یہ ایک وڈیو تھی جو میں نے دیکھی اور روح رقص کرنے لگی!
یہ پاکستان ایئر فورس کے نوجوان تھے۔ افسر تھے یا سپاہی! فتح کی خوشی میں لُڈّی ڈال رہے تھے۔ وہ ایک دائرے میں گھوم رہے تھے۔ وہ سب بیک وقت‘ پہلے ایک پاؤں پیچھے رکھ کر ہٹتے‘ پھر دونوں بازو ہوا میں لہراتے‘ پھر دونوں ایڑیوں کو گھما کر ایک قدم آگے بڑھتے۔ ان کی یہ جنبش اُس لَے کے ساتھ ہم آہنگ ہوتی جو موسیقی کی دُھن بکھیر رہی تھی! دائرہ آہستہ آہستہ آگے بڑھتا۔ ان کے ساتھی ان کی تصویریں لے رہے تھے اور وڈیوز بنا رہے تھے۔ جو کارنامہ انہوں نے اور ان کی پوری فورس نے انجام دیا تھا‘ اس کے بعد یہ رقص‘ یہ لُڈی‘ یہ خوشی‘ یہ جشن ان کا حق تھا۔ یہ وہ جوان تھے جنہوں نے پوری قوم کا جگر ٹھنڈا کیا تھا۔ پاکستانیوں کے دلوں کی دھڑکنیں انہی کے نام منسوب تھیں۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ موت کے سفر پر روانہ ہونے والے یہ شاہین‘ جانے سے پہلے‘ خدا کے حضور جھکتے نہ ہوں! اور کامیاب وکامران واپس آکر سجدہ ہائے شکر نہ بجا لاتے ہوں۔ انہوں نے سالہا سال اپنے اپنے مشن کی مشق کی تھی۔ ہم سب جب اپنے اپنے نرم اور گرم بستروں میں سو رہے تھے‘ یہ راتوں کو‘ صبحوں کو‘ شاموں کو‘ دوپہروں کو مسلسل پریکٹس کر رہے تھے۔ جہاز اڑا رہے تھے۔ دشمن کے ٹھکانوں کے فاصلوں کے لحاظ سے‘ محلِ وقوع کے اعتبار سے‘ ایک ایک کوس‘ ایک ایک لمحہ آزما رہے تھے۔ نوٹ کر رہے تھے۔ ان کے نشانے پکّے تھے۔ ان کے ہدف ان سے بچ نہیں سکتے تھے۔ رات کا گھپ اندھیرا ہو یا شام کا جھٹپٹا‘ یا جب دوپہر کے سورج کی تیز کرنیں آنکھوں کو چندھیانے لگیں‘ ان کیلئے تمام اوقات ایک جیسے تھے۔ اس لیے کہ وقت کی زمام ہمارے ان جوانوں کے ہاتھ میں تھی۔ دشمن کی زندگی اور موت کے فیصلے کا اختیار ربِّ قُدّوس نے ہمارے لشکروں کے ہاتھ میں دیا ہوا تھا۔ ان کے سروں پر ان کے رسول کی دعاؤں کی گھنی چھاؤں تھی۔ کتنے ہی عام پاکستانی راتوں کو اٹھ اٹھ کر ان کی ظفریابی کیلئے سجدہ کناں تھے اور دعا مانگتی ہتھیلیوں پر آنسو گرا رہے تھے!
