''چینی کی تیس کروڑ ڈالر کی درآمد عوامی مفاد میں نہیں! اس کا فوراً جائزہ لیا جائے۔ عام آدمی چینی کا بڑا صارف نہیں! بلکہ اصل فائدہ خوراک ومشروبات کی صنعت کو ہو گا۔ پہلے چینی کی برآمد کی اجازت دی اور اب صنعتکاروں کو فائدہ پہنچانے کیلئے درآمد؟ اصل مسئلہ مافیا کا کردار ہے۔ چینی انسانی صحت کیلئے خطرناک ہے۔ قیمتی زرمبادلہ اس پر کیوں خرچ کیا جا رہا ہے؟ عام آدمی نہ مشروبات خرید سکتا ہے اور نہ مٹھائیاں! پھر ان کے نام پر درآمد کیوں؟ برآمد کی اجازت دینے پر کیا کوئی جواب دہ ہو گا؟ چینی مافیا‘ بروکرز اور ذخیرہ اندوزی کی تحقیقات کب ہوں گی؟ کیا ایف بی آر نے پچھلے پانچ سال میں چینی کی صنعت کے منافع پر ٹیکس لیا؟‘‘
یہ بیان تحریک انصاف کا ہے نہ مولانا فضل الرحمان کا نہ اپوزیشن کی کسی اور جماعت کا! یہ نوکیلا اور تیز دھار بیان فواد حسن فواد صاحب کا ہے جو مقتدر سیٹ اَپ کے دست راست رہے ہیں! صرف وہی نہیں‘ ہر شخص چینی کے مسئلے پر پریشان ہے۔ یہ کھیل ہر سال کھیلا جاتا ہے۔ چینی برآمد کی جاتی ہے‘ پھر در آمد کی جاتی ہے۔ بظاہر یہ لگتا ہے کہ متعلقہ حلقوں کے پاس کام کوئی نہیں۔ وہ جو کہتے ہیں کہ فارغ بیٹھنے سے بہتر ہے کہ پاجامہ ادھیڑ کر دوبارہ سی لو یا باغ میں گملوں کی ترتیب بدل لو‘ تو اسی حساب سے فارغ بیٹھے ہوئے حلقے وقت گزارنے کیلئے پہلے چینی ملک سے باہر بھیجتے ہیں‘ پھر درآمد کرتے ہیں۔ مصروفیت کی مصروفیت اور مزے کا مزا! یہ الگ بات کہ اس مصروفیت میں عوام کا تیا پانچہ ہو جاتا ہے۔ رہا چینی مافیا کے خلاف تحقیقات کا مسئلہ‘ تو کیا کسی اور مافیا کے خلاف تحقیقات ہوئی ہیں؟ ایسے ایسے مافیا ہیں کہ نام ہی نہ لیے جائیں تو بہتر ہے۔ سسلی کا مافیا دنیا کا مشہور ترین مافیا ہے مگر اب یوں لگتا ہے سسلی مافیا سبق پڑھنے کیلئے اُن مافیاز کے سامنے آکر زانوئے تلمذ تہہ کرے گا جو ہمارے ہاں جاری وساری ہیں اور مسلسل زیادہ طاقتور ہو رہے ہیں۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ایک شخص کی بیوی کے پاس سانپ بیٹھا ہوا تھا۔ اس شخص نے سانپ سے کہا کہ میری بیوی کو ڈس لو! سانپ نے ہاتھ جوڑ کر عرض کیا کہ نا سائیں نا!! میں تو آپ کی بیگم صاحبہ سے زہر ڈاؤن لوڈ کرانے آیا ہوں!
ہمارا ماتھا تو اسی دن ٹھنک گیا تھا جس دن فواد حسن فواد صاحب نے پی آئی اے کو فروخت کرنے کے حوالے سے موجودہ حکومت پر تنقید کی تھی۔ آج کل میرٹ کا بہت چرچا ہے۔ میرٹ‘ میرٹ اور میرٹ! لگتا ہے کہ فواد حسن فواد صاحب ''میرٹ‘‘ کی نظروں میں نہیں آسکے! ورنہ پہلے تو وہ بڑے بڑے مناصب پر فائز رہے یہاں تک کہ وزیر بھی رہے! ان کے سابق رفقائے کار آج بھی میرٹ کی نظروں میں سربلند وسرفراز ہیں۔ ایک تو ماشاء اللہ سینیٹر ہیں اور وفاقی وزیر! دوسرے بار بار میرٹ کی نظروں کے سامنے آتے رہے ہیں! ماڈل ٹاؤن معاملے کے بعد عالمی تجارتی تنظیم میں ایلچی مقرر ہو گئے۔ پھر میرٹ ہی پر انہیں عالمی بینک بھیجا گیا۔ پھر میرٹ پر انہیں واپس بلا کر وفاقی وزیر کا درجہ دیا گیا ہے۔ چشم بددور! پچیس کروڑ افراد میں اگر ان تمام اسامیوں کیلئے ایک ہی شخص میرٹ کے تقاضوں پر پورا اترتا ہے تو معترضین کو کیا تکلیف ہے؟
