عالی قدر! جہاں پناہ! آپ یوں تو برطانیہ‘ کینیڈا‘ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے شہنشاہ ہیں مگر ہم اہلِ پاکستان ہر دم‘ دم ہمہ دم جناب کو یاد کرتے ہیں اور نم آنکھوں کے ساتھ آہیں بھرتے ہیں! بجا کہ آزادی سے پہلے ہمارے ماتھے پر غلامی کی مُہر تھی لیکن قائداعظم اور ان کے چند رفقا کے بعد جو کچھ ہم پر گزر رہی ہے وہ ایسی چاکری ہے کہ جس کی مُہر ہمارے دل پر لگی ہوئی ہے۔ ہم وہ جگر سوختہ اور تیرہ بخت ہیں کہ ہماری زبوں حالی پر ستارے آنسو بہاتے ہیں‘ پھول سسکیاں لیتے ہیں اور پرندے دردناک گیت گاتے ہیں! جہاں پناہ کو یاد ہو گا کہ اس عاجز عرضی گزار نے آپ کی خلد آشیانی مادرِ مہرباں کو بھی‘ جب وہ سریر آرائے تخت تھیں‘ ایک درخواست بھیجی تھی۔ اب ان کے بعد آپ کی سابقہ رعایا ہونے کے تعلق سے آپ کے حضور یہ پرارتھنا بھیجی جا رہی ہے۔ امید ہے کہ حضور فیض گنجور کرم فرمائی کرتے ہوئے توجہ کی ایک جھلک مرحمت فرمائیں گے۔
صاحبِ تاج وتخت! ولیِ نعمت! جیسا کہ جناب کو علم ہے‘ ہمارے ملک کی آبادی بدقسمتی سے زیادہ ہے۔ اس وقت اس مختصر قطعہ زمین پر پچیس کروڑ سے زیادہ افراد رہ رہے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کو تین وقت کی خوراک‘ پوشش کیلئے لباس‘ مرض میں دوا اور بارش اور دھوپ سے بچاؤ کیلئے چھت درکار ہے۔ آبادی کم کرنے کا بہترین اور مہذب طریقہ یہ ہے کہ لوگوں کو تقریر وتحریر کیلئے قائل کیا جائے اور ترغیب دلائی جائے۔ ہماری آسمانی کتاب میں بھی درج ہے کہ نوزائیدہ کو ماں کا دودھ دو برس تک پلایا جائے۔ لوگوں کو قائل کرنے کیلئے تعلیم ضروری ہے۔ عوام جس قدر تعلیم یافتہ ہوں گے اسی قدر آبادی کسی حساب کتاب کے اندر آئے گی۔ مگر ہماری حکومتوں نے (تمام حکومتوں نے) آبادی کم کرنے کیلئے ٹریفک کا سہارا لیا۔ شاہراہوں پر لوگوں کو کھلا چھوڑ دیا تا کہ وہ ایک دوسرے کو قتل کریں۔ ویگنوں‘ بسوں‘ ٹرکوں‘ سوزوکیوں اور موٹر سائیکلوں کو عملاً قانون سے بالاتر قرار دے دیا گیا۔ٹریفک کے حادثوں کے سبب پاکستان میں واقع ہونے والی اموات‘ دوسرے ملکوں کی نسبت کہیں زیادہ ہیں۔ ساتھ ہی ریلوے پھاٹکوں کو کھلا اور بغیر عملے کے چھوڑ دیا گیا تاکہ یہ بھی آبادی گھٹانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ ان اقدامات سے آبادی ایک حد تک کم ہوئی مگر جو کچھ اس کے علاوہ کیا جا رہا ہے‘ اس کی ہم دہائی دیتے ہیں اور صاحبِ عالم کی توجہ اس طرف مرکوز کرنے کی اجازت چاہتے ہیں!
ظلِ الٰہی! اس ملک کی بے بس‘ بے کس‘ مجبور‘ مقہور‘ بے یار ومدد گار آبادی پر ٹرالیوں‘ ٹریکٹروں اور ڈمپروں کا ایک ایسا لشکر چھوڑ دیا گیا ہے جو وحشت میں چنگیز خان کے تاتاریوں کو مات کرتا ہے اور بربریت میں اُن بادشاہوں سے بڑھ کر ہے جو روم کے کلوسیم میں براجمان‘ انسانوں کو شیروں کا نوالہ بنتے دیکھ کر تالیاں بجاتے تھے! عالی نژاد! ہم حیران ہیں کہ ہٹلر اور مسولینی کو یہ خیال کیوں نہ آیا کہ ٹینکوں کے بجائے ٹرالیاں اور ڈمپر بنوائیں اور دشمنوں کو اس طرح کچلیں کہ اُن کی ہڈیاں سفوف بن جائیں! ہماری آبادی کم کرنے کیلئے ڈمپروں کی ایک پوری فوج کراچی سے لے کر گلگت تک اور واہگہ سے لے کر لنڈی کوتل اور چمن تک مصروفِ کار ہے۔ یہ انسانوں کو دھڑا دھڑ ختم کر رہی ہے۔ اس فوج کے دل رحم سے خالی ہیں۔ یہ بچوں کو‘ بوڑھوں کو‘ مردوں کو‘ عورتوں کو قتل کیے جا رہی ہے۔ اس نے خلیل حامدی اور طیب منیر جیسے سکالروں اور پروفیسروں کے چیتھڑے اڑا ڈالے۔ انتظامیہ کے کان پر جوں تک نہیں رینگی! ہماری پارلیمنٹ اس قتلِ عام کو کوئی اہمیت نہیں دیتی۔ حافظ نعیم الرحمان کے علاوہ کسی سیاستدان نے اس مسئلے پر بات نہیں کی۔ یوں لگتا ہے کہ سب مطمئن ہیں!