ہم جو آرام واستراحت سے چھلکتے گھروں میں بے فکر ہو کر اپنے بچو ں اور اپنے خاندانوں کے ساتھ خوش وقتیاں کر رہے ہوتے ہیں‘ کیا کبھی ہم نے سوچا کہ پاکستان ایئر فورس کا ایک پائلٹ جب دشمن کے علاقے کی طرف پرواز کر رہا ہوتا ہے‘ پاکستان آرمی کا ایک جوان یا افسر جب مورچے میں گندھک کے زہریلے دھویں میں سانس لے رہا ہوتا ہے‘ پاکستان نیوی کا مجاہد ملاح جب موت کے پانیوں پر تیر رہا ہوتا ہے‘ کیا اسے اپنے بچے یاد نہیں آتے؟ اپنی رفیقہ حیات کا خیال نہیں آتا؟ اپنے معمر ماں باپ کے بالوں کی سفیدی نہیں دکھائی دے رہی ہوتی؟ مگر یہ جوان‘ یہ افسر‘ اپنے فرض کو اپنے خاندانوں پر اور اپنی زندگی پر ترجیح دیتے ہیں۔ یہ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہیں اور زندگی کے دمکتے سکے کو ہوا میں اچھال دیتے ہیں۔ سکے کے ایک طرف موت کا نشان اور دوسری طرف سلامتی کا نشان ہوتا ہے۔ پھر تقدیر فیصلہ کرتی ہے کہ سکہ کس رخ پر گرے!
ہمارے یہ شہزادے اپنی جانیں اس لیے قربان کرتے ہیں کہ ہم عام شہری سُکھ کا سانس لیں۔ امن اور عافیت کی زندگی گزاریں! کام کر کے ملک کو ترقی کے راستے پر آگے لے جائیں! مگر کتنا بڑا المیہ ہے کہ ایک طرف تو ہمارے جوان شہادت کے جام پی رہے ہیں اور دوسری طرف ہم میں سے کچھ بے رحمی سے اس ملک کو گِدھوں کی طرح نوچ رہے ہیں۔ ہم میں سے کچھ اس حد تک ذہنی مریض ہیں کہ جس شام انہیں بھتے کی پوٹلی یا رشوت کی تھیلی نہ ملے ان کی طبیعت ناساز ہو جاتی ہے۔ ان کے گھر وں میں‘ کرنسی نوٹ گننے کی مشینیں نصب ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ کون کس کو ہر شام یا ہر روز‘ یا ہر ماہ‘ کتنا مال دیتا ہے اور یوں اپنے منصب کو آکسیجن فراہم کرتا ہے۔ ہر پاکستانی شہری کو اچھی طرح معلوم ہے کہ کون کون مسلسل مالِ حرام اکٹھا کر رہا ہے اور کون کون اس پروسیس میں استعمال ہو رہا ہے۔ قدرت کا عجب قانون ہے کہ چھپائے سے کچھ چھپتا نہیں۔ پہلے تو کہتے تھے کہ پیٹ میں پرورش پانے والا بچہ نہیں چھپ سکتا اور افراطِ زر پر پردہ نہیں ڈالا جا سکتا مگر اب بچے بچے کو معلوم ہے کہ مالِ حرام بھی نہیں چھپتا۔ یہ اور بات کہ لوگ خوف کے مارے یا مروت کی خاطر خاموش رہیں! حرام کے انگارے کھانے والے یہ بدبخت دہراعذاب پائیں گے۔ ایک اس لیے کہ انہوں نے وطن کو لُوٹا‘ نوچا اور بھنبھوڑا۔ اور دوسرا اس لیے کہ انہوں نے شہیدوں کی قربانیوں کو رائیگاں کرنے کی ناپاک کوشش کی!