ان دنوں میرٹ کا غلغلہ ہے‘ اس سے عربی کی وہ مشہور حکایت یاد آ رہی ہے جو ہم میں سے اکثر نے سنی ہوئی ہے۔ ایک دیہاتی ایک شہری کے گھر آ کر ٹھہرا۔ شہری نے کھانے کیلئے مرغی روسٹ کرائی۔ جب کھانے کیلئے دسترخوان پر بیٹھے تو شہری نے مہمان کی تکریم کرتے ہوئے عرض کیا کہ مہمان ہی مرغی کی تقسیم کرے۔ میزبان کے گھر کے افراد چھ تھے۔ میاں‘ بیوی‘ دو بیٹے اور دو بیٹیاں! میرٹ پسند مہمان نے مرغی کی تقسیم یوں کی۔ بھنی ہوئی مرغی کا سر کاٹ کر میزبان کو دیا اور کہا کہ آپ خاندان کا سر یعنی سردار ہیں‘ اس لیے سر آپ کا! پھر دونوں بازو دو لڑکوں کو دیے اور کہا کہ بیٹے باپ کے بازو ہوتے ہیں۔ پھر کہا کہ بیٹیاں خاندان کی عزت ہوتی ہیں اور لازم ہے کہ عزت مضبوط بنیادوں پر کھڑی ہو؛ چنانچہ دونوں پنڈلیاں کاٹ کر دونوں بیٹیوں کو دیں۔ پھر پچھلا حصہ‘ جو دُم پر مشتمل تھا‘ میزبان کی بیوی کو دیا اس لیے کہ شوہر کہیں جاتا ہے تو بیوی گھر کی حفاظت کرتی ہے۔ اب رہ گیا تھا مرغی کا جسم‘ تو وہ میرٹ پسند دیہاتی نے خود رکھ لیا۔ اس تقسیم سے میزبان اور اس کے گھر والے دنگ رہ گئے اور پریشان بھی ہوئے۔ بہرطور میزبان ابھی میرٹ سے مزید لطف اندوز ہونا چاہتا تھا۔ دوسرے دن اس نے بیوی سے کہا کہ پانچ مرغیاں بھونو۔ دستر خوان پر بیٹھے تو مہمان نے کہا کہ شاید آپ لوگوں کو میری کل والی تقسیم پسند نہیں آئی۔ میزبان نے کہا: نہیں! جناب! آپ نے تو میرٹ پسندی کی مثال قائم کر دی۔ پھر اس نے مہمان کو ایک بار پھر مرغیاں تقسیم کرنے کی زحمت دی۔ مہمان نے پوچھا: طاق طریقے سے تقسیم کروں یا جفت طریقے سے؟ میزبان نے کہا: طاق طریقہ آزمائیے آج!! میرٹ پسند دیہاتی نے ایک مرغی میاں بیوی دونوں کو دی اور بتایا کہ تم دو اور ایک مرغی‘ کُل تین ہوئے۔ ایک مرغی دونوں بیٹوں کو دی اور کہا: تم دو اور ایک مرغی‘ کل تین ہوئے۔ پھر ایک مرغی دونوں بیٹیوں کو دی اور انہیں بتایا کہ تم دو اور ایک مرغی‘ کل ہوئے تین۔ باقی دو مرغیاں بچی تھیں۔ وہ مہمان نے خود لیں اور کہا: دو مرغیاں اور ایک میں‘ کل ہوئے تین! میرٹ نے میزبان اور اس کے اہلِ خانہ کو ایک بار پھر ڈس لیا تھا۔ تیسرے دن میزبان نے پھر پانچ مرغیاں روسٹ کرائیں۔ دسترخوان پر بیٹھے تو مہمان سے کہا کہ جناب! آج جفت طریقے سے تقسیم کیجیے۔ مہمان خوش ہوا کہ آج پھر میرٹ پرستی کا دن ہے۔ اس نے ماں اور دو بیٹیوں کو ایک مرغی دی اور کہا تم تین اور ایک مرغی۔ کل چار ہوئے۔ پھر میزبان اور اس کے دو بیٹوں کو ایک مرغی دی اور بتایا کہ تم تین اور ایک مرغی۔ کل چار ہوئے۔ باقی بچی تھیں تین مرغیاں‘ وہ اس نے اپنے لیے رکھیں اور کہا کہ تین مرغیاں اور ایک میں‘ کل ہوئے چار!! اس حکایت کے آخر میں یہ بھی درج ہے کہ مہمان نے آسمان کی طرف منہ کیا اور کہا: قدرت کی خصوصی مہربانی ہے کہ اس نے مجھے میرٹ پر فیصلے کرنے کی توفیق دی! میرٹ پر مبنی ایک فیصلے کی مثال مرزا فرحت اللہ بیگ نے بھی دی ہے۔ قانون کے امتحان میں پوچھا گیا کہ ایک شخص کو قتل کر دیا گیا‘ مقتول نے اپنے پیچھے بیوہ اور دو بیٹے چھوڑے۔ قتل کے دو گواہ بھی موجود ہیں۔ معاملہ آپ کے سامنے عدالت میں پیش ہوا۔ کیا فیصلہ کریں گے؟ مرزا صاحب نے جو فیصلہ کیا وہ یہ تھا کہ قاتل کی مقتول کی بیوہ سے شادی کرا دی جائے‘ دونوں بیٹوں کو یتیم خانے میں داخل کرا دیا جائے۔ رہے گواہ‘ تو دونوں کو جیل میں بند کر دیا جائے۔
دنیا میں کم ہی ایسے ملک ہوں گے جو میرٹ پسندی میں ہمارا مقابلہ کر سکیں۔ توتلے ہمارے ہاں داستان گوئی کرتے ہیں۔ اندھوں کو ہم ستارے گننے پر مامور کرتے ہیں۔ لنگڑے ہزار میٹر کی دوڑ جیتتے ہیں۔
میرٹ پر تعینات کیا گیا ڈاکٹر مریض کا آپریشن کرنے لگا تو کہنے لگا: نصیر! گھبراؤ مت! چھوٹا سا آپریشن ہے۔ مریض نے کہا کہ اس کا نام نصیر نہیں! ڈاکٹر نے جواب دیا کہ ''نصیر میرا نام ہے!‘‘