شہنشاہِ معظم! اب تو آخری حد بھی پار کی جا چکی ہے۔ اب تو ہمارے بچوں کے گروہوں کے گروہ کچلے جا رہے ہیں۔ ہمارے اخبار‘ روزنامہ دنیا نے خبر دی ہے کہ ایبٹ آباد میں چند دن پہلے ڈمپر نے آٹھ بچوں اور بچیوں کو کچل ڈالا۔ یہ بچے سکول جا رہے تھے۔ یہ بچے اور بچیاں پانچ سال سے لے کر پندرہ سال تک کی تھیں! زخمی بچے بھی ہسپتالوں میں جاں بلب ہیں اور سسک رہے ہیں! آلہ قتل‘ یعنی ڈمپر کا ڈرائیور جیسا کہ ہر بار ہوتا ہے‘ موقع سے فرار ہو گیا ہے! دہائی ہے جہاں پناہ! دہائی ہے! بچوں کی مائیں ماتم کر رہی ہیں۔ ان کے باپ انصاف کی تلاش میں زندگی بھر دھکے کھاتے رہیں گے۔ ڈمپر وں کے مالک اس ملک میں بڑے بڑے ٹھیکیدار ہیں۔ یہ ٹھیکیدار افسروں اور حکمرانوں کے ''بوجوہ‘‘ منظورِ نظر ہوتے ہیں۔ ڈرائیور ہر قتل کے بعد فرار ہو جاتے ہیں۔ جی ہاں! کروڑوں اربوں روپے جس پولیس پر قومی خزانے سے خرچ ہو رہے ہیں وہ ''لائق‘‘ پولیس ڈرائیوروں کو نہ جانے کہاں ڈھونڈتی پھرتی ہے کہ اکثر یہ قاتل ڈرائیور نہیں پکڑے جاتے! ہمارے حکمران جب اپنی شاہی‘ بیش بہا سواریوں پر نکلتے ہیں تو شاہراہوں پر ٹریفک روک دی جاتی ہے اس لیے اس امر کا کوئی امکان نہیں کہ ڈمپر وں کی مٹھ بھیڑ ان کی شاہی سواریوں سے ہو!
عالی جناب! آپ کی قوم نے ہم پر دو سو سال حکومت کی ہے۔ ہم نے سنا اور پڑھا ہے کہ ملکہ معظمہ کی حکومت میں شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پیتے تھے۔ کسی گاؤں میں قتل ہوتا تھا تو انگریز ایس پی اس گاؤں میں آ کر خیمہ زن ہو جاتا تھا اور خیمہ اس وقت اکھڑتا تھا جب مجرم پکڑ لیا جاتا تھا۔ہم لمحہ موجود میں آپ کی رعایا نہیں مگر سابق رعایا کی حیثیت سے ہمارا آپ پر کچھ نہ کچھ حق ضرور ہے! ہم دست بستہ ملتمس ہیں کہ آپ ایک ٹیلی فون کر دیجیے کہ ڈمپروں اور ٹریکٹر ٹرالیوں کو قتل عام سے روکنے کیلئے قانون سازی کی جائے۔ ڈمپر کے مالک کو بھی ذمہ دار قرار دے کر گرفتار کیا جائے اور ایسے قتل کو قتلِ عمد قرار دیا جائے۔ جناب عالی کا ایک مختصر فون بھی ہمارے سینکڑوں احتجاجوں‘ زاریوں اور التجاؤں پر بھاری ہو گا۔ ہمارے اربابِ اختیار اس قتلِ عام سے بے نیاز ہیں اس لیے ہمارے پاس اور کوئی چارۂ کار نہیں رہا سوائے اس کے کہ ہم آپ کی خدمت میں عرض گزاری کریں۔آپ سے پہلے ہمارے حکمران مغل تھے۔ آج مغلوں کے پاس کسی قطعہ زمین کی حکمرانی نہیں۔ شیر شاہ سوری اور علا الدین خلجی عدل وانصاف کے حوالے سے بے مثال تھے۔ مگر وقت کی چکی نے ان کے جانشینوں کو پیس کر رکھ دیا۔ اگر ان میں سے کسی کی اولاد آج کہیں فرمانروا ہوتی تو ہم جناب عالی کو زحمت نہ دیتے مگر ہمارے تمام سابق حکمرانوں میں سے صرف حضور والا ہی سریر آرائے تخت ہیں اور تاجدارِ سلطنت ہیں! اس لیے ہم آپ ہی کے دروازے پر لگی زنجیر عدل کھینچنے پر مجبور ہیں! امید ہے کہ جناب اس قتل عام کو روکیں گے! ہم وعدہ کرتے ہیں اور حلف اٹھاتے ہیں کہ آبادی کم کرنے کیلئے تمام مہذب طریقے استعمال کریں گے۔ ترغیب‘ تحریص‘ تلقین سب کچھ بروئے کار لائیں گے۔ بس کسی طرح ہمارے اربابِ بست وکشاد سے یہ بات منوا لی جائے کہ آبادی کم کرنے کی جو ڈیوٹی ڈمپروں اور ٹرالیوں کو سونپی گئی ہے وہ واپس لے لی جائے گی! ہم آپ کے بھی شکر گزار رہیں گے اور اپنے حاکموں کے بھی تابعِ فرمان رہیں گے! بس ہم پر رحم کیا جائے اور کم از کم ہمارے بچوں کو نہ کچلا جائے! خداوند آپ کی سلطنت کو قائم ودائم رکھے! حاسد تباہ ہوں اور خیر اندیش پھلیں پھولیں!