یہ کیسا تماشا ہے کہ ایک طرف دہشت گردوں سے مقابلے میں ہمارے جوان اور افسر دن رات شہید ہو رہے ہیں۔ بھارتی سرحد پر ہماری فوجیں چوکس ہیں۔ ہمارے شاہینوں نے دنیا کو اپنے کرشمہ نما کارناموں سے حیران کر دیا۔ اور دوسری طرف ہماری کچہریوں میں‘ ہمارے تھانوں میں‘ ہمارے ترقیاتی اداروں میں‘ رشوت کے بغیر پتّا بھی نہیں ہلتا اور کمیشن دیے بغیر چیونٹی بھی نہیں گزر سکتی! کروڑوں اربوں روپوں سے جو پولیس پالی جا رہی ہے‘ اس کی موجودگی میں ڈاکو‘ چور‘ نوسرباز‘ اٹھائی گیرے‘ لفنگے گلی گلی آزاد پھر رہے ہیں! چیف منسٹر صاحبہ ہمت کریں! بھیس بدل کر کچہری جائیں اور رشوت دیے بغیر انتقال اراضی کرا کے دکھائیں! لگ پتا جائے گا!! یہی دیکھ لیجیے کہ صرف وفاقی دارالحکومت سے ہر روز کتنی گاڑیاں چوری ہو رہی ہیں؟ ہمیں ہمارے تضادات مار دیں گے! ہمارا کوئی ایک چہرہ تو ہے نہیں! ایک طرف ہماری افواج قربانی پر قربانی دے رہی ہیں۔ دوسری طرف ہمارے ہاں جتنے مذہبی مدارس ہیں اتنے دنیا کے کسی مسلم ملک میں نہیں! تیسری طرف ہماری مسجدیں نمازیوں سے بھری ہیں! چوتھی طرف خیراتی کاموں میں ہمارا ملک ٹاپ پر ہے۔ پانچویں طرف ہمارے ہاں رشوت قبولیت عامہ حاصل کر چکی ہے۔ محکموں میں اور اداروں میں کمیشن کے ریٹ فکس ہیں۔ چھٹی طرف ہمارے ہاں حرام کی کمائی سے کروڑ پتی اور ارب پتی بننے والے وہاں وہاں بیٹھے ہیں جہاں کا عام پاکستانی تصور تک نہیں کر سکتا۔ ساتویں طرف سیاسی جماعتوں پر کھرب پتی خاندان قابض ہیں اور ان کے گرد ٹوڈی‘ خوشامدی‘ موقع پرست اور طالع آزما مضبوط حصار باندھے ہوئے ہیں! آٹھویں طرف ہم شرق اوسط کی حفاظت کیلئے کمر کس رہے ہیں جبکہ ہماری اپنی سرحدیں مکمل غیر محفوظ ہیں! ہر ہفتے‘ بلکہ ہر روز ہمارے جوان اور افسر شہید ہو رہے ہیں۔ ہمارا سب سے زیادہ مضحکہ خیز تضاد ملاحظہ کیجیے کہ ایک طرف ہم نے اپنے سے کئی گنا بڑے ملک کو شکست فاش دی جبکہ دوسری طرف ایک چھوٹا سا ملک‘ جو معاشی حوالے سے ہمارا محتاج ہے‘ ہماری درخواستوں کو‘ ہماری وارننگ کو درخور اعتنا ہی نہیں سمجھتا۔ اس کی سرزمین سے در انداز مسلسل آ رہے ہیں۔ اگر افغانستان کی حکومت چاہے تو چند گھنٹوں کے اندر ان دہشت گرد وں کا ناطقہ بند کر سکتی ہے۔ مگر ہم اس ضمن میں بے بس ہیں اور ہمارے فوجی مسلسل شہید ہو رہے ہیں۔ ہم سر سے لے کر پاؤں تک تضادات سے اٹے پڑے ہیں۔ ہم ایٹمی طاقت ہیں۔ دوسری طرف ہم مدتوں سے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے بھیک مانگ رہے ہیں! ایسی بلندی! ایسی پستی!! ہم خوشیاں منا رہے ہیں کہ ٹرمپ صاحب ہماری تعریف کر رہے ہیں جبکہ ہم اتنے نالائق ہیں کہ حکومت دیکھتی رہتی ہے اور بلڈرز دن دہاڑے دریاؤں کے راستوں میں شہر کھڑے کر دیتے ہیں۔ پھر سیلاب تباہی مچاتا ہے تو ہم ٹسوے بہانے لگتے ہیں! ہمارے پاس دنیا کی بہترین افواج ہیں اور دنیا کی نااہل ترین مگر تکبر میں ڈوبی ہوئی بیورو کریسی بھی ہمارے ہی پاس ہے!