ہم پر حملے کرنے والوں کو اپنی پناہ میں رکھتی ہے‘ دوسری طرف کہتی ہے کہ یہاں رہنے والوں کو واپس ان کے اپنے ملک میں نہ بھیجا جائے! یہ عجیب صورت حال ہے۔ مگر شکوہ تو اپنی حکومتوں سے ہے جو ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی مثال ہیں۔ کیا یہ حکومتیں خائف ہیں؟ اگر خائف نہیں تو کیا ہم غلام ہیں؟
قومی ترانے کی توہین بھی ہماری حکومت ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر گئی! ریاست کی یہ بے حرمتی بھی پی گئی! ایک ضعیف اور نحیف سا احتجاج کیا گیا۔ یہ عذر لنگ بھی مضحکہ خیز تھا کہ موسیقی کی وجہ سے نہ اُٹھے۔ پاکستانی صحافیوں نے اس عذر کی دھجیاں اُڑا کر رکھ دیں۔ بھارت اور چین کے ترانوں کی موسیقی جائز ہے مگر پاکستان کے قومی ترانے کی موسیقی حرام ہے۔ میٹھا میٹھا ہپ‘ کڑوا کڑوا تھو!
اب بھی درخواست ہے کہ دشمنی ترک کر دیجیے۔ پاکستان کو احسانات کا بدلہ نہیں چاہیے۔ آپ کو شکوے ہیں تو وہ بھی سر آنکھوں پر! گلے شکوے سننے چاہئیں اور تدارک بھی کرنا چاہیے۔ مگر ہم پر حملے کرنے والوں کو پناہ تو نہ دیجیے۔ ہماری باڑ تو نہ اکھاڑیے۔ صدیوں کا تعلق ہے۔ آنکھیں ماتھے پر تو نہ رکھیے۔ ہماری فوج اور پولیس پر حملے کرنے والوں کے سر پر ہاتھ رکھنے کا آپ کو کوئی فائدہ نہ ہو گا۔ قدرت کا بھی تو ایک نظام ہے۔ جن کی آپ سرپرستی کر رہے ہیں‘ کل آپ کے لیے وہ مکافاتِ عمل کی صورت بھی اختیار کر سکتے ہیں۔ دونوں ملکوں کا فائدہ باہمی دوستی میں ہے‘ دشمنی میں نہیں!
پس نوشت: میڈیا کے ایک حصے نے دعویٰ کیا ہے کہ حکومت آئین کی شق 215 میں ترمیم لانے پر غور کر رہی ہے تا کہ موجودہ چیف الیکشن کمشنر کو دوبارہ پانچ سال کے لیے یہی منصب مل جائے۔ ان کے عہدے کی میعاد پانچ سال ہے اور یہ پانچ سال آنے والی جنوری میں ختم ہو رہے ہیں۔ ہم حکومت کی خدمت میں دست بستہ گزارش کر تے ہیں کہ خدا کے لیے اس ملک کو مذاق بنائیے نہ اپنے آپ کو۔ کوئی فردِ واحد ملک کے لیے ناگزیر نہیں۔ کیا پچیس کروڑ لوگوں میں کوئی ایک فرد بھی ایسا نہیں جو موجودہ چیف الیکشن کمشنر کی جگہ لے سکے؟ ایسے غیر سنجیدہ اور غیر صحت مند اقدامات سے ملک پر انتہائی منفی اثر پڑتا ہے۔ ملک کو آئین کے مطابق چلنے دیجیے۔ آئین میں اپنی مرضی اور اپنے مفادات کے پیوند لگا کر آئین کی صورت مت بگاڑیے! امید ہے کہ چیف الیکشن کمشنر خود ہی توسیع لینے سے انکار کر دیں گے‘ اس سے ان کی عزت میں اضافہ ہوگا!!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں