پاکستان اور بھارت کے مسافروں کو جاپان‘ کوریا‘ ہانگ کانگ‘ ملائیشیا‘ ویتنام‘ سنگاپور‘ برونائی‘ آسٹریلیا یا نیوزی لینڈ جانا ہو تو راستے میں اکثر و بیشتر بنکاک پڑتا ہے جہاں سے جہاز تبدیل کرنا ہوتا ہے۔ اگرچہ بہت سے ملکوں کو بھارتی ایئر لائن کے جہاز ڈائریکٹ جاتے ہیں تاہم بہت سے بھارتی خاندان دوسری ایئر لائنوں سے بھی سفر کرتے ہیں۔ رہے ہم اور ہماری قومی ایئر لائن‘ تو کیا ہم اور کیا ہمارا شوربہ۔ میرے مستقل پڑھنے والوں کو یاد ہو گا کہ دو ماہ پہلے رونا رویا تھا کہ بھارت‘ سری لنکا‘ بنگلہ دیش‘ سب کی ایئر لائنیں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ جاتی ہیں‘ صرف ہماری پی آئی اے نہیں جاتی۔ آسٹریلیا میں تعینات پاکستانی سفیر جناب زاہد حفیظ چودھری نے اس کالم کا نوٹس لے کر باقاعدہ جواب دیا اور بتایا کہ سارا قصو ر پی آئی اے کا ہے‘ ہماری قومی ایئر لائن آسٹریلیا کی شرائط پوری نہیں کر رہی جبکہ انڈیا‘ سری لنکا اور بنگلہ دیش کی ایئر لائنوں نے یہ شرائط پوری کر دی ہیں۔ جیسا کہ توقع تھی‘ قومی ایئر لائن نے جواب دینا مناسب نہیں سمجھا۔ انہی ''پھرتیوں‘‘ اور ''کار کردگیوں‘‘ کی وجہ سے ہی تو آج ہماری ایئر لائن نشانِ عبرت ہے۔ مگر اصل بات جو کہنی ہے‘ اور ہے۔
پاکستان اور بھارت سے تعلق رکھنے والی جو بیٹیاں اور بیٹے آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ اور مشرقِ بعید کے دوسرے ملکوں میں مقیم ہیں‘ ان کے والدین اکثر و بیشتر ان ملکوں میں جاتے ہیں اور کچھ عرصہ بچوں کے پاس گزارتے ہیں‘ خاص طور پر جب بیٹی یا بہو کے ہاں نئے بچے کا ورود نزدیک ہو تو ماں یا ساس مدد کے لیے ضرور جاتی ہے۔ چنانچہ معمر جوڑے کثیر تعداد میں بنکاک کے راستے دوسرے ملکوں کو سفر کرتے ہیں۔ دیکھنے والی اور غور کرنے والی آنکھ بنکاک کے ہوائی اڈے پر ایک موازنہ کرتی ہے۔ یہ موازنہ عجیب و غریب نتیجہ دکھاتا ہے۔ سفید فام اور زرد فام عمر رسیدہ خواتین سمارٹ نظر آتی ہیں۔ ہوائی اڈے پر وہ نارمل رفتار سے چلتی پھرتی دکھائی دیتی ہیں۔ وہ بہت آسانی سے تیز چلتی ہیں‘ ان کی کمر سیدھی رہتی ہے‘ اپنا ٹرالی بیگ یا کوئی اور بیگ خود سنبھالے ہوئے ہوتی ہیں۔ بعض اوقات دو دو بیگ اٹھائے ہوتی ہیں۔ ایک ستر برس کی سفید فام یا زرد فام خاتون کا چلنا‘ سامان اٹھانا یا دیگر نقل و حرکت ایسے ہے جیسے پاکستان‘ بھارت کی چالیس سالہ خاتون کی!! ان کے مقابلے میں ہماری یہ جنوبی ایشیا (پاکستان‘ بھارت‘ بنگلہ دیش) کی معمر خواتین بہت مشکل اور مشقت سے چل رہی ہوتی ہیں۔ یہ بیک وقت سیدھا بھی چلتی ہیں اور افقی بھی۔ چلتے ہوئے پہلے جسم کا پورا وزن دائیں طرف ڈالیں گی‘ پھر بائیں طرف‘ پھر اگلا قدم اٹھائیں گی۔ اگر ان کے چلنے کی لکیر بنائی جائے تو وہ ایسی ہو گی جیسے سانپ گیا ہے‘ یا جسے ''زِگ زیگ‘‘ کہا جاتا ہے۔ رفتار انتہائی سست ہو گی۔ عام طور پر فربہ اندامی کا مسئلہ بھی ہو گا۔ رہا ہینڈ بیگ یا ٹرالی بیگ تو شاید سو میں سے ایک خاتون اٹھائے یا سنبھالے ہو گی۔ اکثرو بیشتر کا سامان‘ سارے کا سارا‘ میاں یا بیٹے نے اٹھایا ہوا ہو گا۔
جس نسل سے ہماری ماؤں یا بہنوں کا تعلق تھا‘ انہیں پردے میں رکھا گیا۔ حفاظت اتنی کی گئی کہ بازار تک نہیں گئیں۔ ان کی تمام ضروریات گھر کے مرد پوری کرتے تھے یا گھر کے ملازم۔ اس نسل کے بارے میں بڑے فخر سے کہا جاتا تھا کہ باہر نکلیں بھی تو جرابیں پہنے بغیر کبھی نہیں نکلیں۔ یہ طرزِ عمل آسودہ حال اشرافیہ کا بھی تھا‘ سید خاندانوں کا بھی اور مذہبی خاندانوں کا بھی۔ ہمیں لڑکپن میں بتایا گیا کہ قصبے میں جب ملک صاحبان‘ یعنی پشتینی رؤسا کی خواتین حویلی سے باہر نکلتی تھیں تو ملازمین سواری کے ارد گرد چادریں تانے چلتے تھے کہ سواری کی بھی جھلک کوئی نہ دیکھ سکے۔ جسمانی فٹنس کا تصور عنقا تھا۔ ورزش یا سیر جیسی سرگرمیوں کا خیال بھی خواتین کے لیے محال تھا۔ یہ تو ماضی قریب سے شروع ہوا ہے کہ لڑکیوں اور خواتین نے جم جانا شروع کیا ہے۔ واک کرتی ہیں‘ مگر اس کا رواج بھی بڑے شہروں میں ہے۔ میرا نہیں خیال کہ یہ رجحان قصبوں میں پایا جا رہا ہے۔ یہ جو کئی صدیاں جنوبی ایشیا کی خواتین کو چھوئی موئی بنا کر رکھا گیا ہے اسی کا نتیجہ ہے کہ معمر خواتین پچاس برس کی بھی ہوں تو ستر اسی کے پیٹے میں لگتی ہیں۔ مکمل طور پر گھر کے مردوں اور ملازموں کی محتاج ہیں۔ انہی کے لیے اس قسم کے لطیفے ایجاد ہوئے ہیں کہ شوہر کا نام رحمت اللہ ہے تو السلام علیکم و رحمۃ اللہ کہنے کے بجائے السلام علیکم منے کے ابا کہتی ہیں! چلنے سے قاصر ہیں۔ فٹنس سے محروم ہیں۔ بیٹھیں تو اٹھنا مشکل ہے‘ کھڑی ہوں تو بیٹھنا آسان نہیں ہے۔ انتہا پسندی ایک اور عامل ہے۔ یہ تعداد میں کم ہے مگر پھر بھی خاصی تعداد میں ہے۔ ایک جاننے والے نے بتایا کہ اس کی بھابی شادی کے بعد ایک بار بھی بازار نہیں گئیں اور یہ کہ اس کے بھائی گھر کا دروازہ باہر سے مقفّل کر کے جاتے ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ افغان کلچر کو مذہبی لبادہ پہنا کر ہمارے ہاں بھی رائج کر دیا گیا ہے۔ شک اس ماحول کا لازمی نتیجہ ہے۔ شک کا ناگ گھر کی سلامتی کو ڈس لیتا ہے۔ فلاں سے بات کیوں کی؟ مسکرائیں کیوں؟ گلی میں ریڑھی والے سے سبزی خود کیوں خریدی؟ یہ ایک اور ہی دنیا ہے!
کچھ تضادات ہمارے معاشرے کے حیران کن ہیں۔ گاؤں میں کچھ گھروں کی خواتین تو پردہ کرتی ہیں‘ مگر خواتین کی اکثریت مردوں کے شانہ بشانہ باہر کے کام کرتی ہیں۔ جیٹھ ہاڑ کی کڑکتی‘ چلچلاتی دھوپ میں گندم کی فصل کاٹتی ہیں۔ پکی ہوئی فصلوں سے پرندے اڑانے کے لیے غلیل استعمال کرتی ہیں۔ جانوروں کو پانی پلانے کے لیے گاؤں سے باہر تالابوں کو لے جاتی ہیں۔ ایک ایک خاتون دو دو بیلوں کی رسیاں ایک ہاتھ میں پکڑے ہوتی ہے۔ دودھ دوہتی ہیں۔ کسانوں کو کھانا دینے گاؤں سے دور کھیتوں میں جاتی ہیں۔ یہ عملاً ایک مخلوط معاشرہ ہے۔ مجھے یاد ہے کہ گاؤں کے مرد ہمارے گھر میں آتے تھے تو دادا جان کے ساتھ ہماری دادی جان بھی گفتگو میں برابر کی شریک ہوتی تھیں اور پیڑھی پر بیٹھی‘ چائے ساتھ پیتی تھیں۔ یہ وہ خواتین تھیں جن کی صحت آخر تک اچھی رہتی تھی۔ یہ سامان بھی اٹھا لیتی تھیں۔ سفر بھی اکیلے کر لیتی تھیں۔ زندگی کے سفر میں یہ مردوں کا بوجھ بھی بانٹتی تھیں اور رفاقت کا حق بھی ادا کرتی تھیں! بیوہ ہو جاتی تھیں تو کئی کئی سال تن تنہا زندگی گزار لیتی تھیں۔
آج کا منظر نامہ مختلف ہے۔ ایئر پورٹوں پر جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والی نو جوان اور جوان خواتین اعتماد سے چلتی ہیں۔ چلنے کی رفتار تیز ہوتی ہے۔ سامان خود اٹھاتی ہیں۔ جم جاتی ہیں ورنہ گھروں میں رہ کر باقاعدہ ورزش کرتی ہیں۔ گھر کا سودا سلف خود خریدتی ہیں۔ ڈرائیو کرتی ہیں۔ بچوں کے سکول کالج کے معاملات سے خود نمٹتی ہیں۔ شوہروں کے لیے آسانیاں پیدا کرتی ہیں۔ چند دہائیاں پہلے جو طبقات ملازمت کرنے والی بچیوں پر انگلیاں اٹھاتے تھے‘ اب ان کی اپنی بیٹیاں اور بہوئیں ملازمت کر رہی ہیں۔ سول سروس میں خواتین مردوں سے آگے نکلنے کے لیے پَر تول رہی ہیں۔ وہ وقت گزر چکا جب خواتین کو ملازمت سے روکا جاتا تھا۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ خواتین گھر اور ملازمت میں توازن پیدا کریں۔ ملازمت کو گھر کی سلامتی پر فوقیت نہ دیں۔ مردوں پر بھی لازم ہے کہ دل بڑا کریں۔ اَنا کو گنے کا رَس نہ پلائیں۔ گھر کے کام اور بچوں کی نگہداشت میں خاتونِ خانہ کا ہاٹھ بٹائیں۔ بیوی اچھی پوسٹ پر ہے تو احساسِ کمتری کا شکار نہ ہوں۔ دونوں پر لازم ہے کہ جئیں اور جینے دیں!!